"ANC" (space) message & send to 7575

ٹامک ٹوئیاں……

درگا ہ شاہ نورانی پر خو د کش حملے پر‘ جس میں قر یباً پچاس سے زائد زائر ین شہید ہو گئے ہیں‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنا ء اللہ زہر ی کا یہ تبصر ہ کہ خو د کش حملے اگر نیٹو فو ج نہیں رو ک سکی تو ہم کس باغ کی مو لی ہیں،لمحہ فکر یہ ہے۔مو صوف کا یہ بیان گز شتہ چار ما ہ کے دوران دہشت گرد ی کی تین بڑ ی کا رروائیوں میں شہیدوں کے ورثا اور زخمی ہونے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔اگر صو بے کا انتظا می وسیا سی سر برا ہ یہ کہہ رہا ہو کہ ہم دہشت گردوں کے آ گے بے بس ہیں تو وہاں بسنے والے بے بس اور غر یب عوام کہا ں جا ئیں ۔دہشت گردی کی حا لیہ لہر کا آغاز8اگست کوکوئٹہ میں وکلا کو نشانہ بنانے سے ہوا‘ جس میں ان کی صف اول کی کر یم دہشت گردی کی نذر ہو گئی ۔ اس اندوہناک واردات کا ابھی تک سرا نہیں مل سکا اور عدالتی تحقیقات کے دوران سکیورٹی ادارے ٹا مک ٹو ٹیاں ہی ماررہے ہیں ۔ جہا ں تک گز شتہ ماہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کا تعلق ہے‘ وہ تو ایک کھلم کھلا سکیو رٹی لیپس تھا ۔ ٹریننگ سکو ل کی دیواریں ٹو ٹی ہو ئی تھیں اور اس کی حفاظت کے لیے گارڈز نہ ہونے کے برابر تھے ۔ اس لحا ظ سے وہاں ٹر یننگ لینے والے کیڈ ٹ دہشت گردوں کے لیے ترنوالہ ثابت ہوئے۔ اب ضلع لسبیلہ میں درگا ہ شاہ نورانی پر دھمال ڈا لنے والوں کا جو حشر کیا گیا ہے،اس تنا ظر میں پاکستان کے رقبے کے لحا ظ سے سب سے بڑ ے صوبے جو معدنی دولت سے مالا مال ہے کے رہنے والے کس قسم کے شدید عدم تحفظ کا شکا ر ہیں ‘اس کا اندازہ شاید باقی ملک میں رہنے والے شہریوں کے لیے مشکل ہے ۔ہر مر تبہ جب دہشت گرد ی کی واردات ہوتی ہے‘ ہمارے سول اور خاکی حکمران کہتے ہیں کہ دہشت گرد بھا گ رہے ہیں اور یہ کارروائیاں کرنے والے سی پیک سے خائف ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘،افغا نستان کی انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس اور اسرائیلی مو سا د کے ایجنٹ ہیں، نہ جانے کیوں شتر مر غ کی طر ح ہم نے اپنا سر ریت میں دبا رکھا ہے اور ہم حقائق کو تسلیم کر نے کے لیے تیا ر ہی نہیں ۔ ہمارے حکمران ایسے سانحوں کو دشمن کی کارروائی قرار دے کر اپنی انتظامی کوتاہیوں اور انٹیلی جنس کی مسلسل ناکامی سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ نہ جانے وہ تنظیمیں جو مذہب کے نام پر سالہا سال سے دہشت گردی پھیلا رہی ہیں، ان کانام لیتے ہوئے ہمارے منہ میں گھنگھنیاں کیو ں پڑ جا تی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سکیو رٹی اداروں کے اس دعوے پر اصرار کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود ہی نہیں کے باوجود داعش دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے ۔کچھ عر صے پہلے یہ خبر بھی آئی تھی کہ القا عدہ نے داعش کو پاکستان میں دہشت گر دی بر پا کر نے کا ٹھیکہ دے دیا ہے ۔ یقینا بھارتی وزیر اعظم نریندر مو دی کی اس کھلم کھلا دھمکی کہ کشمیر کا بدلہ بلو چستان میں لیا جا ئے گا کے تناظر میں بھارت کی طرف سے صوبے میں دہشت گر دی کا نیٹ ورک بچھانے کو خا رج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔لیکن یہاں یہ سوال پید اہو تا ہے کہ اگر دشمن بلوچستان میں بلا رکاوٹ اور دیدہ دلیری سے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اس انداز سے کھل کھیل رہا ہے توبلوچستان جیسے حسا س صوبے میں جہاں ہمارے سکیو رٹی اور انٹیلی جنس ادارے پو ری طر ح فعال ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں؟ ان کا اظہا رِ بے بسی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں کے بارے میں پو ری طر ح باخبر نہیں ہوتے۔ہر مر تبہ وزیر اعظم اور آرمی چیف ہسپتا لو ں کا دورہ ،زخمیوں کی عیا دت کرتے ہیں اور جاں بحق ہو نے والوں کے ورثا کیلئے امداد کا اعلان کر نے کے بعد اپنااپنا کام کر کے واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن ذمہ داروں کا تعین کرنے کے حوالے سے ہمارے قانون اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں اورسکیو رٹی ایجنسیوں کے اہلکا روں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور نہ ہی کوتاہی کے مر تکب افراد کے خلاف آج تک کو ئی کارروائی ہو ئی ہے ۔
دوسر ی طرف اچھی خبر یہ ہے کہ سی پیک کا خواب حقیقت بن چکاہے اورگوادرپو رٹ سے چینی تجا رت شر وع ہو چکی ہے ۔ٹر یڈ کا نو ائے کی افتتا حی تقر یب جس میں آ رمی چیف نے تختی کی نقاب کشائی بھی کی ، وزیر اعظم میاں نواز شریف کا فرما نا تھا کہ سی پیک کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے ۔یہ بات تو اصولی طور پر درست ہے لیکن ہم دشمن کا قلع قمع کر نے اور اس کی سرکوبی کے لیے کیا کر رہے ہیں ۔جنر ل را حیل شریف تو بطور آ رمی چیف اپنے تین بر س گز ار کر اب گھر جانے والے ہیں ۔انھوں نے یقینا ان تین برسوں میں دہشت گردوں کو نا کوں چنے چبوائے ہیں۔ مجمو عی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں اعدادو شما ر کے حوالے سے دہشت گرد ی کی وارداتیں بہت کم ہو گئی ہیں لیکن جہاں باقی پاکستان محفوظ نظر آ تا ہے وہاں بلوچستان کے عوام شد ید قسم کی دہشت گردی کی لہر کا سامنا کر رہے ہیں ۔ باقی پا کستان میں بسنے والے لو گ ایسی وارداتوں کے تسلسل سے کسی حد تک لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں جیسے کہ بلو چستان کا معاملہ شام، عراق یاکسی اور ملک کی طرح ہے ۔بر اہمد اغ بگٹی جو پاکستان دشمن ہے‘ صوبے میں مز ید پیچید گی پید اکر رہا ہے۔ لیکن مو جو دہ سیا سی وفوجی قیا دت نے خا صی حد تک بلوچستان کے ایسے علاقے جہاں پاکستان کا جھنڈانہیں لہرایا جاسکتا تھا وہاں سٹیٹ کی رٹ بحا ل کی ہے‘ جس کے لیے یقینا وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن اگر ہم واقعی بلو چستان کی معدنیات اور ساحل سمند ر گوادر سے انتہا ئی پسماندہ صوبے کو خصوصی طور پراور پاکستان کو مجمو عی طور پر فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ مربوط پالیسیاں اور کا رروائیاں کرنا پڑ یں گی ، ڈنگ ٹپا ؤ طر یقے سے کام نہیں چلے گا ۔ 
تحر یک انصاف کے سر برا ہ عمران خان نے اپنے اسی فیصلہ کو صاد کیا ہے کہ ان کی جما عت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس جس سے ترکی کے صدر طیب اردوان نے خطاب کر نا ہے کا بائیکا ٹ کرے گی ۔بظاہر یہ فیصلہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت پا رٹی کے چیئر مین فر ما رہے تھے لیکن اندر کی خبر یہی ہے کہ پی ٹی آ ئی سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان نے اس فیصلے پر تحفظا ت کا اظہا ر کیا ہے لیکن خان صاحب نے انھیں ویٹو کر دیا، گو یا کہ اس فیصلے کے پیچھے یہ سوچ کار فر ماتھی کہ اگر پی ٹی آ ئی کے ارکان پارلیمنٹ نے میاں نواز شر یف کی موجودگی میں اردوان کی تقر یر سنی تو انھیں وزیر اعظم تسلیم کر نے کے مترادف ہو گا اور' پاناما گیٹ ‘ کے فیصلے تک وہ ایسا نہیں کر سکتے۔تاہم اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے ترک سفیر سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے ترک صدر اور چیئرمین پی ٹی آئی کی الگ ملاقات کی درخواست کی تھی‘ اس موقع پر ترک سفیر نے بھی پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ نہ کرنے کا کہا تھا۔ نہ جانے پی ٹی آ ئی نقصان اٹھا نے کے باوجو د بائیکا ٹ، دھرنے اور جلسے جلو س کی سیا ست سے با ہر کیو ں نہیں نکل سکی۔ اردوان صدر ممنون حسین کی دعوت پر پاکستان آ ئے ہیں اور یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ تر کی ہمارا قریب تر ین دوست اور بھائی ہے ۔مسئلہ تر کی اور پاکستان کے بھا ئی چارے کاہے جو تا ریخی طور پر اردوان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعدمیں بھی قائم رہے گا ۔ تر کی کسی حکمران خاندان کی ذاتی جا گیر نہیں ہے لہٰذا خا ن صاحب کو اردوان سے علیحدہ وقت مانگنے کے بجائے اپنے اس عاقبت نا اند یشانہ فیصلے پر نظر ثانی کر نا ہو گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں