"ANC" (space) message & send to 7575

نورتنوں کے بجائے اسلام آباد اور پنڈی

میاں نواز شر یف بھو لے بادشاہ ہیں جوسمجھتے ہیں کہ غیر ملکی حکمرانوں سے محض ذاتی تعلقات استوار کر کے گمبھیر اور پیچیدہ دو طرفہ معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا جا سکتا ہے اور شاید وزیر اعظم کے دفتر میں ان کے ارد گرد چاپلوس بھی انھیں یہی سبق سکھاتے ہیں کہ میاں صاحب آپ اپنی پرکشش شخصیت سے کسی پتھر دل کو بھی موم کر سکتے ہیں۔ غالباً اسی فلسفے پر عمل درآمد کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جو اگلے ماہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیںگے، مبارکباد کا فون کھڑکا دیا۔ نو رتنوں نے فون کال کے بعد میاں نواز شریف کو کہا ہوگا کہ اسلام دشمن ٹرمپ تو آپ کی ایک فون کال کی ہی مار نکلا۔ حضور والا! دنیا کو بھی پتا لگنا چاہیے کہ آ پ نے اتنا بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اور شاید اسی سوچ کی بنا پر اس گفتگو کا متن بھی جاری کر دیا گیا؛ حالانکہ بین الاقوامی تعلقات میں ایسی روایت نہیں ہے۔ میاں صاحب نے جو کچھ خودکہا اس کا متن تو جاری کر سکتے ہیں لیکن ٹرمپ کی گفتگو کی روداد ان کے دفتر کو ہی جاری کرنا چاہیے تھی۔ اسی بنا پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستانی وزیر اعظم کی اس بوالعجبی اور ٹرمپ کی مخصوص گفتگو کا خاص طور پر نو ٹس لیا گیا اور کسی حد تک پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ ٹرمپ تو اس قسم کی گفتگو کرنے کے ما ہر ہیں، حال ہی میں جب ان کی امریکی صدر اوباما سے وائٹ ہا ؤس میں رسمی ملاقات ہوئی تو ٹرمپ جو کہ اوباما کو خفیہ مسلمان قرار دیتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران انھیں بے نقط سناتے رہے ہیں نے فوراً کہا کہ اوباما تو بڑا اچھا آدمی ہے اور میں ان کے صحت کے پر وگرام 'اوباما کیئر‘ کو کسی حد تک بحا ل رکھوں گا؛ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران انھوں نے اس پر وگرام کو بیک جنبش قلم ختم کر نے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ نے تو چین کو چڑ انے کے لیے تا ئیوان کی صدر کو بھی فون کر دیااور 1979ء میں سفارتی تعلقات ختم ہو نے کے بعد یہ پہلا رابطہ ہے۔ اسی مخصوص سوچ کے تحت وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کردہ متن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے جن کا میاں نواز شریف سے کو ئی تعارف نہیں تھا، کہا کہ پاکستان شاندار لوگوں کا شاندار ملک ہے اور پاکستان جیسے خوبصورت ملک آنے پر خوشی ہوگی، پاکستانی بہت ذہین لوگ ہیں۔ آپ کے ملک میں شاندار مواقع ہیں اور میر ے لیے پاکستان کا دورہ کرنا عزت کا باعث ہوگا۔ میں جن پاکستانیوں کو جانتا ہوں وہ بہت منفرد پاکستا نی ہیں اس لیے میر ی طر ف سے تمام پاکستانیوں کو بتا دیجئے کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شر یف آپ کی شہرت بہت اچھی ہے اور آ پ ایک لاجواب انسان ہیں، آپ حیران کن کام کر رہے ہیں جو ہر طرح سے دکھائی دے رہا ہے۔ میں آپ سے جلد ملاقات کا منتظر ہوں۔ آپ 20 جنوری کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے بھی جب چاہیں مجھے کال کر سکتے ہیں۔ ایک امر یکی ویب سائٹ نے تو مذاقًا اس پر یہ تبصرہ کیا کہ ''غالباً ٹرمپ اپنی دانست میں میاں نواز شریف سے نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف سے سلسلہ جنبانی بڑھا رہے تھے‘‘۔ امریکی میڈیا نے جو عمومی طور پر ٹرمپ مخالف ہے نو منتخب صدر کو یاد دلایا کہ انتخا بی مہم کے دوران تو وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں اور ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیںگے۔ ان کے ایک ٹو یٹ کا متن بھی جاری کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد پاکستان کو سخت برا بھلا کہا تھا۔ نہ جانے امریکی میڈیا کو کیا تکلیف ہے۔ اگر ٹرمپ نے اپنے رویے میں مثبت تبد یلی کرلی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے، ان کے ناقدین کو تو شکر ادا کرنا چاہیے۔
