بالا ٓخر بلا ول بھٹو زرداری کے ذریعے یہ نو ید سنا دی گئی ہے کہ ان کے والد محتر م آ صف زرداری جمعہ کے روز وطن واپس آ رہے ہیں یعنی پیپلز پا رٹی کے شر یک چیئر مین قر یبا ً ڈیڑ ھ سالہ خو د ساختہ جلا وطنی کو خیر با د کہہ رہے ہیں ۔ اکتو بر میں جب لند ن میں میری ان سے ملا قا ت ہو ئی تو انھوں نے عزم ظا ہر کیا تھا کہ وہ نومبر میں وطن واپس ا ٓ جا ئیں گے۔ میرے اس سوال پر کہ کیا آپ موجو دہ فو جی قیا دت کی ریٹائرمنٹ کا انتظا ر کر رہے ہیں تو انھوںنے مسکراتے ہو ئے استفسا ر کیا کہ ان دونوں با توں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟۔لیکن اب ان کی واپسی کی ٹا ئمنگ اس امر کا اشا رہ دیتی ہے کہ آ صف زرداری نے جنر ل را حیل شر یف کے دور میں وطن سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ جنر ل را حیل شر یف، کے دور کے آ ئی ایس آ ئی کے سر برا ہ لیفٹیننٹ جنر ل رضوان اختر،کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختاراورڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کے دورمیں پیپلز پارٹی کی طنا بیں کسی گئیں ۔ یہ معا ملہ اس وقت شر وع ہو اجب آصف زرداری نے اپنی ایک تقر یر میں کہا کہ پہلی بار دودھ پینے والا بلا پکڑا گیا ہے اب اسے چھوڑنا نہیں،انہوں نے ایک اور موقع پرکہاکہ فوج بتائے بلا اس کا نمائندہ ہے تو پھر اس کا مقابلہ کرینگے ،جلتی پر تیل کا کام زرداری کے گزشتہ سال 16 جون کے اس بیان نے کیا کہ 'ہمیں تنگ نہ کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے، آپ نے تین سال کیلئے رہنا ہے ، ہم تو مستقل رہتے ہیں،اس کے بعد پاکستان کے سب سے زیرک، گھاگ اور دوراند یش سیا ستدان نے معاملا ت کو ٹھیک طریقے سے بھا نپا اورلند ن جا کر بیٹھ گئے ۔
گز شتہ بر س زرداری صاحب نے دست راست ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے قبل واپسی کی نیم دلانہ کوشش کی ۔اس حوالے سے میںنے چینل 24کے لیے چر چل ہو ٹل میں ان کے سو یٹ میں انٹر ویو کیا ۔ انٹر ویوکے دوران وہاں ایک ہی شخصیت موجود تھی، وہ تھے ڈاکٹر عاصم حسین ۔انٹرویومیں آصف زرداری نے مفا ہمتی رو یہ اختیا رکر تے ہوئے فو ج پر برا ہ راست تنقید نہیں کی ۔ ڈاکٹر عاصم نے وہاں مجھ سے استفسار بھی کیا کہ وطن واپسی پر مجھ سے کیا سلوک متو قع ہے؟۔میںنے اس نازک تر ین معاملے پر' ہاں‘ یا' ناں ‘میں جواب دینا مناسب نہ سمجھا اورصرف اتنا کہنے پر اکتفاکیا کہ اگرآپ رسک لینا چاہتے ہیں تو آپ کی مر ضی ۔ اس سے اگلے ہی روز میں لا ہو ر کے لیے جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کر اچی روانہ گئے۔ وطن واپس پہنچنے کے بعد ڈاکٹر عاصم ایک دوست کے بیٹے کے نکا ح کی تقریب میں شر کت کے لیے اگلے ہی روز لا ہو ر آئے تو میر ی ان سے ملا قا ت ہو گئی ،وہ خاصے مطمئن نظر آرہے تھے لیکن جیسے ہی وہ کر اچی واپس پہنچے انھیں گرفتا ر کر لیا گیا ۔ڈاکٹر عاصم حسین پر اربوں کھر بوں رو پے کی کر پشن کے الزامات لگا ئے گئے لیکن اصل ٹارگٹ آصف زرداری ہی تھے۔ دوستی نبھا نے والے اور احسان شناس شخصیت کے حامل ڈاکٹر صاحب نے ایک سال سے زائد جیل کی ہوا کھانے کے باوجود ابھی تک پلہ نہیں پکڑا یا اور نہ ہی پکڑائیں گے کیونکہ مشکل وقت تو اب گز ر چکا ۔ڈاکٹر عاصم کے حشر کے بعد زرداری صاحب کے ذہن میں اگر وطن واپسی کاکو ئی رتی بھر ارادہ تھاتو اسے تر ک کر دیا گیا ۔ایان علی کے خلا ف منی لا نڈرنگ کیس کے حوالے سے جو کچھ ہوا وہ سونے پر سہا گہ ثابت ہوا۔
آصف زرداری کو لند ن میں جلا وطنی کے دوران سب سے زیا دہ گلہ میاں نواز شریف سے رہا ۔ ان کا خیا ل ہے کہ میاں نواز شر یف نے عین اپنے سیاسی میلان طبع کے مطابق مصلحت پسند ی کا مظا ہر ہ کیا اور را ت گئی بات گئی کے مترادف عمران خان کے دھر نے کے دنوں میں ساتھ دینے کے بد لے میں ان کی مشکل میں ان کا ساتھ نہیںدیا ۔رواں برس مئی میں جب میاں نواز شر یف لندن میں زیر علاج تھے تو آصف زرداری نے جو ایسے معاملا ت میں خا صے وضع دار واقع ہو ئے ہیں ، میاں نواز شر یف کی طبیعت تک کا نہیں پو چھا بلکہ انھوں نے اس خد شے کے پیش نظرکہ میاں صاحب کہیں چر چل ہو ٹل ہی نہ ا ٓ دھمکیں، ہو ٹل کو الو داع کہا اور دوسر ی جگہ منتقل ہو گئے ۔ حسب توقع میا ں صاحب کا فی پینے کے بہا نے چند دوستوں کے ہمراہ چر چل ہو ٹل پہنچ گئے تو زرداری وہاں سے عنقا ہو چکے تھے ۔اس کے بعد محتر م اسحق ڈار جو پہلے بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان را بطہ کا ر رہے ہیں‘ کی ڈیو ٹی لگا ئی گئی کہ وہ آ صف زرداری سے رابطہ کر یں پھرڈار صاحب کی زرداری صاحب سے پانچ گھنٹے طو یل ملا قات ہو ئی جس کے بعد مولانا فضل الر حمن بھی مڈل مین کا کردار ادا کرتے رہے،اس طرح کسی حد تک برف پگھلی۔
یقینا میاں نواز شریف کو یہ ادراک ہے کہ زرداری، بلا ول اورعمران خان ان کے خلا ف ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے توان کے لیے مشکلا ت پید اہوں گی لیکن چو ہدری نثار علی خان جیسے نادان دوست اور کسی حدتک میاں شہباز شریف کے دل میں پیپلز پا رٹی کی نفرت بھر ی ہو ئی ہے۔ یہ تو میاں برادران کی خو ش قسمتی ہے کہ ان کا عمران خان جیسے نا عاقبت اند یش سیاستدان سے سامنا ہے جو‘ جو منہ میں آ تا ہے کہہ دیتے ہیں ،چیئرمین تحریک انصاف آ صف زرداری کو کرپشن کا با دشاہ ،لیڈر آ ف اپوزیشن خو رشید شاہ کو ڈبل شاہ اور بلا ول بھٹو کو 'بے بی بلاول ‘قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اب اسلام آباد ' شٹ ڈاؤن‘ میں ناکامی اور سپریم کو رٹ سے فی الحال بے مرا د لو ٹنے نیز فو جی قیادت کی پرامن تبد یلی کے بعد یقینا تحر یک انصاف کے ہو ش بھی ٹھکا نے آ گئے ہو نگے ۔
برادرم حامد میر کہتے ہیں کہ شاہ محمو د قریشی آصف علی زرداری سے مسلسل را بطے میں ہیں لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں برادرم اعتزاز احسن کا شاہ محمود قر یشی اور جہا نگیر تر ین سے رابطہ رہتا ہے ،قر یشی صاحب نے تحریک انصاف کے اپنے ساتھیوںکے بر عکس سیا ست کے میدان میں ہی اپنے بال سفید کیے ہیں ،انھیں اچھی طر ح علم ہے کہ ایسے معاملا ت میں تالی دونوں ہا تھوں سے بجتی ہے ۔' پاناما لیکس‘ پر پیپلز پارٹی کا دست تعاون حا صل کر نے کے لیے انھیں بلاول بھٹو کے چار نکا تی ایجنڈے کی حما یت کرنا ہو گی۔ لیکن اس سے بڑ ھ کر پی ٹی آ ئی کے سر بر اہ اور لیڈر شپ کو اپنی زبانوں پر قابورکھنا ہو گا ۔اس وقت اگر اپوزیشن کیلئے سب سے بڑا ہدف حکمران جما عت ہے تو اس کے پاس متحدہ محاذ بنانے کے سوا کو ئی چارہ کار نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آ ئی کا سولو فلائٹ کا چسکاختم ہی نہیں ہو تا ۔
آصف زرداری کی جلاوطنی کے دوران ایک بہت بڑ ی کامیابی بلاول بھٹو کا عملی سیا ست میں بھر پو ر طریقے سے قدم رکھنا ہے ۔ بلاول کا لا ہو ر کا دورہ بہت کامیاب رہا اور سب سے بڑ ھ کر سند ھ میں ایک نئی قیادت سامنے آ گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ماحول میں زرداری صاحب بر خو ردار بلا ول کو جو کام کر نے کی آزادی دے چکے ہیں وہ بر قرار رہے گی یا نہیں۔ عام تا ثر یہی ہے کہ بطو ر شر یک چیئر پر سن آصف زرداری پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا تے رہیں گے،ویسے بھی وہ اس کے ما ہر ہیں کیونکہ انھوں نے بطور صدر مملکت پا نچ سال کامیابی سے پیپلز پا رٹی کی حکومت چلا ئی حالانکہ پا رلیمانی نظام میں صدر کی حیثیت محض علا متی ہو تی ہے ۔جہاں تک پیپلز پا رٹی کے چا ر نکا ت'پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کی تشکیل نو،پیپلز پارٹی کے پاناما بل کی منظوری،سی پیک قرارداد پر عمل درآمد اوروزیر خارجہ کی تعیناتی‘ کا تعلق ہے یہ قابل عمل لگتے ہیں ۔جہاں تک مستقل وزیر خا رجہ بنانے کا تعلق ہے یہ اپوزیشن سے زیا دہ حکومت کی ضرورت ہو نی چاہیے اور اسے ماننے میں کو ئی حر ج نہیں ۔اصل معا ملہ ' پاناماگیٹ‘ کی تحقیقا ت کا ہے ۔سینیٹ میں اپوزیشن نے اپنی مرضی کا احتسا ب بل منظو ر کر لیا ہے جبکہ حکومت قومی اسمبلی میں اپنا انکوائری کمیشن بل منظور کر چکی ہے ۔ لہٰذابہتر ہو گا کہ مذاکرات کے ذریعے ان دونوں بلوں کو یکجا کر کے کو ئی متفقہ قانون بنا یا جا ئے ۔ قا ضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپو رٹ کے حوالے سے نثا ر علی خان کے استعفیٰ کا اپوزیشن کا ایک نیا مطالبہ سامنے آیا ہے ۔ حکومت کو اس رپو رٹ پر صدق دلی اور مثبت انداز سے عمل درآمد کااعلان کر نا چاہیے۔چو ہدری نثار کو سمجھ لینا چاہیے کہ قا ضی فائز کے ساتھ ان کا کو ئی ذاتی جھگڑا نہیں لہٰذا یہ کہنا کہ کمیشن نے وزیر داخلہ پر ذاتی حملے کیے ہیں، مبنی بر حقا ئق نہیں ہو گا۔ اس تنا ظر میں لگتا ہے کہ شاید میاں نواز شر یف کو اپنے وزیر داخلہ کی قر بانی دینا پڑ جا ئے ۔جہاں تک بلاول کا تعلق ہے انھیں عمران خان یا حکمران جما عت کے نورتنوں کی زبان میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا ٹو یٹ کہ ' ہاں میں بچہ ہوں‘ شہید بے نظیر بھٹو کا بچہ 'ڈروگنجا لیگ ڈرو‘پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے مجموعی رویہ کے خلاف ہے۔