اس وقت پاکستان کی سیا ست دو بڑ ے ''سکینڈ لز ‘‘پاناماگیٹ اور ڈا ن گیٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔ اپوزیشن بالخصوص پاکستا ن تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحر یک کامطمح نظر یہ ہے کہ ان کے طفیل وزیر اعظم میاں نواز شر یف کو گھر بھیج دیا جائے ۔عمران خان کاسڑ کوں پر شو رش بپا کر کے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا فارمو لہ دوسر ی بار ناکام ہو ا ہے۔ 2014ء میں ہونے والا 126روزہ دھر نا آرمی پبلک سکول پشا ور میں ہو نے والی ٹریجڈ ی کے باعث ‘جس میں141طلبا ء واساتذہ شہید ہوئے تھے‘ ختم کر دیا گیا ۔اب کی با ر سپر یم کو رٹ خان صاحب کے کا م آ ئی ۔ تحر یک انصاف کی اسلام آبا د کو ' شٹ ڈا ؤن ‘کر کے وزیر اعظم کو مستعفی ہو نے پر مجبو ر کر نے کی حکمت عملی یکسر ناکا م رہی ۔ لا کھو ں کا مجمع اکٹھا کر نے والا لیڈر'شٹ ڈاؤن ‘کے لیے چندہزار بندے ہی جمع کر پایا اور 2نومبر کے 'معرکے ‘ سے قبل ہی خان صاحب سمیت پی ٹی آئی کی ا علیٰ لیڈر شپ نے خود کو 400کنال پر پھیلی بنی گا لہ رہا ئش گا ہ تک ہی محدود رکھا ۔ دوسر ی طرف خواتین سمیت وہ 'کھلا ڑی ‘جو تمام رکا وٹیں تو ڑ کر بنی گا لہ کے قر یب پہنچنے میں کا میا ب ہو گئے تھے‘ کی پولیس نے لا ٹھی چارج ،آنسو گیس اور ربڑ بلٹس سے 'خا طر خو اہ تو اضع‘ کی ۔یقینا ریا ستی تشدد کا یہ بے محابا استعمال ہر لحا ظ سے غیر جمہوری اور قابل مذمت ہے۔لیکن حکومت کا موقف یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت وفا قی دارالحکومت کوطا قت کے بل بوتے پر بند کر نے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا حکومت نے وقتی طور پر اسلام آبادکو با قی پاکستان سے کا ٹ کر خان صاحب کا 'شٹ ڈاؤن‘ کا مشن خود ہی پو را کر دیا۔ جہاں تک تیسر ے امپا ئر کا تعلق ہے یہ پھر ہر جا ئی ہی ثابت ہو ا ۔ سپر یم کو رٹ کی طرف سے معاملے کا نو ٹس لینے پرخان صاحب نے یہ کہہ کر 'شٹ ڈاؤن‘ کی تحریک ختم کر دی کہ مبارک ہو مشن پو را ہو گیا لہٰذا2نومبر کو یوم تشکر منا یا جا ئے گا ۔اور پھر2نومبرکو پر یڈگر اؤنڈ کے جلسے میں یوم تشکر منا کر کھلا ڑیوں کی اشک اشو ئی کرنے کی کو شش کی گئی ۔
سنا ہے کہ عمران خان اپنی پارٹی کی پنجاب کی لیڈرشپ سے سخت نالا ں ہیں کہ وہ چند ہز ار بندے بھی اسلام آباد نہیں لا سکے ۔ایک اخبار ی خبر کے مطابق تو بہت سے لیڈروں نے بند ے لا نے کے تکلف سے بچنے کے لیے گر فتا ر ہونے کو تر جیح دی۔ جہا ں تک خیبر پختو نخوا کے وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کا تعلق ہے انھوں نے کم ازکم اپنے جتھے سمیت اسلام آبا د پہنچنے کی بھر پو ر کو شش کی ۔اگر چہ انھیں بھی پنجاب پو لیس کی کھڑی کر دہ رکا وٹو ں،آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور دوسر ی کا رروائیوں کا سا منا کر نا پڑا ۔ خیبر پختو نخو ا سے بھی حا ضری قدرے کم تھی یہ تو اچھا ہی ہواکہ خان صاحب نے انھیں واپس جانے کا کہہ دیا کیو نکہ ایک صوبے کے چیف ایگز یکٹو کی وفاقی دارالحکومت پر یلغار کو ئی اچھی روایت نہیں تھی اور اس کے مضمرات انتہائی خطرناک ہو سکتے تھے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب اپنی لیڈر شپ سے مشاورت کریں کہ بڑے بڑے جلسے جلو س کر نے کے با وجو د ان کی مو جودہ حکمت عملی کیو نکر ناکام ہوئی؟۔مقام شکر ہے کہ تحر یک انصاف کی لیڈرشپ نے وقتی طور پر ہی سہی عدالتوں پر عدم اعتما د کر نے کی پالیسی کو خیر با د کہہ دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ انتہائی باوقار انداز سے ''پاناماگیٹ ‘‘کیس کی کا رروائی کو آ گے لے جا رہی ہے اور فا ضل جج صاحبان نے نواز شر یف فیملی سے ڈنگ ٹپاؤجوابات کے بجائے پو ری تفصیلا ت منگوائی ہیں ۔اس تناظر میں اب فر یقین کو عدالت کے باہر میڈ یا کی دکان چمکا نے کے بجا ئے صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے ۔طلا ل چوہدری جو نواز لیگ حکومت کے بھو نپو بن چکے ہیںنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ میاں نواز شر یف کوپہلے ایٹمی دھما کہ کر نے کی سزا دی گئی اب سی پیک کی بنا پر انھیں ٹا رگٹ کیا جا رہا ہے ۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ حکمران جماعت اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے ہر چیز کو اپنے خلاف مذموم سازش ہی قرار دیتی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے اس قسم کی بیان بازی کا نو ٹس لیتے ہو ئے کہا ہے کہ سپریم کو رٹ کے احاطے کو میڈ یا کے ذریعے پراپیگنڈا جنگ کے لیے استعمال نہ کیا جا ئے ۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی پا رلیمنٹ سے مسلسل غیر حا ضر رہنے کی روش کو اب ترک کر دینا چاہیے ۔پہلے پی ٹی آ ئی کے پا رلیمنٹر ین دھر نے کے دوران استعفے دے کر باہر بیٹھے رہے اور اب مسلسل بائیکا ٹ کی حالت میںہیں ۔تیسر ی بڑ ی پا رٹی کے طور پر پی ٹی آ ئی کو بطور اپو زیشن قومی اور صوبا ئی اسمبلیوں اورسینیٹ میں اپنا بھر پور کر دار ادا کر نا چاہیے۔ حالیہ ' شٹ ڈا ؤن‘ کی ناکامی سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ خان صاحب ہلّے گلّے اور ڈی جے بٹ کی دھنوں کی تھا پ پر ریلیاں تو کر سکتے ہیں لیکن ریا ستی تشدد کے خلا ف ان کی جما عت کی تنظیم انتہا ئی کمزور ہے ۔لاہو ر میں چو ہدری سرور ،ولید اقبال اور علیم خان بہت بڑ ے نام ہیں لیکن بندے اکٹھے کر نے کے معاملے میں گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کے مترادف نکلے۔ اگلے عام انتخابات 2018ء یااس سے قبل بھی ہو ئے تو پی ٹی آ ئی کو کچھ نہ کچھ تنظیمی مہا رت کی ضرورت ہو گی جوپنجاب میں زمینی طور پرنظر نہیں آ تی ۔
دوسر ی طرف ''ڈان گیٹ ‘‘کی تحقیقا ت کے لیے تحر یک انصاف ،مسلم لیگ(ق)اور پاکستان عوامی تحریک نے وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان کی طر ف سے ہا ئیکو ر ٹ کے ریٹا ئر ڈ جج کی سربرا ہی میں تحقیقاتی کمیٹی کومستر د کر دیا ۔واضح طور پر لگتا ہے کہ حکومت ''پانا مالیکس ‘‘ کی طر ح اس معاملے کو بھی دانستہ طورپر لمبا لٹکانا چاہتی ہے ۔کمیٹی کی سربراہی جسٹس(ر) عامر رضا خان کرینگے جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز،محتسب پنجاب نجم سعید، ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر عثمان انورکمیٹی کے ارکان ہونگے اس کے علاوہ آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل ہو گا ۔پی ٹی آئی اور بعض دیگر حلقوں نے اس کمیٹی بلکہ اس کے سربراہ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔غالباً حکومت نے موجودہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیکر عملی طور پر معاملے سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ اس کے سربراہ سمیت سب ارکان کا تعلق پنجاب سے ہے گویا کہ یہ سارا معاملہ پنجاب سے ہی ہے۔بعض تجز یہ کا روںکاخیا ل ہے کہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقر ری کے اعلان ہو نے تک انتظار کر رہی ہے جس میں اب چند روز ہی رہ گئے ہیں۔ متنا زعہ خبر نگار سر ل المیڈاپہلے ہی حکومت کے سامنے امر یکہ جا چکا ہے۔ یقینا اسے ای سی ایل سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن اس کے با وجو د اگر حکومت چاہتی تو وہ بیرون ملک نہیں جا سکتا تھا۔شنید ہے کہ وزیر داخلہ چو ہدری نثار علی خان بھی‘ جن کا اس سارے معاملے کی چھان بین میں بظاہر کلیدی کردار رہا ہے ‘علاج کے بہا نے طو یل عر صے کے لیے بیرون ملک جا رہے ہیں۔اللہ اللہ خیر سلا!