خارجہ اورسکیورٹی پالیسیوں کے حوالے سے ٹرمپ جس قسم کی ٹیم اکٹھی کر رہے ہیں وہ پاکستان کے لیے پُر خطر ثابت ہو سکتی ہے۔ ما ئیکل فلن جیسے مسلمان دشمن ان کے قومی سلامتی کے مشیر چنے گئے ہیں۔ موصوف انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر چیز میں سازشی عنصر تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے ریٹائرڈ جرنیل جیمز ماٹس کو جو ''میڈ ڈاگ ‘‘کے نام سے معروف ہیں، اپنا وزیر دفاع مقررکیا ہے۔گویا کہ نئے امر یکی صدر اپنے انتخا بی وعدوں کے مطابق اپنے اردگرد قدامت پسند اور مسلم دشمن ٹیم اکٹھی کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف کا ٹرمپ کو فون کرنا ایک بہت اچھا قدم تھا لیکن اس بارے میں اپنا الو سیدھا کر نے کے لیے ایسا متن جاری کرنا جسے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی جھٹلایا ہے، درست نہ تھا۔ یہ پہلا مو قع نہیں ہے کہ میاں صاحب کو اپنی مخصوص روش کی بنا پر خفت اٹھانا پڑی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے وقت بھی غالباً میاں صاحب کی یہی سوچ تھی کہ مودی کو جپھی ڈالنے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہوگا اور سابق وزیراعظم اٹل بہا ری واجپائی کی لاہور یاترا کے فوراً بعد اس وقت کے سپہ سالار جنر ل پرویز مشرف کی کارگل پر چڑھائی کے بعد جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا میاں صاحب اسے وہیں سے دوبارہ پکڑلیںگے۔ لیکن مودی نے موقع سے فائدہ اٹھا کر خیر سگالی کا جواب خیر سگالی سے دینے کے بجائے میاں صاحب کو بے نقط سنا ئیں۔ اسی'' پرسنل ڈپلومیسی‘‘ کے طفیل بھارت کے ایک ''سٹیل میگنٹ‘‘ بھارتی دوست کے ذریعے نر یندرمودی میاں صاحب کی سالگرہ اور نواسی کی شادی کے موقع پر گزشتہ برس دسمبر میں ہی لاہور آدھمکے لیکن فوجی قیادت نے اس ذاتی ڈپلومیسی کو قطعاً نہیں سر اہا اور اس حو الے سے میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان موجود دوریاں نہ صرف بڑ ھ گئیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوگئے۔ یقیناً میاں صاحب کوکچھ احساس تو ہو گیا ہوگا کہ بین الاقوامی تعلقا ت میں ''مٹی پا ؤ‘‘ اپروچ نہیں چلتی۔ میاں نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلی فو نک گفتگو کے حوالے سے بھارت نے بھی ہمارا مذاق اڑایا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ یقیناً ہم اس چیز کے منتظر ہیں کہ نو منتخب امر یکی صدر پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کا حل کر نے میں اپنا رول ادا کر یں گے، یعنی کہ دہشت گردی۔
صدر بارک اوباما کا دور بھی پاکستان اور امر یکہ کے درمیان تعلقا ت کے حوالے سے کوئی سنہری نہیں تھا۔ یہ اوباما سرکار ہی تھی جس نے پاکستان کو ایف 16طیاروںکی فر اہمی کے لیے رقم دینے سے صاف انکار کردیا تھا کیونکہ رات گئی بات گئی کے مترادف، افغانستان سے انخلا کا عمل شر وع ہونے کے بعد امریکہ کو پاکستان کی ایسی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی۔ امر یکی انتظامیہ 'ڈومور‘ کا مطالبہ کر رہی تھی جس کے مطابق حقانی نیٹ ورک، جیش محمد، لشکر طیبہ اور اس قسم کی جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کرنا تھا۔ افغانستان میں نیٹو فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے دوبارہ یہی راگ الاپا ہے۔ نئی صورتحال میں ٹرمپ جس کے اردگرد بھارتی لابی نے حصار کر رکھا ہے اور جو مسلمانوں کے بارے میں اپنی نفرت کوانتخابی مہم کے دوران بھی نہیں چھپاتا رہا اور جس کی ٹیم انتہا پسندوں پر مشتمل لگ رہی ہے، پاکستان کو اوباما سرکار سے کہیں زیادہ ٹف ٹا ئم دیںگے۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان کو'' دہشت گرد‘‘ ملک قرار دینے کی بھارت نواز امر یکی کانگرس کے ارکان کی کوششیںکامیاب ہوں۔ امریکی نظام میں جہاں ادارے بہت مضبوط ہیں شاید ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہ ہو۔ لیکن ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ کی بر سر اقتدار جماعت ریپبلکن پارٹی کو امریکی سینیٹ اور ایوان نما ئندگان میں اکثر یت حاصل ہے اور اس حوالے سے انتظامیہ اورکانگرس ایک ہی صفحے پر ہو نگے۔ سنا ہے کہ میاں نواز شریف ٹرمپ کی تقر یب حلف برداری میں شرکت کر نے کے لیے بھی بیتاب ہیں۔
غالباً اسی لیے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی کو ٹرمپ کی ٹیم سے رابطہ کرنے کے لیے واشنگٹن روانہ کیا گیا ہے۔ آئندہ آنے والے مشکل بین الاقوامی حالات کے پیش نظر میاں نواز شریف نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے سر جوڑ کر بیٹھیں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کی جہت کے بارے میں مثبت تبد یلیاں لانے پر غور وخوض کر یں۔ پاکستان کی موجودہ بین الا قوامی اور خطے میں تنہائی ختم کر نے کی کنجی اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہے نہ کہ واشنگٹن، نئی دلی یاکابل میں۔ یہ بات سمجھنے سے ہم کیوں قاصر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں