گزشتہ چند دنوں اور ہفتوں کے دوران پاکستان کے سیاسی ماحول میں طاری رہنے والی ہذیانی کیفیت کے باعث پاکستان کے عوام کی عالمی منظر نامے پر ہونیوالی سرگرمیوں میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی۔بالخصوص امریکی صدارتی مہم پر بھی میڈیا کا فوکس بہت کم رہا۔اب کل پولنگ ڈے پر ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ری پبلیکن کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی خواتین،مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف ہرزہ سرائی کی بنا پر ہیلری کلنٹن کو واضح برتری حاصل تھی لیکن انتخابات سے عین چند روز قبل بطور وزیر خارجہ ان کی بعض سرکاری ای میلز ذاتی سرور پر موجودہونے کے باعث ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے ان کیخلاف تحقیقات کا عندیہ دیدیا ہے۔دراصل ہیلری کلنٹن اور ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن کے بارے میں مختلف قسم کے سکینڈلزموجود ہیں۔میاں بیوی کے مالی معاملات بالخصوص کلنٹن فاؤنڈیشن کے اموراور مختلف مقامات پر تقریریں کرنے کے عوض کروڑوں ڈالر اینٹھنے اور سب سے بڑ ھ کربل کلنٹن کے معاشقوں کی بنا پر عام تاثر یہ ہے کہ ان کی دیانتداری اور پارسائی الیکٹوریٹ کے نزدیک قابل اعتماد نہیں ہے۔اسی بنا پر الیکشن سے عین قبل ہیلری کلنٹن کی انتخابی برتری بہت کم رہ گئی ہے۔دوسری طرف ڈونلڈٹرمپ جو ایک بہت بڑے پراپر ٹی ٹائیکون ہیں کے مالی معاملات بھی کافی مشکوک ہیں۔ موصوف اپنی کمپنیوں کو دیوالیہ قرار دے کر مال کمانے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیںاور اس بات پر بھی فخر کرتے ہیں کہ وہ اپنی ''مہارت‘‘ کی بنا پر ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں۔ٹرمپ اپنے ٹیکس ریٹرن کا اظہار کرنے سے برملا انکاری ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی الیکٹوریٹ کیلئے یہ خوب سے خوب تر کی تلاش نہیں بلکہ نا خوب اور زیادہ ناخوب کے درمیان چوائس ہے۔اگر امریکہ‘ عمران خان کا 'نیا پاکستان‘ ہوتا تو ان کے نزدیک دونوں امیدواروں کو تلاشی دینا پڑ تی اور کب کا نااہل قرار دے دینا چاہیے تھا لیکن امریکی نظام جو اداروں کے درمیان چیک اور بیلنس کو قائم رکھے ہوئے ہے وہاںصدارتی الیکشن پر اسس اتنا لمبا اور گنجلک ہے کہ اس کی چھاننی میں سے گزرنا ہر امیدوار کے بس کا روگ نہیں ہے۔مثال کے طور پر ٹرمپ کے غیرشائستہ رویے کے باوجود ری پبلیکن پارٹی انہیں اپنا امیدوار بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔یہ طرفہ تماشا ہے کہ بش فیملی سمیت ری پبلیکن پارٹی کے
بڑے بڑے ستون ان کی حمایت کرنے سے اب بھی انکاری ہیں۔
امریکی صدارت کے حوالے سے ہمارے ہاں ہمیشہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ پاکستان کے لئے کون سا امیدوار بہتر ہے۔ہمارے اکثر لوگ امریکہ سے ناراض رہتے ہیں کہ وہ ہمیں استعمال کر کے چھوڑ دیتا ہے اور بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتا ہے؛ حالانکہ ہمارے ماضی اور حال کے حکمران بھی امریکہ سے خوب مال اینٹھتے ہیں گویا کہ ممالک کے درمیان دوستی ہیر رانجھا کا قصہ نہیں ہوتا اور اس لحاظ سے امریکہ میں کوئی بھی صدر بنے وہ امریکہ کے دفاعی اور اقتصادی مفادات کو ہی مدنظر رکھے گا نہ کہ پاکستان کے مفادات کو۔یقیناً ٹرمپ کو جس انداز سے امریکہ میں بھارتی لابی سپورٹ کر رہی ہے اور ٹرمپ کے مسلمان دشمن بیانات کے تناظر میںدیکھا جائے تو شاید ہیلری کلنٹن ہی پاکستان کے لئے بہتر صدر ثابت ہونگی۔ حال ہی میں شکاگو کے ایک 67 سالہ کھرب پتی بھارتی نژاد امریکی شلابھ کمار نے ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نیو جرسی میں فنڈ ریزنگ عشائیہ کا اہتمام کیا۔کمار نے ری پبلیکن ہندو کولیشن کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کاکام ہی پاکستان کے خلاف لابنگ کرنا ہے۔ یہ وہی شلابھ کمار ہے جو 2013 ء میں امریکی کانگریس کے وفد کوموجودہ بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرانے کیلئے بھارتی گجرات لیکر گیا تھا ‘ اس نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے دس لاکھ ڈالر دئیے ہیں۔نیو جرسی کے اس ڈنر جس میں ڈونلڈ ٹرمپ جلوہ افروز تھے کا مقصد ''دہشتگردی کا شکار ہندوؤں‘‘ کی مدد کیلئے فنڈز اکٹھا کرنا تھا۔تقریب میں بھارتی اداکارہ ملائیکہ اروڑہ اور بالی ووڈ کے دیگر سپر سٹاروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔وہاں موجود لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ '' سی آئی اے پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کرنا چھوڑ دے‘‘۔ تقریب میں چھ ڈانسر جنہوں نے فوجی لباس پہنا ہوا تھا‘ پلاسٹک کے اسلحے کیساتھ ''دہشتگردوں‘‘ کا مقابلہ کر رہے تھے جنہوں نے سیا ہ منی ڈریس میں ملبوس خواتین کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ظاہر ہے اشارہ پاکستان کی طرف تھا ۔پاکستان مخالف نعروں کی گونج میں شلابھ کمار کا خود کہنا تھا کہ ٹرمپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ایک دن دیوالی مناتے اور دوسرے دن پاکستان کو ایف سولہ دے دیتے ہیں۔کمار نے مزید کہا کہ اگلی دہائی انڈیا اور امریکہ کی ہے۔ٹرمپ جلسے میں آئے تو انہوں نے بھارت میں ہونے والے'' دہشتگردی‘‘ کے دو واقعات کی مذمت کی اور بلند آواز میںکہا کہ'' ہم بھارت سے پیار کرتے ہیں،ہم ہندوؤں سے پیار کرتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف ہیلری کلنٹن جو پاکستان کو اچھی طرح جانتی ،سمجھتی اور بطور خاتون اول و وزیر خارجہ پاکستان کا کئی مرتبہ دورہ کر چکی ہیں،ان کی دست راست ایک خاتون ہما عابدین ہیںجن کی والدہ پاکستانی جبکہ والد سعودی ہیں۔ہما امریکہ میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے کچھ عرصہ سعودی عرب میں بھی گزارا۔ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کا حواری میڈیا ان پر مسلمانوں بلکہ القاعدہ کی ایجنٹ ہونے کا بھی الزام لگا رہے ہیں۔اب الیکشن سے عین قبل اسی نام نہاد ری پبلیکن ہندو کولیشن نے ہما عابدین کے پاکستانی نژاد ہونے کے حوالے سے ایک مخالفانہ ویڈیو اشتہار تیار کیا ہے ۔اس ویڈیو کا مقصد بھارتی شہریوں کو ٹرمپ کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا ہے۔اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ہیلری کلنٹن کے زیر اہتمام بھارت کیخلاف پاکستان کو کئی ملین ڈالر کی فوجی و اقتصادی امداد دی گئی۔نیز یہ کہ ہما عابدین پاکستانی نژاد ہیں اور اگر ہیلری جیت گئیں تو یہ خاتون ان کی چیف آف سٹاف بن جائیگی۔ایک اور اشتہار میں جو اسی
شلابھ کمار کی اختراع ہے ،میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہندی بولتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات،پوسٹروں اور پراپیگنڈا کے دیگر ذرائع کے توسط سے بھی ٹرمپ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔یہ الگ قصہ ہے کہ ہما عابدین کے خاوند اینتھونی وینر جن سے اب ان کی علیحدگی ہو چکی ہے‘ ایک یہودی کانگریس مین تھا جسے بعض جنسی سکینڈلز کی بنا پر مستعفی ہونا پڑا اور اس کے کمپیوٹر پر ہیلری کلنٹن کے سرکاری امور کے بارے میںای میلز پائے جانے کی تحقیقات ہو رہی ہے۔
امید واثق تو یہی ہے کہ ہیلری کلنٹن میلہ لوٹ لیں گی اور پاکستانیوں اور دنیائے اسلام کے مفاد میں بھی یہی ہے لیکن یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ میں بھارت کی اتنی بھرپور لابنگ کے مقابلے میں ہم کیا کر رہے ہیں۔امریکہ کو جتنی بھی گالیاں دیں وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم ہے۔ نیز آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے بھی امر یکی اشیر باد سے مشر وط ہو تے ہیں ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ میں ہمارے سفارتی نمائندے اور متمول پاکستانیوں پر مشتمل لابیاں کیا کر رہی ہیں۔غالباً یہ لابیاں تو ''گو نواز گو‘‘ کا راگ ہی الاپنے میںمصروف ہیں۔