لیجئے! بز رگو ار محتر م ،مشیر خا رجہ سر تا ج عزیز نے امر تسر میں ہا رٹ آ ف ایشیا کا نفر نس میں شر کت کا شوق پو را کر ہی لیا ۔ بعض تجز یہ کار تو پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا اور ویسے بھی بھا رت نے اسلام آ با د میں مجو زہ سارک سر بر اہ کا نفر نس کو نر یندر مودی اور بعض دیگر سارک سربراہوں کی طرف سے شرکت سے معذرت کروا کر سبو تا ژ کر دیا تھا اس لئے پاکستان کو بھی ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں شر کت نہیں کر نی چاہیے۔ ۔ اس کے بر عکس میر ی را ئے یہ تھی کہ سر تا ج عزیز کو ہارٹ آ ف ایشیا کانفر نس میں شر کت کر نی چاہیے ، محض اس لیے نہیں کہ کا نفرنس کا تعلق افغانستان کے مستقبل سے ہے اور اس میں پاکستان ،بھا رت اور افغا نستان کے علا وہ چین، روس اور وسطی ایشیا کے بعض مما لک بھی شرکت کر رہے تھے ‘بلکہ اس لیے بھی کہ اس طر ح پاکستان کو بھارت کے گر م رویے کا صحیح ٹمپر یچر بھی معلوم ہو جائے گا۔ ایسا ہی ہوا ۔ یہ امر مز یدواضح ہو گیا کہ اڑ ی واقعہ کے بعد نئی دہلی نے ہمارے خلا ف جو جا رحا نہ رو یہ اپنایا ہے اس میں کمی نہیں آئی بلکہ پاکستان کو دہشت گرد ی کے حوالے سے نکو بنا کر یکا وتنہا کر نے کی بھا رتی کوششیں سر گر می سے جا ری ہیں ۔ سر تا ج عزیز نے اگر امرتسر یا تر ا کی غلطی کر ہی لی تھی تو انھیں ہوٹل سے نہ نکلنے دینے کے علاوہ پاکستانی میڈ یا سے رابطے اور گو لڈن ٹمپل جانے سے بھی روک دینا صر یحا ً بدتمیزی کے زمر ے آتا ہے،سفارتی آداب کی دھجیاں اڑانا بھارت جیسے ملک کو جو سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کے خواب میں مبتلا ہے‘ کو زیب نہیں دیتا ۔
مجھے اچھی طر ح یا د ہے، 1974ء میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر نے کے بعد جب ذوالفقا ر علی بھٹو نے بنگلہ دیش کا دور ہ کیا تو میں ان کے ہمر اہ تھا ۔اس موقع پر ساراڈ ھا کہ شہر پاکستانی وزیر اعظم کے استقبال کے لیے امڈآیا ۔ یہ مناظر دیکھ کر اخبار نویسوں کو حیر انگی ہو ئی کہ وہ بنگا ل جو صر ف چند بر س پہلے بھا رتی سنگینوں کے سہارے پاکستان سے الگ ہو ا تھا اب کس طر ح ایک ایسے پاکستانی وزیر اعظم ‘ جس کے بارے میں مخا لف یہ الزام لگا تے تھے کہ وہ ملک توڑنے کی سازش میں شر یک تھا ‘کے استقبال کے لیے نکل آ یا ہے ۔ اس کی وجہ واضح تھی کہ نومولود بنگلہ دیش کی اقتصادی طور پر بری حالت تھی اورعوام شیخ مجیب الر حمن سے سخت متنفر تھے ۔ عوامی لیگ کی سر کا ر بھی یہ استقبا ل دیکھ کر کچھ سٹپٹاسی گئی‘ لہٰذا جب ذوالفقا ر علی بھٹو واپسی کے سفر کے لیے ائیر پو رٹ کی طرف روانہ ہو ئے تو ڈھا کہ میں کر فیو کا سماں تھے ۔یہ کہنا تو درست نہیں ہو گا کہ سر تاج عزیز اور پاکستان امر تسر میں بہت مقبول ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مو دی سر کا ر ہز ار اور پانچ سو کے کرنسی نوٹ ختم کر نے کے بعد انتہا ئی غیرمقبو ل ہو چکی ہے۔دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں زور پکڑتی آزادی کی تحریک بھی بی جے پی کی حکومت کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔اس بنا پر مو دی اور اس کے عقابی مشیر غا لبا ً یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف ہارڈ لائن اختیار کر کے انھیں آ نے والے صوبا ئی انتخابات میں بھی ووٹ مل جائیں گے ۔
جہاں تک ہا رٹ آ ف ایشیا کانفر نس کے مشتر کہ اعلامیہ ‘جو اتفاق را ئے سے منظور ہوا ‘کا تعلق ہے‘ اس میںخطے اور بالخصوص افغا نستان میں دہشت گر دی کے حوالے سے شد ید تشویش کا اظہا ر کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں جن مبینہ دہشتگرد گر وپو ں کانام لیا گیا ان میں داعش ،حقا نی نیٹ ورک، القا عدہ ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان ،ایسٹ ترکمانستان اسلامی موومنٹ ،لشکر طیبہ ،جیش محمد ، تحر یک طالبان پاکستان، جمعیت الا حراراور جند اللہ شامل ہیں ۔ یہاں یہ بات قابل غو ر ہے کہ ان میں سے بہت سی تنظیمیں‘ دنیا کی نظرمیں‘ پاکستان کو آ ما جگا ہ بنا ئے بیٹھی ہیں ۔ محتر م سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیر سے تو جہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر ملبہ ڈا ل رہاہے‘نیز اس کی پاکستان کے افغا نستان سے تعلقا ت خراب کر نے کی کوششیں کامیاب نہیںہو ئیں ۔اس کا نفر نس میں نریندر مو دی اور اشر ف غنی کی ملی بھگت روز روشن کی طر ح عیاں تھی ۔اشرف غنی کا یہ کہنا کہ پاکستان نے افغانستان کو ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے پچاس کروڑ ڈالر دینے کا جو اعلان کیا ہے ،یہ رقم انہیں نہیں چاہیے بلکہ اسے پاکستانی سرزمین سے ہمارے خلا ف دہشت گردی ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے،ہمارے منہ پر طمانچہ رسید کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی میڈ یا میں یہ خبر چلی ہے کہ افغا نستان کے لیے روس کے نمائند ہ خصوصی ضمیرکابلو ف جو متذ کر ہ کانفر نس میں شر یک تھے،نے کہا کہ پاکستان پر تنقید کرنا غلط تھا ،الزاما ت کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے نیز یہ کہ سر تا ج عزیز کی تقر یر دوستا نہ اورتعمیری تھی۔ خدا کرے یہ خبر درست ہو کیو نکہ اس سے پہلے 'سی پیک ‘ کے حوالے سے ایک خبر بڑ ے طمطراق سے اخبارات میں شا ئع ہوئی تھی کہ روس 'سی پیک‘ میں شمولیت کا خو اہشمند ہے اور پاکستان اس کو جی آ یاں نوں کہے گا ،تا ہم روس نے اس خبر کی تر دید کرتے ہو ئے کہا اسے' سی پیک‘ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں ہے ۔یقینا افغا نستان میں امن کے لیے اس کانفرنس میں کو ئی مثبت ایجنڈاطے کرنا تھا لیکن افغانستان کی قیا دت میں مذاکرات کے لیے کو ئی نئی حکمت عملی سامنے نہیں آ ئی ۔
کانفرنس میں یہ احسا س بڑی شدت سے جاگزین ہو اکہ بھارت سے مخا صمت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن افغا نستان بھی ایک دشمن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے پا لیسی ساز اور بعض تجز یہ کا ر اس کج فہمی میں مبتلا ہیں کہ روس نے ہمیںجپھی ڈا ل لی ہے ۔ سوشل میڈ یا پر تو اس قسم کے نعر ے بھی بلند ہو ئے ہیں کہ ' پاکستانی اور روسی بھائی بھائی‘ ،لیکن مستقبل قر یب میں ایسا ہو تا ہوانظر نہیں آرہا۔ نہ جانے ہمارے پالیسی سازوں کو اس بنیا دی حقیقت کا ادراک کیو ں نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گرد وں کو پنا ہ دینے کے الزام کے بو جھ تلے تنہا دبتاجا رہا ہے او ر اس معاملے میں ہمارادوست چین بھی کہتا ہے کہ خدارا وہ گروپ جو پاکستانی سر زمین کو استعمال کرتے ہیں، انھیں نکیل ڈالنی چاہیے ۔ ہما ری سالہا سال سے اچھے اور بر ے طالبان اور دیگر نام نہاد جہا دی تنظیموں کے مابین تمیز روارکھنے کی پالیسی پٹ چکی ہے ۔ یقینا پاک فوج جو دنیا کی بہتر ین فو ج ہے، کو پاکستان کی حفا ظت کر نے اور اپنے سٹرٹیجک اہداف کو حا صل کر نے کے لیے اس قسم کے گر وپوں کی چنداں ضرورت نہیںہو نی چاہیے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ نئی فو جی اور سیاسی قیادت مل بیٹھ کر سو چے کہ ہمیں کیا کر نا چاہیے ۔یقینا پاک فوج نے مو جو دہ حکومت کی قیا دت میں ملک میں دہشت گردی کا کامیا بی سے قلع قمع کیاہے لیکن خطرات اب بھی منڈ لا رہے ہیں ۔ہمیں اپنی پالیسی امریکہ ،بھارت اور افغا نستان یاکسی اور ملک کی خا طر نہیںبلکہ اپنے قومی مفا د کو مد نظر رکھ کر تشکیل دینی چاہیے ۔جب تحر یک طالبان پاکستان پر ہا تھ ڈالا جارہا تھا تو اس وقت بھی ہماری سیاسی قیا دت متذبذب تھی۔پہلے اس وقت کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے بھی یہ استدلال پیش کیا جا تا تھا کہ اگر ان پر ہا تھ ڈالا گیاتو یہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینگے لیکن جنر ل راحیل شر یف نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہو گا اور نہ ہوا ۔اب دہشت گردی کے خلا ف جنگ اگلے مر حلے میں لے جانے کی بھا ری ذمہ داری جنر ل قمر جاوید باجو ہ کے کندھوں پر آ گئی ہے‘ یقینا وہ اس میں سرخرو ہونگے۔