"ANC" (space) message & send to 7575

اپنا دامن تو رفو کریں!

آ ج کل کے ہمارے پر نٹ اور الیکٹر انک میڈیا کے سرسر ی جا ئز ے سے یہی بات واضح ہو تی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور بھارت کا پاکستان کے بارے میں جنگجو یا نہ رو یہ محض وہ کھو نٹاہے جس پر اندرو نی سیاست کی جا رہی ہے ۔حسب توقع معاملا ت کو گرمانے میں کلید ی کردار تحر یک انصا ف کے سربراہ عمران خان کا ہی ہے ۔ 30ستمبر کو را ئے ونڈ کے کامیاب جلسے سے پہلے اگر خان صاحب کے ذہن میںاپنی عوامی مقبولیت کے بارے میںکو ئی خدشات تھے تووہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے ذہن سے اب دور ہو چکے ہیں ۔ وہ ایک نئے ولو لے کے ساتھ نواز شریف حکومت کو مفلو ج کر نے اور گرانے کے درپے ہیں ۔پا ر لیمنٹ کے حا لیہ مشترکہ اجلاس کے بارے میں انھوں نے پہلے یہ عند یہ دیا تھا کہ وہاں وہ نر یند ر مودی کو سخت پیغام دیں گے لیکن انھوں نے اس کا با ئیکاٹ ہی کر ڈالا اور اب عمران خان اور ان کے ساتھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ جب تک نواز شر یف استعفیٰ نہیں دیں گے یا پاناما لیکس کی بامقصد تحقیقات اور خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے، وہ پا رلیمنٹ میں نہیں جا ئیں گے ۔لیکن ماضی کے برعکس اس مر تبہ انھوںنے پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا اعلان نہیں کیا۔
عمران خان نے اچانک یہ قلا بازی کیو ں لگا ئی؟ یہ پارلیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس سے ایک روز قبل نتھیا گلی کی ٹھنڈ ی ہو اؤں کا اثر تھا جہاں ان کے معتمدین خاص جہانگیرتر ین اور اسد عمر ہمراہ تھے یا کامیاب جلسے کا نشہ! بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ کہنا ہے کہ غا لباً کسی تیسر ے امپا ئر نے پھر اشارہ دے دیا ہے، لیکن خان صاحب کو احتیا ط کر نی چاہیے کیونکہ یہ تیسر ے امپائر بڑ ے ہر جا ئی ہو تے ہیں، استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طر ح پھینک بھی دیتے ہیں۔ یقیناً اب خان صاحب سولو فلا ئٹ کر چکے ہیں، وہ بلا ول بھٹو بھی جن کے بارے میں عمران خان چند ہفتے پہلے کہہ رہے تھے کہ وہ دونوں کنٹینروں پر سوار ہو کر نواز شریف کی چھٹی کرائیں گے ،اب عنقا ہو گئے ہیں اور خان صاحب نے آصف علی زرداری کو کر پٹ تر ین کہہ کر پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کی طرزپر' مائنس ون‘ کا فارمو لہ پیش کر دیاہے ۔ تحر یک انصاف والوں کا تو کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کا مک مکا ہو چکا ہے لیکن چوہدری اعتزاز احسن اورشیر ی رحمن کی پارلیمنٹ میں تقریروںسے تو ایسا نہیں لگتا ۔ اگر خان صاحب کا یہ نظر یہ ہے کہ سیاسی جما عتیں جو اپوزیشن میں ہونے کے با وجود سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چا ہتیں اور حکومت کی جیب میں چلی گئی ہیں تو یہ ان کی کج فہمی ہے، یہ رویہ پارلیمانی جمہو ری نظام کا مکمل ادراک نہ ہو نے کی غمازی کر تاہے ۔ یہ عجیب فلسفہ ہے کہ جو میر ے ساتھ نہیں ہے وہ چور ہے ۔اس صف میں شریف خاندان اور آصف زرداری کے علا وہ مولانا فضل الر حمن ،اسفند یار ولی اورمحمود اچکز ئی بھی شا مل ہیں۔دوسر ی طرف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ میڈ یا جو بلانا غہ پی ٹی آئی کے سر برا ہ اور ان کے ساتھیوں کی گا لی گلو چ بھی لا ئیو نشر کرتا ہے ،حکومت کے ہاتھوں بک چکا ہے ۔ پی ٹی آئی کے مطابق میڈ یا کے منہ میں دوارب رو پے کے اشتہا رات کا لقمہ دے دیا گیا اور یہ اس کے علا وہ ہے جو صحا فیوں اور اینکروں کوانفر ادی طور پر نوازا گیا ہے ۔یقینا نواز لیگ کی میڈ یا مینجمنٹ جس میں لفافہ بازی بھی شامل ہے، بہت بہتر ہے ۔لیکن بعض کالی بھیڑوں کی بنا پر تمام میڈ یا کو رگڑا لگا دینا قر ین انصاف نہیں۔
ایسے مر حلے پر جبکہ افواج پاکستان کی تو جہ دہشت گردی کامقابلہ کر نے کے علاوہ پاکستان اور بھارت کی سرحدوں اور لا ئن آ ف کنٹرول کی صورت حال پر لگی ہوئی ہے، ایسی خبر یں بھی لیک کرا ئی گئی ہیں کہ فوجی اورسیا سی قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں ۔ایک انگر یز ی روز نا مہ کے مطابق حا ل ہی میں وزیر اعظم میاں نواز شر یف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے ایک اجلا س میںجس میںآرمی چیف جنر ل را حیل شریف اورڈی جی آ ئی ایس آئی بھی موجود تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شر یف اس بات پر خوب بر سے کہ صوبے میں انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے دہشت گردوں کی سر کو بی کر نے کے بارے میں تعاون نہیں کیا جا رہا ،لوگوں کو پکڑ لیا جائے توچھوڑنے کا کہا جاتا ہے ،ورنہ پنجاب پولیس دہشت گردوں کا خاتمہ کر نے کے لیے پو ری طر ح اہل ہے ۔ اس اجلاس میں مبینہ طور پر سیکرٹری خا رجہ نے یہ رونا رویا کہ پاکستان کو ممنو عہ جہا دی تنظیمو ں کے وطن عزیز میں کھل کھیلنے کی وجہ سے سفارتی تنہائی کا سامنا ہے ۔ چین نے اقوام متحد ہ کی سلامتی کو نسل میں جیش محمد پر پا بند ی کے معاملے کو پھر ویٹو کر دیا ہے ۔آخر کب تک ہم ایسی تنظیموں کو ویٹو کی بیساکھیوں کا سہا را دیتے رہیں گے۔ یقینا مغر ب حتیٰ کہ چین مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ حافظ سعید کی لشکر طیبہ ،مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد اور حقا نی نیٹ ورک جیسی تنظمیوں کو پاکستان کی سر زمین استعمال کر نے کی اجازت نہیں ہونی چا ہیے، نیز یہ ہے کہ 2008ء میں ممبئی حملے اور حا ل ہی میں پٹھا ن کو ٹ کے واقعے کی بے لا گ تحقیقات ہو نی چاہیے۔ جہاں تک ہمارے اس استدلال کا تعلق ہے کہ ہم تو خود دہشت گردی کا شکا ر ہیں اور دہشت گردوں کو کیسے پناہ دے سکتے ہیں ، دنیا ماننے کو تیا ر نہیں۔ خادم اعلیٰ کا یہ دعویٰ کہ پنجاب پولیس دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی پوری طرح اہل ہے بھی محل نظر ہے ۔اگر ملک کے باقی حصوں میں رینجرز کو متعین کیا جاتا ہے اور انھیں اختیا رات دیئے جا تے ہیں تو شر یفوں کے اس گڑھ میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔
غا لبا ًاب جبکہ آ رمی چیف کی مد ت پو ری ہو رہی ہے،حکومتی حلقوں میں بھی یہ جرأت رندانہ پیدا ہو گئی ہے کہ اتنے حسا س اجلاس کی کارروائی میڈ یا پر لیک کر دیں، اگر چہ سر کا ری ذرائع نے اس خبرکی دوٹوک تردید کی ہے۔ لیکن فو جی تر جمان نے اس بارے میں چپ سادھی ہو ئی ہے کیو نکہ ڈی جی آئی ایس پی آ ر لیفٹیننٹ جنر ل عاصم سلیم با جو ہ جو بلحاظ عہدہ ذاتی طو ر پر بھی چیف کے معتمد خصوصی بتا ئے جا تے ہیں‘ کو ہماری اطلا ع کے مطا بق اب ایسے اجلاسوں میں مدعو نہیں کیا جا تا ۔وقت آ گیا ہے کہ فوج اپنے مخصوص سکیورٹی پیراڈائم پر نظر ثانی کر ے اور سویلین حکومت بھی اس ضمن میں ڈول ڈا لے ۔ وہ لو گ جن پرخو د غدار ہو نے کا الزام لگتا رہا ہے وہ میاں نوازشریف پر بھا رت کا ایجنٹ ہو نے کا الزام لگا کر ملک کی کو ئی خدمت نہیں کر رہے۔بلاول بھٹو نے با لکل درست کہا '' انکل الطاف اور وزیر اعظم غدار نہیں ‘میرا وزیر اعظم نواز شر یف کے ساتھ کئی باتوں پر اختلا ف رہا لیکن انھیں غدار کہنے کا سو چ بھی نہیں سکتا‘‘ ۔یقینا بلاول بھٹو کو ان کے بز رگوں نے بتا یاہو گاکہ ان کے نانا جان جنہوں نے ہز ار سال جنگ لڑ نے کا دعوی ٰکیا تھا اور وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھی تھے ان پربھی غدار ہو نے کا الزام کئی بار لگا ۔ان کی والد ہ مرحومہ کو بھی نا قد ین نے غدار ٹھہر ایا۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ یحییٰ خان ،ایوب خان اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں کو تو کو ئی غدار نہیں کہتا ۔لیکن جب سیاستدان خو د ہی ایک دوسر ے پر غداری کا لیبل چسپاں کر نے لگیںتو دوسروں سے کیا گلہ ؟
حکو مت نے بہت سے عوامی نمائند وں کو کشمیر کے معاملے میں عالمی را ئے عامہ ہموار کر نے کے لیے مغربی دارا لحکومتوں کی سیر کرائی۔ مشا ہد حسین سید نے جو محض اب علامتی طور پر ہی مسلم لیگ (ق) کے سیکر ٹر ی جنرل رہ گئے ہیں، واشنگٹن میںاٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہو ئے کہا لائن آف کنٹرول پر اتنی رکاوٹیں اور پابند یاں ہیں کہ بندہ تو کیا پاکستان کی چڑ یا بھی وہاں پر نہیں مار سکتی لیکن اس دعوے کو واشنگٹن سمیت کہیں پذیر ائیحا صل نہیں ہو ئی۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے قائمہ کمیٹی بر ائے خا رجہ امور کے اجلاس میں حا فظ سعید کانام لے کر کہا ''حا فظ سعید کو ن سے انڈے دیتا ہے کہ جس وجہ سے ہم نے اسے پال رکھا ہے‘‘ را نا افضل کا کہنا تھا کہ بھا رت نے جما عت الد عوۃ کے امیر حا فظ سعید کے بارے میں دنیا بھر میں ایک ایسا تاثر قا ئم کر رکھاہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کے بارے میں دنیا کو آ گا ہ کرنے سے متعلق پاکستانی وفد کسی بھی ملک میں جا ئے تو وہاں کے ذمہ داران یہ کہتے ہیں کہ حا فظ سعید کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ایسی رکاوٹوں کو دور کر نے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے دنیا ہمیں تنہا کر کے شدت پسند ملک قرار دینے کی کوشش کر تی ہے ۔واضح رہے کہ رانا افضل اس وفد میں بھی شامل تھے جس نے مقبو ضہ کشمیر میں انسا نی حقوق کی بگڑتی ہو ئی صورت حال اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشید گی کے بارے میں فرانسیسی حکومت کو آ گا ہ کر نے کے لیے پیرس کا دورہ کیا تھا ۔مشیر خا رجہ سر تا ج عزیز کسی حدتک درست فر ما تے ہیں جب تک نر یندر مودی بر سر اقتدار ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقا ت ٹھیک نہیں ہو سکتے ۔لیکن یہ وہی مو دی ہے جس کے ساتھ چند ماہ قبل تک سر تا ج عزیز صاحب کے باس جپھیاں ڈا ل رہے تھے، مقبو ضہ کشمیر میں آزادی کی تازہ لہرکو کچلنے کے لیے بھارتی فو ج نے بر بر یت کی انتہا کر دی ہے۔92روز سے مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ اب محر م کے جلو س پر پا بند ی لگا دی گئی ہے۔ گز شتہ روز ہی بھا رتی فو ج نے گھر میں گھس کر گیا رہ سالہ بچے کو شہید کر دیا، بعد میں اس کے جنازے پر بھی شیلنگ کی گئی جس سے بیسیوں افراد زخمی ہو گئے۔ مودی اپنی فوج کی سفا کا نہ کا رروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آزادی کی تحر یک کو دہشت گردی کا رنگ دینے کے لیے سر گر م ہے۔لہٰذا ہمیں دنیا کو باور کرانا ہو گا کہ کشمیری اپنے حق کے لیے جدوجہد کر یں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کر یں ،خو د کو مضبوط بنائیں اور پھر بھا رت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کشمیر حا صل کر یں ۔ ہمیںتو سابق سوویت یو نین کے حشر سے سبق سیکھنا چاہیے کہ محض ایک مضبو ط فو ج، نیوکلیئرطا قت ہونے اور میزائلوں کے بل بوتے پر کو ئی قوم بر تر ی حا صل نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے مضبو ط معیشت‘ مستحکم اندرونی نظام اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہو تی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں