"ANC" (space) message & send to 7575

ایکشن اور حقیقت

میا ں نواز شر یف کے حواری بغلیں بجا رہے ہیں کہ اب تو 'ستے خیراں‘ ہیں ، ان کی دانست میں 'پاناما گیٹ ‘ کا معاملہ مو جو دہ چیف جسٹس کے دور میں تو ٹل گیا ہے کیو نکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار اگلے ماہ اپنے عہد ے کا حلف اٹھانے کے بعد اس کی سماعت کیلئے نیا بینچ تشکیل دیں گے۔ دوسر ی طرف میڈ یا اور جسد سیا ست میں وہ لو گ جو اپنی خواہشات کے گھوڑے دوڑارہے تھے کہ نئے آرمی چیف کے آ نے سے پہلے ہی میاں نواز شر یف کا دھڑ ن تختہ ہو جائے گا اور جنر ل را حیل شر یف کو تو سیع مل جا ئے گی یا وہ تو سیع لے لیں گے،انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بظا ہر میاںصاحب کی حکومت پہلے سے مستحکم نظر آ رہی ہے لیکن وطن عزیز میں سیاست ایک' ایکشن فلم‘ کی طر ح ہو چکی ہے جس میں منظر نامہ ہر ہفتے بد لتا رہتا ہے لہٰذا وہ لو گ جواب یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاں صاحب مر ضی کا آرمی چیف لے آئے ہیں اور سپر یم کو رٹ 'رام‘ ہو گئی ہے،شا ید ما ضی کو بھو ل جا تے ہیں ۔میاں نو از شر یف اس سے پہلے بھی 4 مرتبہ آ رمی چیف مقر ر کرچکے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ آ ج تک کسی آرمی چیف سے زیا دہ عر صہ تک ان کی نہیں نبھی ۔ ایک ریٹا ئرڈ کورکمانڈر مجھے بتا رہے تھے کہ جنر ل راحیل شر یف کی تقر ری سے قبل میاں صاحب انہیں ان کے بے تکلفا نہ نام 'بوبی ‘سے پکا رتے تھے ۔ لیکن 'بو بی‘ان کے لیے قر یباً مہنگا پڑا۔جنر ل راحیل شر یف نے بڑ ی پیشہ وارانہ مہا رت، دور اندیشی اور فہم و فراست سے معا ملا ت چلا ئے اور اپنی ٹر م پو ری کی ۔ انھوں نے کچھ ایسی بسا ط بچھا ئی کہ ان کی پیشہ وارانہ کارکردگی کی اعلیٰ و ارفعٰ مثا ل قا ئم کر نے کی وجہ سے بالواسطہ طور پر میاں نواز شریف کے لیے مسا ئل پید اہو نے لگے ۔یہ ان کا حسن کا رکر دگی بھی تھا اور کچھ آئی ایس پی آ ر کے فعال سر برا ہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم با جو ہ جنہیں میجر جنر ل سے ترقی بھی جنر ل را حیل شریف نے ہی دی تھی ،کا کمال بھی کہ قوم اور بیر ونی مما لک کے لیڈر ان کی طرف ہی دیکھنے لگے ۔یہ 'امیج پرابلم ‘ میاں نواز شریف کو ایک آ نکھ نہیں بھا تا تھا اور آ رمی چیف سے زیر زمین ٹینشن کے با وجو دانھوں نے صبر سے کام لیا اور اپنے بعض ساتھیوں کا یہ دبا ؤ قبول نہیں کیا کہ جنر ل را حیل شر یف کی مدت ملازمت میں تو سیع کر دی جا ئے ۔نئے آرمی چیف جنر ل قمر جا وید باجو ہ کی تقرری سے پہلے بھی میڈیا ، سیاست اورشاید فو ج کے اندر بھی کچھ ناقد ین نے ان کے خلا ف ناگوار پر اپیگنڈا کیا لیکن وزیر اعظم نے ایسی باتوں کو درخوراعتنا نہ سمجھا اور خو ب سے خوب تر کی تقر ری کر دی۔