ملک کے کل رقبے کے 44فیصدحصے پر مشتمل سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی آبادی تو پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے بھی کم ہے لیکن اس کی جغرافیائی اور سٹر ٹیجک اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ بلوچستان جہاں اندرون ملک باقی تینوں صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبرپختو نخوا سے جڑ اہوا ہے وہیں بین الاقوامی طورپراس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے جا ملتی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکی طویل ترین771 کلو میٹرکی ساحلی پٹی پرجہاں گوادر بھی واقع ہے، دنیا بھر کی نظر یں لگی ہو ئی ہیں ۔سوئی سے نکلنے والی گیس جو بلو چستان کے پسماند ہ علا قوں کے سوا ملک بھر کو فرا ہم کی جا رہی ہے، کے ذخا ئر اب ختم ہو نے والے ہیں، تاہم یہ صوبہ تانبے سمیت کئی دوسری قیمتی معدنیات سے مالامال ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں سے تانبا نکالنے کے لیے کو شاں ہیں اورایک کمپنی جسے گز شتہ ادوار میں ٹھیکہ دیا گیا تھا کا اس حوالے سے مقدمہ بھی زیر التوا ہے۔ ان تمام حقائق کے با وجود بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین اور خراب امن و امان کا حامل صوبہ ہے ‘لیکن با قی ملک کی طر ح یہاں بھی جمہو ریت کا دور دورہ ہے ۔میڈ یا میں چونکہ بلوچستان کی کوریج وہاں کی پسماندگی سے زیادہ خراب امن و امان اور دہشت گرد ی کے حوالے سے کی جا تی ہے‘ اس بنا پر بلوچستان کی حکومت نے سینئر صحافیوں کو وہاں مدعوکیا جن کی وزیر اعلیٰ بلو چستان ثنا ء اللہ زہری اور کمانڈر سدرن کمانڈلیفٹیننٹ جنرل عامر ریا ض سے ملا قات ہو ئی‘ نیز آ ئی جی فر نٹیئرکو ر میجر جنرل شیر افگن نے انہیں صوبے کے سکیورٹی معاملات کے حوالے سے بریفنگ دی۔صحافیوں کو بلوچستان میں انتہا ئی فعال اور مستعد انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان سے بھی ملاقات کا موقع ملا ۔ کوئٹہ کی یونیورسٹیوں کا دورہ کرایا گیا جہاں طلبہ وطالبات ، وائس چانسلر صاحبان اور فیکلٹی ارکان سے ملا قاتیں ہوئیں۔ان سرکاری مصروفیات کے محور بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کا کڑ تھے جو انتہا ئی مرنجان مرنج شخصیت ہیں ۔وہ ا گلے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ان کا تعلق بیوروکر یسی سے نہیں رہا۔
عمومی طور پر دیکھا جا ئے تو نر یندر مو دی کی یہ گالی گلوچ کہ وہ کشمیر کا بد لہ بلو چستان میں علیحد گی پسند ی کی تحریک چلا کر لے گا، زمینی حقا ئق کے بالکل منا فی ہے۔ بلو چستان کے وزیر اعلیٰ جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے‘ ایک خاص فارمو لہ کے ذریعے بر سراقتدار آئے ہیں‘ جس کے تحت حکومت کے پہلے ڈھا ئی سال قوم پرستوں کے علمبردار ڈاکٹر عبدالما لک بلوچ وزیر اعلیٰ رہے اوراب باقی مدت کیلئے مسلم لیگ (ن) کو وزارت اعلیٰ ملی ہے ۔ محمو د اچکز ئی جنہیں زبر دستی اپنا مخصوص نکتہ نگا ہ رکھنے کے طفیل بعض نا قد ملک دشمن قرار دے کر تسکین حاصل کرتے ہیںکے بھائی محمد خان اچکزئی صوبے کے گو رنر ہیں۔2013ء میں جب میں نے بطور وزیر اطلاعات بلو چستان کا دورہ کیا تو اس وقت کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنر ل عالم خٹک نے مجھے بتایا کہ پاک فو ج پرامن انتخابات کروانے اور قوم پرستوں کو انتخا بات میں حصہ لینے پر آما دہ کر نے کے لیے ساز گار ما حول پیدا کر رہی ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن اور وہاں کے سکیورٹی ادارے جن میں فر نٹیئرکو ر بھی شامل ہے، خا صے کا میاب بھی رہے ۔ بلوچستان کی موجو دہ صورتحال کو اس تنا ظر میں دیکھنا چاہیے کہ پر ویز مشرف کے دور میں اکبر بگٹی کے ریاستی قتل کے بعد وہاں کے حالات اور صوبائی معاملات خاصے دگر گوں تھے اور وہاں احساس محرومی اور غم وغصے کے جذبات ابھر کر سامنے آرہے تھے ۔
بلو چستان یو نیو رسٹی کے دورے کے دوران وہاں کے طلبہ وطالبات اور وائس چانسلر ڈاکٹر جا وید اقبال سے بالمشافہ ملا قات کا شرف حا صل ہو ا ۔ دہشت گر دی کے خطرے کے با وجو د بلو چستان کی سب سے بڑ ی اور قدیم یونیورسٹی کھلی تھی اور وہاں شعبہ صحا فت کے طلبہ وطالبات نے اخبار نو یسوں اور اینکروں پر سوالات کی بو چھا ڑ کر دی ۔یہ وہ یونیورسٹی ہے جہاں پہلے نہ تو پاکستان کا جھنڈا لہرا یا جا سکتا تھا اور نہ ہی قومی ترا نہ پڑ ھا اور بجایا جا سکتا تھا۔اب صورتحا ل بالکل تبد یل ہو چکی ہے اور بلوچستان کی تمام یو نیو رسٹیوں میں پاکستان کا قومی پرچم لہرا رہا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز کا دورہ کرنے کا بھی موقع ملا،یونیورسٹی کا خوبصورت کیمپس اور سہولیات دیکھ کر یوں گمان ہوا کہ یہ تو ارفع کریم ٹاور کو بھی مات دے رہی ہے جو یقینا ایک باعث مسرت اور حوصلہ افزا بات ہے ۔جہاں ایک طرف بلو چستان تحر یک طالبان پاکستان،جنداللہ ،لشکر جھنگو ی جیسے گر وپو ں کا گڑ ھ بنا رہا ہے ‘وہاں بر اہمداغ بگٹی، حرب یا رولی،زہران مری ،ڈاکٹر منان اور جا وید مینگل، بی ایل اے اور بی ایل آر بھی کھل کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن 'را‘کی خصوصی اعانت ہونے کے باوجو د زمینی طور پر ایسے حالات نظر نہیں آ تے کہ ان کو بلوچستان کے عوام کی حما یت حا صل ہو ۔ بلو چستان سے گرفتار ہونے والا کلبھوشن یا دیو انٹیلی جنس اداروں کے لیے ایک بڑا 'کو‘ تھا، یہ انٹیلی جنس کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ہوا کہ ایک جا سوس رنگے ہا تھوں پکڑا گیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلو چستان میں سیاسی حکومت اور عسکری قیا دت کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم ہے ۔ وزیر اعلیٰ اور کو رکما نڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کے تعلقا ت انتہا ئی خو شگوار ہیں۔لیفٹیننٹ جنر ل عامر ریاض جن کا تعلق لاہو ر سے ہے ‘انتہا ئی فعال شخصیت ہیں اور صوبے میںان کی قیا دت میں فو ج اور میجر جنرل شیرافگن کی قیا دت میں فر نٹیئر کا نسٹیبلری وہ کام کر رہی ہیں جو سویلین حکومت کے کر نے کے ہوتے ہیں۔ وہاںصوبے کے سیاسی سرداراقتدار کے مزے لوٹنے میں زیا دہ مصروف نظر آتے ہیں ۔فو ج نہ صرف اپنے سکیو رٹی معاملا ت بلکہ سکو لو ں ،کالجوں، یو نیو رسٹیوں اور ہسپتا لوں کے قیام، صاف پا نی کی فراہمی اور ریلیف کے معاملا ت میں بھی کلیدی کردارادا کر رہی ہے۔ لیفٹیننٹ جنر ل عامر ریا ض جو ڈی جی ملٹر ی آپر یشز بھی رہ چکے ہیں نے صوبے کے معاملات پر بر یفنگ دینے کے لیے خصوصی طور پر عشا ئیہ پر مد عو کیا۔ وہ بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں خا صے پر امیدہیں ۔گوادر پورٹ اور سی پیک کے سکیو رٹی معاملا ت بھی انہی کے زیر کمان ہیں ۔حا ل ہی میں گو ادر پو رٹ میں سی پیک کی سکیورٹی کے حوالے سے تقر یب میں آرمی چیف جنر ل را حیل شر یف نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی مصروفیات کے باعث نہ آئے اور سی پیک کے سویلین انچارج،وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بھی وہاں نہ پہنچے، ان کی غیر حاضر ی کو وہاں شدت سے محسو س کیا گیا ۔عمومی طور پر سویلین حکومت کے اس تقر یب کے عملی طور پر 'بائیکاٹ‘سے کو ئی اچھا پیغام نہیں گیا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے ایک خصوصی انٹر ویو میں دعویٰ کیا کہ صوبے کے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیںاور ان کے مطابق بلوچستان کی علیحد گی پسند ی کی بات محض مفروضہ ہے اور بلوچستان کی احسا س محرومی کا پراپیگنڈہ ایک ڈھکوسلہ ہے۔انھوں نے بتا یا کہ پنجاب سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں رہنے والے بلو چوں کی تعداد بلو چستان میں بسنے والوں سے زیا دہ ہے ۔
ان سر کا ری مصروفیا ت کے علاوہ میں نے سوچا کہ کوئٹہ میں وکلا پر ہو نیوالے دہشت گرد ی کے سنگین واقعہ جس میں معروف وکلا کی پو ری کھیپ ہی شہید ہو گئی کی تعزیت کر لی جائے جس کیلئے میں بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر غنی خلجی سے تعزیت کر نے کے لیے سر ینا ہو ٹل کے سامنے واقع ہا ئیکو رٹ گیا ۔ جب میری ملاقات بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر اور بارروم میں بیٹھے ہو ئے وکلا سے ہو ئی تو سکیورٹی کے معاملا ت اتنے اچھے نظر نہیں آئے۔ وکلا نے سانحہ کوئٹہ کے حو الے سے عدالتوں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔فا تحہ خوانی کے بعد غنی خلجی نے بتایا کہ جب سول ہسپتال میں حا دثہ ہوا تو وہاں ڈھائی ہزار ڈاکٹروں کی تقرری ہو نے کے با وجو د کو ئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔انھوں نے اس بات پربھی افسوس کا اظہا ر کیا کہ ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے با وجو د اس سانحے کے پیچھے ہاتھ کو بے نقاب نہیں کیا جا سکا ۔
صحافیوں کے وفد نے دورے کے دوران محسوس کیا کہ بلو چستان یونیو رسٹی کھلی ہو نے کے باوجو د بہت سے ادارے سکیو رٹی خدشات کی بناپر بند اورکوئٹہ کے شہر یوں میں عدم تحفظ کا احساس نمایاں تھا ۔ اسے دور کر نے کیلئے جہاں فو جی قیادت اپنے فرائض ادا کررہی ہے وہاں سرداروں پر مشتمل سیاسی قیا دت کو بھی گورننس کے معاملات پر زیا دہ تو جہ دینی چاہیے۔ نہ صرف انھیں تعلیم اور علاج کے بارے میں روشن خیالی پر مبنی نظریات اپنا نے چاہئیں بلکہ بلو چستان کی معدنیات کی جلدازجلد کمرشل بنیادوں پر فراہمی کوممکن بنانا چاہیے۔بعض ماہرین کے مطابق بلوچستان کے تابنے کے ذخا ئر ہی پاکستان کی زرمبا دلہ کی تمام ضرورتوںکو پورا کر سکتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جا ئے تواس بڑے صوبے کے خارجی خطرات کے علاوہ داخلی معاملات کو درست کر نے کی طرف بھی بھرپور تو جہ دینی چاہیے اور یہ کام وفاق،صوبائی حکومت اورفوج کر سکتی ہے نہ سی پیک کی صورت میں چین، بلکہ یہ کام بلوچستان کے عوام کو خود کرنا ہے۔