پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں اپنے نسبتاً طویل دورہ لاہور کے نتیجے میں شاید اتنے پر اعتماد اور پرامید ہو گئے کہ انہوں نے دعویٰ کر دیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات پیپلز پارٹی کے نام ہوں گے، جس کے نتیجے میں صدر، وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ پیپلز پارٹی کے ہی ہوںگے۔ بحریہ ٹاؤن میں واقع قلعہ نما بلاول ہاؤس میں ان کا شو اچھا رہا۔30 نومبر کو ہونے والے 49 ویں یوم تاسیس میں بطور صحافی مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ جیالوں کی مخصوص میلان طبع کے عین مطابق جلسہ گاہ میں داخل ہونے کے لئے خاصی دھکم پیل تھی اور صحافیوں کو بھی سکیورٹی حصار میں ہونے کے باوجود خوب دھکے پڑے۔ جلسہ گاہ میں جہاں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، اعتزاز احسن، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، رحمان ملک، قائم علی شاہ، شیری رحمان، حنا ربانی کھر اور سینکڑوں لیڈر اور کارکن موجود تھے وہاں قابل دید بات یہ تھی کہ بہت سے پرانے جیالے اور جیالیاں بھی حاضر اور پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔گزشتہ تین برسوں میں نوڈیرو میں محترمہبے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر ہونے والے اجتماعات کو چھوڑ کر لاہور میں ہونے والا یہ اجتماع بہت پر جوش تھا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب 30 نومبر 1967ء کو ایف اے کے طالبعلم کے طور پر میں نے پیپلز پارٹی کی تاسیس کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس وقت توگلبرگ میں واقع ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر کے پیچھے والے لان میں چند سو لوگ ہی موجود تھے جن میں غلام مصطفی کھر، جے اے رحیم، حفیظ پیرزادہ، کوثر نیازی، خورشید حسن میر، معراج محمد خان جیسی قد آور شخصیات بھی شامل تھیں۔ نہ ڈی جے بٹ کی دھمک تھی اور نہ ہی ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر کے باہر لینڈ کروزر، مرسیڈیزاور رینج روور گاڑیوں کی بھرمار۔ یہ وہی موقع تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کے منہ سے یہ نعرہ بلند ہوا: 'اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور ہم غریب عوام کو روٹی،کپڑا اور مکان دیںگے‘۔ میں بھی ان لاکھوں نوجوانوں میں شامل تھا جو بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور ایوب خان کی آمریت کو للکارنے کی وجہ سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں فیڈل کاسترو، ماؤزے تنگ، چوئن لائی، یاسر عرفات اور جمال عبدالناصر جیسے سوشلزم کے داعیوں کا طوطی بولتا تھا۔ تیسری دنیا کی آواز اٹھانا ہی اس وقت کی سیاست تھی۔ یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کے طرز سیاست کے بارے میں کئی آرا ہو سکتی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ پہلے عوامی رہنما تھے جنہوں نے غریبوں، ہاریوں اور مزدوروں کی بات کی اور ان کا دل موہ لیا، جنہیں بعد ازاں روٹی،کپڑا اور مکان تو نہ ملا لیکن ان میں ایک شعور ضرور بیدار ہوگیا۔
آج کی پیپلز پارٹی ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر جنم لینے والی پیپلز پارٹی سے خاصی مختلف ہے۔اس وقت پنجاب اس کا گڑھ تھا لیکن 2013ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو چکا ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں نواب صادق حسین قریشی کے بعد پیپلز پارٹی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ نصیب نہیں ہو سکی۔ حالیہ برسوں میں وسطی پنجاب کے سابق صدر میاں منظور احمد وٹو نے جماعت کو پنجاب میں فعال کرنے کی بھرپور سعی کی لیکن یہ بات ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی کہ جیالے ان کو جیالا نہیں مانتے تھے۔ اب یہ قرعہ قمر زمان کائرہ کے نام نکلا ہے اور انہیں نسبتاً نوجوان اور فعال سیاسی ورکر ندیم افضل چن کی صورت میں جنرل سیکرٹر ی ملا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ملک میں چار مرتبہ حکمرانی کی۔ آمر مطلق ضیا ء الحق پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر نہ چڑھاتے تو یقیناً وہ دوبارہ بھی وزیر اعظم بنتے۔ ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو سمیت جیالوں نے لاٹھیاں،کوڑے کھائے، جیلیں دیکھیں اور دیگر کئی سختیاں برداشت کیں لیکن ضیا ء الحق پیپلز پارٹی کو ختم نہ کر سکے۔ بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بنیں اور دونوں مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں فارغ کر دیا۔ لیکن ان کی شہادت کے بعد ان کے شوہر نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے سسک سسک کر پانچ سالہ مدت پوری کی۔ اس سے پہلے ہر جمہوری حکومت کو صدر اور آرمی چیف کی ملی بھگت سے قبل از وقت گھر بھیجنے کی روایت پڑ چکی تھی، لیکن زرداری کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ تھی کہ غریب عوام، پارٹی سے متنفر ہو گئے اور انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس لئے 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سندھ کے سوا باقی تمام صوبوں میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اسی لئے اب برخوردار بلاول بھٹو کے سامنے پارٹی کا احیا بہت بڑا چیلنج ہے، انہیں اپنے والد کی رہنمائی بھی یقیناً حاصل ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ خود ایک قابل اور فعال نوجوان ہیں۔ لاہور میں قیام کے دوران میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں جن میں مجھے محسوس ہوا کہ انہیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ پیپلز پارٹی کو فعال کرنے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ ایک لحاظ سے ان کا کام آسان ہے کہ مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف دونوں غریبوں کا نام لینے کے با وصف یہ عوامی جماعتیں نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت انتخابی سیاست کے ماہر ہیں اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ صرف مزاحمتی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں جماعتوں میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود انہیں پارلیمانی سیاست اور قانون سازی سے قطعاً دلچسپی نہیں ہے۔ نواز شریف اور عمران خان میں یہ قدر بھی مشترک ہے
کہ دونوں شاذ ہی پارلیمنٹ کا چکر لگاتے ہیں۔ خان صاحب تو ویسے ہی پارلیمنٹ سے الرجک ہیں اور ہر وقت اس کے بائیکاٹ پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ آج کل تو پوری تحریک انصاف قومی اسمبلی سے عنقا ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی پارلیمانی سیاست بھرپور انداز سے کرتی ہے اور پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی باقاعدہ اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ آئین کو زیادہ جمہوری، پارلیمانی اور وفاقی بنانے کے لئے پیپلز پارٹی18 ویں، 19ویں اور بیسویں ترامیم بھی لے کر آئی لیکن اس کے باوجود گورننس اور شفافیت کے حوالے سے لوگوںنے پارٹی کو بہت کم ووٹ دئیے۔ مزید برآں مخالفین کے اس پراپیگنڈے کہ پارٹی موج میلہ کر رہی اور کرپشن سے ہاتھ رنگ رہی ہے، نے بھی خاصا نقصان پہنچایا۔ اسی بنا پر بلاول بھٹو کو غریبوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ ان کے ہمدرد اور ان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں اور اس حوالے سے بلاول کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی جو ملک میںغریبوں کی سب سے بڑی نام لیوا جماعت ہے اس کا ایسے ختم ہو جانا جمہوریت کے لئے بہت بڑی ٹریجڈی ہو گی۔ امید کرنی چاہیے کہ بلاول بھٹو اس میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