"ANC" (space) message & send to 7575

آواز دے کہاں ہے!

جوں جوں دو نومبر قریب آ رہاہے سیاسی محاذ آرائی اور بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے،اس شور شرابے میں عمران خان کی بلاناغہ میڈیا ٹاک اور بعض حکومتی بھونپوؤں کی نمبر ٹانکنے کے جوش میں تنقید حالات کو مزید خراب کر رہی ہے۔اگست 2014ء کے دھرنے میں تیسرے امپائر کی انگلی اٹھنے کا کافی چرچا ہوا تھالیکن اس وقت تو انگلی نہ اٹھی لیکن خان صاحب کا خیال ہے کہ اس بار انگلی اٹھ جائیگی ۔اب جبکہ تیسرا امپائراپنے بڑھتے ہوئے منصبی فرائض کی ادائیگی میں مگن ہے اس کے باوجود بعض سیاستدان اور میڈیا میں ان کے خود ساختہ ترجمان نفسا نفسی میں اضافہ کر رہے ہیں۔خان صاحب کہتے ہیں تیسری قوت آئی تو ذمہ دار نواز شریف ہونگے ۔خان صاحب میڈم نورجہاں کا بہت قدیم گانا '' آواز دے کہاں ہے‘ دنیا میری جواں ہے،آباد میرے دل میں امید کا جہاں ہے‘‘،گنگنا رہے ہیں ، ادھر مشاہداللہ جیسے نادان دوست اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے میاں نواز شریف کا بیڑہ ڈبونے کے درپے ہیں،یعنی''ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘،فرماتے ہیںکہ فوج اور حکومت کبھی ایک پیج پر نہیں رہے،بات ان کی شاید مبنی بر حقیقت ہو لیکن اس نازک مرحلے پر خواہ مخواہ پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ایک طرف تو حکومت جمہوریت کو بچانے کیلئے اپوزیشن کی طرف دست تعاون بڑھا رہی ہے اور اسی حوالے سے خواجہ سعد رفیق نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن مشاہداللہ‘ خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کو رگڑا لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ خورشید شاہ کا تو کہنا ہے کہ ہم جمہوریت بچانا چاہتے ہیں،2014ء میں ایسا کرنے کی وجہ سے ہم پر فرینڈلی اپوزیشن کا لیبل بھی چسپاں کیا گیا۔انہوں نے درست کہا ہے کہ مسلم لیگ ن جب مشکل میں ہوتی ہے تو گلے لگاتی ہے لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو گردن دبوچ لیتی ہے۔مشاہد اللہ جو پہلے ہی فوج کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے کی پاداش میں وزارت سے ہاتھ دھو چکے ہیں اب نہ جانے کس کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔
جہاں تک جنرل راحیل شریف کا تعلق ہے انہوں نے اتوار کولاہور میں انٹرنیشنل پیسز چیمپیئن شپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے،پاکستان پہلے سے زیادہ مستحکم ہے۔ جی ہاں! فوجی سربراہ کا یہ بیان آئی ایس پی آر کا جاری کردہ ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نہیں۔یقیناً دہشت گردی کے حوالے سے ان کی قیادت میں پاک فوج نے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیںان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔کوئی بھی فوج دہشت گردی پر اس طرح قابو نہیں پا سکتی جس طرح پاک فوج نے کر کے دکھایا ہے۔تین سال پہلے کے حالات اور آج کی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔جب ہم عراق،شام،افغانستان حتیٰ کہ ترکی کا موازنہ کریں تو ہمیں تمام تر کوتاہیوں کے باوجود پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن ایسا کرنے کے بجائے ہم سر پھٹول کر رہے ہیں۔کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر دہشت گردی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جب ایسے واقعات ہوتے ہیںتو میڈیا میں ''سکیورٹی لیپس‘‘اور ''انٹیلی جنس ناکامی ‘‘ کی بہت سی آوازیں اٹھتی ہیں۔اس سانحہ پر بھی بعض اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ٹریننگ سنٹر پر سکیورٹی کے انتظامات ناقص کیوں تھے ۔معتبر انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشتگردوں کے ارادوں اور حرکات و سکنات سے یکسر بے خبر کیوں تھیں۔اب کف افسوس ملنے اور تاسف کے سوا کیا ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی پھر آشکار ہوئی ہے کہ دہشتگردی کے محاذ پر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔خان صاحب کو تو یہ بھی گلہ ہے کہ جب وہ 'کچھ کرنے‘لگتے ہیں دہشت گردی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ان کا استدلال سیدھا سادا ہے کہ نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بلکہ 'را‘ کے ایجنٹ ہیں جن کو بچانے کیلئے نریندر مودی یہ سب کچھ کروا رہا ہے، خان صاحب کو اپنے اس انوکھے استدلال پر کچھ نظر ثانی کرنی چاہیے ۔یہ وقت اسلام آباد کو شٹ ڈاؤن کرنے کا نہیں ہے یقینا ان کی انا کا مسئلہ پاکستان سے بڑا نہیں ہونا چاہیے۔
جنرل راحیل شریف کی بے مثال کارکردگی کی بنا پر ہی اس قسم کے مطالبے اور قیاس آرائیاں کافی عرصے سے جاری ہیں کہ قواعد وضوابط کے مطابق ان کے منصب کی میعاد میں توسیع کر دی جائے حالانکہ جنرل صاحب اس سال کے شروع میں ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایکسٹینشن کے امیدوار نہیں ہیں اور مقررہ وقت پر ریٹائر ہو کر گھر چلے جائیں گے۔باخبر حلقوں کے مطابق میاں نواز شریف نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں اپنے قریب ترین مشیروں کی رائے کو بہت پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔تاہم وقت آ گیا ہے کہ موجودہ بے یقینی کی فضا کو ختم کرنے کیلئے جنرل صاحب کے جانشین کا سنیارٹی کی بنیاد پر اعلان مزید وقت ضائع کئے بغیر کر دیا جائے اور اگر میاں صاحب نے اس بارے میں اپنی مسلمہ رائے میں کوئی ترمیم یا نظر ثانی کی ہے تو اس بارے میں بھی قوم کو آگاہ کرنا چاہیے کیونکہ بعض حلقے جنرل راحیل شریف کے مستقبل کے حوالے سے اپنی سیاست کی دکان چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔خود عمران خان کیلئے بھی یہ بہتر ہو گا کہ ایسا ہو جائے کیونکہ ناقدین ان پر بے جا تنقید کرتے ہیں کہ خان صاحب کی ساری سیاست جنرل صاحب کے گرد گھوم رہی ہے۔
قومی سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی کارروائی کے بارے میں کالم نگار سرل المیڈا کی 'لیکس‘ پر مبنی درفنطنیوں کے بارے میں جو انکوائری کی جا رہی ہے اس کے نتائج فی الفور منظر عام پر آنے چاہئیں۔اگر 'پاناما گیٹ‘‘ کی طرح حکومت ''ڈان گیٹ‘‘ کو بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے دبانا چاہتی ہے تو یہ درست فیصلہ نہیں ہو گا۔اگر کوئی وزیر یا بیوروکریٹ اس سازش میں ملوث ہے تو اس کا نام طشت ازبام کرنے سے مسلسل صرف نظر کیوں کیا جارہا ہے؟ جہاں تک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا تعلق ہے اتفاق سے جنرل ضیا ء الحق کے بعد آنے والے پانچ فوجی سربراہ میاں صاحب کے ہی چنے ہوئے تھے،انہیں تو اس حوالے سے خود وسیع تجربہ ہونا چاہیے اور اس بات کا ادراک بھی کہ جنرل اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ،جنرل آصف نواز جنجوعہ،جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف میں سے کسی سے بھی ان کی نہیں نبھی اور جنرل راحیل شریف سے بھی بظاہر اچھے تعلقات کو'ڈان گیٹ‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔لہٰذا یہ کوشش کہ آرمی چیف میری ہی ڈھب اور مرضی کا ہو، تاریخ بتاتی ہے کہ سعی لاحاصل ہی ہے کیونکہ اس عہدے پر بیٹھنے والا ادارے کا ہی وفا دار ہوتا ہے لہٰذا اس پر خواہ مخواہ ''باسنگ ‘‘ کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔جنرل پرویز مشرف کو فضا میں ہی برطرف کر کے میاں صاحب نے جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف کے سٹار بھی لگا دئیے تھے۔ بٹ صاحب اگر واقعی آرمی چیف بن جاتے تب بھی انہوں نے میاں صاحب کے سامنے کورنش بجا لانے کے بجائے اپنے منصب کی تکریم اور ادارے سے ہی وفا کرنا تھی۔
اب تک نئے آرمی چیف کے طور پر تقرری کے اہل جرنیلوں کے بیک گراؤنڈ اور ان کی پیشہ وارانہ کارکردگی کی رپورٹس میاں صاحب کو مل چکی ہونگی۔خوب سے خوب تر کی تلاش میں یقیناً انہوں نے جنرل راحیل شریف سے بھی مشاورت کی ہو گی۔چند ماہ پہلے یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف کی مدت پوری ہونے کے بعد فیلڈ مارشل کا عہدہ تفویض کرکے 'سکیورٹی زار‘ بنا دیا جائے۔یقیناً دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مشن کی تکمیل کرنے اور قومی سلامتی کے حوالے سے جنرل صاحب کی گراں قدرخدمات کا فائدہ اٹھانے کیلئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا،اس اقدام سے دنیا کویہ پیغام جائے گاکہ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کی عزت افزائی کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں