سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت کے طفیل آج کے اسلام آباد کا 'شٹ ڈاؤن‘ یوم تشکر میں تبدیل ہو چکا ہے۔عمران خان نے اپنی 'فتح‘ کا اعلان کر دیا۔عدالت عظمیٰ نے 'پاناما گیٹ‘کی تحقیقات کیلئے کمیشن اور اس پر ٹی اوآرز بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے،اس طرح تمام فریقین کی عزت رہ گئی ہے۔اب خان صاحب پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرینگے،حکومت کنٹینر ہٹا دے گی اور پولیس کی ناکہ بندیاں ختم ہو جائینگی۔عمران خان کا مطالبہ تھا کہ میاں نواز شریف تلاشی دیں یا استعفیٰ دیں،ان کے بقول کل سے وزیر اعظم کی تلاشی کا عمل شروع ہو جائیگا۔عمران خان فیصلے کو اپنی فتح جبکہ حکومت کے ترجمان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فتح ان کی ہوئی ہے۔یقیناً فتح جمہوریت کی ہوئی ہے اور جو معاملات پارلیمنٹ اور عدلیہ میں طے ہونے چاہئیں وہ اب سڑکوں پر طے نہیں ہوں گے۔
تحریک انصاف کے جیالوں نے ریاستی تشدد کے خلاف خاصی جرأت مندی کا ثبوت دیا ہے،انہوں نے لاٹھیاں کھائیں،شیلنگ کا سامنا کیا لیکن لیڈر بنی گالا میں محفوظ بیٹھے رہے۔مجھے اے آر ڈی کے دورمیں بے نظیر بھٹو کی ایجی ٹیشن یاد آ گئی جب انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تو خاردار تاروں کی بھی پروا نہیں کی تھی لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی تھی،کارکنوں کی ٹھکائی ہو رہی تھی لیڈر بنی گالا میں ہی'اسیر‘ بنے ہوئے تھے۔خان صاحب یوم تشکر تو منا رہے ہیں لیکن عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔دیکھنا ہو گا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے بنائے جانیوالے کمیشن کے معاملے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔اس تناظر میں یوم تشکر تو حکومتی پارٹی کو منانا چاہیے کہ جان چھوٹی لاکھوں پائے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
عدالت عالیہ مداخلت نہ کرتی تو اسلام آباد میں آج گھمسان کا رن پڑنا تھا لیکن گزشتہ چند دنوں کی صورتحال کے تناظر میں بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کا اسلام آباد' شٹ ڈاؤن‘ کرنے کا پروگرام حکومت کی بے تدبیری کی بنا پر پہلے ہی کامیاب ہو چکا تھا،ایک انداز سے دیکھا جائے تو بات ٹھیک بھی ہے۔حکومت نے خود ہی دارالحکومت کے چاروں طرف کنٹینر لگا نے اور رکاوٹیں کھڑی کر نے کے علاوہ اسلام آباد اور پنجاب بھر میں کریک ڈاؤن کر کے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حراست میں لے کر واقعی اسلام آباد بند کر دیا تھا۔لاہور اسلام آباد ، اسلام آباد پشاور موٹر وے اور لاہور راولپنڈی جی ٹی روڈ بھی بند کر دی گئی ۔گویا کہ مقابلہ عمران خان کے' شٹ ڈاؤن‘ اور حکومت کے 'کریک ڈاؤن‘ کے درمیان تھا۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت آ رہے تھے کہ راستے میں جگہ جگہ پنجاب پولیس کی شیلنگ اور پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس آپریشن کی قیادت آئی جی پنجاب بنفس نفیس کر رہے تھے۔وفاقی حکومت نے چیف سیکرٹری کے ذریعے پرویز خٹک کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ وہ لانگ مارچ نہ کریں لیکن خٹک صاحب کا فرمانا تھا ہم نہتے ہیں اور کور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے جا رہے ہیںغالباً وہ وفاقی حکومت کو گورنر راج کے نفاذ کا جواز مہیا نہیں کرنا چاہتے تھے۔گورنر راج کا نفاذ ایک انتہائی قدم ہوتا اور وفاقی حکومت ایسا کرکے اپنے پاؤں پراور کلہاڑا مارتی۔ بعد از خرابی بسیار وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پرویز خٹک کو فون کر کے معذرت کرنے کی کوشش کی اور اسلام آباد آنے کی دعوت دی لیکن خٹک صاحب بجا طور پر ناراض تھے اور انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اللہ آپ کو بھی ایسی صورتحال سے دوچار کرے۔دوسری طرف پی ٹی آئی کے ماریں کھانے والے کارکن یقیناً کہہ رہے ہوں گے کہ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا۔
آج کا ماحول 2014ء کے ڈی چوک میں عمران خان کے دھرنے سے یکسر مختلف تھا۔اس وقت تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہونگے لیکن اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی تھی۔اس دھرنے میں علامہ طاہر القادری اور ان کے ساتھی بھی شریک تھے اور خان صاحب کااستدلال تھا کہ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر یلغار پاکستان عوامی تحریک کے ورکروں نے کی تھی۔بعد ازاں طاہر القادری کو جب یہ نظر آیا کہ تیسرا امپائر انگلی نہیں اٹھا رہا تو بوریا بستر باندھ کر کینیڈا پدھار گئے۔اس مرتبہ طاہر القادری عمران خان کے' شٹ ڈاؤن‘ کی اصولی طور پر حمایت کرنے کے باوجود عنقا تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ مراکش اور لندن میں مصروف ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ طاہرالقادری صاحب اب بھی عمران خان سے ناراض ہیں اور اس بنا پر سوچی سمجھی انڈر سٹینڈنگ کے تحت بیرون ملک جانے کے فیصلے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ علامہ صاحب نے بھانپ لیا ہے کہ اس مرتبہ خان صاحب کا شٹ ڈاؤن گزشتہ دھرنے کی طرح پکنک پارٹی نہیں۔ حکومت نے برملا طور پر ریڈ لائن کھینچی، اس کا استدلال ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت کو کسی طور شٹ ڈاؤن نہیں ہونے دیں گے۔
2008 ء سے لے کر اب تک ملک میں تحریر و تقریر ،جلسہ جلوس اور دھرنے بازی پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی نہ ہی سیاسی بنیادوں پر سیاستدانوں کی امتناعی نظر بندی کی پرانی روایت پر عملدرآمد کیا گیا لیکن اب کا معاملہ قدرے مختلف تھا،گرفتاریاں بھی ہوئیں، لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی۔اس تناظر میں پی ٹی آئی کے نوجوان خواتین و حضرات کی صورت میں جیالوں کا ملکی سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے،ان میں سے اکثر یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے ہوں گے یا سن بلوغت میں ہوں گے جب جمہوری جدوجہد کے مقصد کیلئے سڑکوں پر آنا اور لاٹھیاں گولیاں کھانا معمول تھا۔آج جیسے نواز شریف کیخلاف عمران خان سرگرم عمل ہیںاسی طرح ائیر مارشل (ر) اصغر خان وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کیلئے سڑکوں پر سر گرم عمل رہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت ہر جگہ ان کی نقل و حرکت پرپابندی لگا دیتی تھی۔اس بحران کے دوران موجودہ حکومت کا طرز عمل یقیناً پسندیدہ نہیں تھا اور اس سے سیاست میں پرانی تلخیاں لوٹ آئیں لیکن دوسری طرف کوئی بھی حکومت دارالحکومت کو شٹ ڈاؤن کرنے ،جس کا مقصد وزیر اعظم سے استعفیٰ لینا ہو ،کے سامنے خاموش تماشائی نہیں بن سکتی تھی۔شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز بھی مذاکرات کی بات کی ،حکومت بھی شاید یہی چاہتی ہو لیکن ایسے مذاکرات جس کی ابتدا ہی وزیر اعظم نواز شریف کی چھٹی ہو حکومت کیلئے کس طرح قابل قبول ہو سکتی تھی۔یقیناً اس وقت بھی '' پاناما گیٹ‘‘ کے ایسے ٹی اوآرز بن جاتے جو نواز شریف کے خلاف تحقیقات کیلئے مخصوص نہ ہوتے تو ''پاناما لیکس‘‘ کی تحقیقات کے نتیجے میںشاید ہی نتیجہ نکلتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن میں بھی کچھ ایسے عناصر موجود تھے جو یہ چاہتے تھے کہ ٹی اوآرز نہ بن پائیں اور نہ ہی اس معاملے کی کمیشن کے ذریعے تحقیقات ہو بلکہ معاملے میں تیسرے امپائر کو کسی طریقے سے گھسیٹا جائے۔آفرین ہے تیسرے امپائر پر وہ پھر طرح دے گیا ہے ۔
نقطہ وضاحت: گزشتہ روز وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں فرمایا کہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے وفد کی موجودگی میں انہوں نے' ڈان‘ کی متنازعہ خبر دینے والے بلاگر سرل المیڈا کو ای سی ایل سے نکالا تھا کیونکہ ان دونوں تنظیموں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بیرون ملک نہیں جا ئیںگے ۔میں اگرچہ اس میٹنگ میں بطور صحافی ذاتی حیثیت میں موجود تھا تاہم جہاں تک میری یادداشت کام دیتی ہے ایسی کوئی یقین دہانی اس اجلاس میں نہیں کرائی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ حکومت سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکالنا چاہتی تھی اور یہ بندوق اے پی این ایس اور سی پی این ای کے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی۔ایک اور منچلے نے یہ بھی تبصرہ کیا ہے کہ ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکلنے کے باوجود اسے باہر نہیں جانے دیا جا رہا لیکن سرل المیڈا کیسے نکل گیا۔