بعض حلقے ایسا پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ نئے سپہ سالا ر نواز شر یف کے خاص آدمی ہیں، یقینا ایسا نہیں ہے ۔ آرمی چیف اپنے ادارے اور اس کے عسکر ی تقاضوں کو ہرچیز پر مقد م رکھتا ہے ۔مو جو دہ آ رمی چیف کا ورکنگ سٹائل اپنے پیشروسے مختلف ہو سکتا ہے لیکن اہد اف وہی ہو نگے جو جنر ل را حیل شر یف کے دور میں تھے یعنی وطن عزیز سے دہشت گردی کا مکمل خا تمہ بلکہ اس جنگ کو نئی جہت تک لے جانا اور ملکی سرحدوں کی حفا ظت ۔
جنرل باجوہ نے ایک انتہا ئی کٹھن مر حلے پر فو ج کی قیادت سنبھا لی ہے اب جبکہ امر یکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظا میہ اگلے ماہ باقاعدہ اقتد ار سنبھا لنے والی ہے ، ٹر مپ اور ری پبلکن کا نگر س یقینی طور پر پاکستان پردبا ؤ بڑھائے گی ۔ اس حو الے سے نریندر مو دی اور اشرف غنی کا گٹھ جو ڑ بھی خطر ہ بنتا جا رہا ہے ۔اس ما حو ل میں بھا رتی وزیر داخلہ راجنا تھ سنگھ کی گیدڑبھبکی کہ'پاکستان باز نہ آیا تو اس کے 10حصے ہو جا ئیںگے‘اس صورتحا ل میں سو یلین وفوجی قیادت کا ایک صفحے پر ہو نا اچھی بات ہے دونوںکو اپنااپنا کام کرنا چا ہیے، اس کے ساتھ سا تھ جہا ں تعاون کی ضرورت ہو وہ بھی مثا لی ہونا چاہیے۔میاں صا حب کو خصوصی احتیا ط کر نی چاہیے کہ ما ضی کے بر عکس مو جو دہ آ رمی چیف سے ان کا' ہنی مون‘ چلتا رہے ۔
جہاں تک 'پاناما گیٹ‘ کا تعلق ہے اس حوالے سے تحریک انصاف میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے،سوشل میڈ یا میں واضح طور پر اور پی ٹی آ ئی کی لیڈ ر شپ کے بیانا ت میں با لو اسطہ طورپر جو ڈیشری پر کیچڑاچھا لا جا رہا ہے کہ یہ بک گئی ہے ۔ نیز یہ کہ چیف جسٹس آ ف پاکستان اوردوسرے فاضل ججز کو چھٹی نہیں لینی چاہیے تھی اور میاں نواز شر یف کے خلا ف فیصلہ صادر کر کے ہی گھر جانا چاہیے تھا ۔ یہ غم وغصہ قابل فہم ہے کیونکہ پی ٹی آ ئی کی لیڈر شپ تو عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پہلے ہی میڈ یا کے ذریعے یہ فیصلہ صاد رکر چکی تھی کہ میاں نواز شر یف کے خلاف تمام ثبوت مہیا کر دیئے گئے ہیں اور 'پاناماکیس ‘ سننے والے ججز کے پاس اس کے سوا کو ئی چا رہ نہیں کہ انھیں گھر بھیج دیں ۔گز شتہ ہفتے میرے پروگرام میں عمران خان کے تر جمان نعیم الحق نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ منگل کے روز نواز شر یف اور ان کی فیملی کے وکلا کو صفا ئی کو مو قع دیا جائے گا جس کے فوراً بعد انھیں گھر بھیج دیا جائے گا ۔ تحر یک انصا ف نے کمیشن کی تشکیل کی بھی مخالفت کرتے ہو ئے کہہ دیا ہے کہ وہ اس کا بائیکا ٹ کر یں گے ۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ عمران خان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ان کی کئی ناکامیوں میں'پاناما گیٹ ‘ بھی شامل ہو گئی ہے ۔ یہ بات میں نے غلطی سے ٹو یٹ کر دی جس کے بعد پی ٹی آ ئی کے کھلا ڑیوں کے سینکڑوں ٹویٹس میں مجھے ًگا لیوں کی حد تک تنقید کا نشانہ بنا یا گیا حالانکہ میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ میاں نواز شریف جیت گئے ہیں اور عمران خان ہا ر گئے ہیں ۔ لیکن خان صاحب کے حو اریوں نے اس قسم کا کلچر پیدا کر دیا ہے جو ان سے اختلا ف کرتا ہے چا ہے وہ جج ہو،سیا ستدان ہو یا صحافی ہو،' وہ بکاؤ ما ل‘ ہے ۔یقیناً اس روش سے خوف آتا ہے کہ اگر خدا عمران خان کو اقتدارعطا کرے تو وہ ملک میں کس قسم کے کلچر کو فرو غ دیں گے ۔ نہ جانے پی ٹی آ ئی کے ماہرین قانون نے خان صاحب کو یہ بات کیوں نہیں سمجھا ئی کہ سپر یم کورٹ ٹر ائل کو رٹ نہیں ہے لہٰذا ان سے توقع رکھناکہ وہ نواز شر یف کے خلاف فیصلہ صاد ر کر یں گے، درست نہیں تھا ۔ ججوں کے ریما رکس جو ٹکرزکی صورت میں میڈیا کی زینت بنتے ہیں، ان سے اپنی ڈھب کے مطابق مطلب ڈھو نڈنا بھی درست روش نہیں ہے ۔ اس ماہ کے آخر میں ریٹائرہو نے والے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کا حالیہ بیان کہ ہم کسی کی خوشنودی یا میڈیا کے دباؤ میں آکر فیصلے صاد ر نہیں کر سکتے، قا بل غو رہے ۔
دوسر ی طرف پی ٹی آ ئی کے وائس چیئر مین شاہ محمو د قر یشی جو ایک انتہا ئی تجر بہ کا ر سیا ستدان اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں کا یہ فر مانا کہ نئے چیف جسٹس تحلیل شد ہ بینچ کے چا ر ججوں کو ہی برقراررکھیں ،خا صا حیران کن ہے ۔اگر یہ روش چل پڑ ی کہ مد عی اپنی مر ضی کابینچ تجو یز کرے اور عد لیہ اسے مان لے تو پھر انصاف کا خدا حا فظ ،یقینا خان صاحب اور ان کے حو اریوں کو بہتر قانو نی مشیروں کی ضرورت ہے ۔ اس وقت توصورتحا ل یہ ہے کہ بعض خو د سا ختہ قانو نی ما ہر ین ان کا اچھا بھلا کیس خراب کر رہے ہیں ۔'پاناما گیٹ ‘ کے خلا ف وکیل اول اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ میں نے شروع میں ہی یہ کہا تھا کہ عد لیہ کا رخ نہ کر یں لیکن خان صاحب نے میر ی بات نہیں ما نی ۔بلا ول بھٹو نے بھی خان صاحب کی غلط قانونی حکمت عملی پر نکتہ چینی کی ہے ۔ ستم ظر یفی ہے کہ نواز شر یف حکومت کے خلا ف اس جدوجہد میں تحریک انصاف تنہا ہے کیونکہ ان کی لیڈر شپ اور کھلاڑی ججوں اور صحا فیوں کی طر ح اپوزیشن کو بھی بکا ؤ مال سمجھتے ہیں ۔ بہترہو گا کہ خان صاحب بنی گا لہ کے پر فضا مقام پر بیٹھ کر خو د سے یہ سوال کر یں کہ عوامی مقبو لیت اور پذیر ائی کے باوجو د کہاں کہاں خرابی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آ ئی کہاں سے کہاں سے پہنچ گئی ہے، انھیں پا رلیمنٹ کے اجلاس کے بے معنی بائیکا ٹ ختم کر کے وہاں کر پشن کے خلا ف جد وجہد کر نی چا ہیے نیز فیصلے انا، ضداور جذباتیت کے بجائے ہوش اور ٹھنڈے دل سے کر نے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں