"ANC" (space) message & send to 7575

زرداری کی واپسی....گرینڈ الائنس؟

میاں نواز شریف ،پیپلز پا رٹی کے شر یک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آ صف علی زرداری کی وطن واپسی پر بظاہرخو ش ہیں لیکن یہ خو شی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ پا رٹی کی با گ ڈور خودسنبھا لیں ۔لگتا ہے کہ حکمران جماعت بر خو رداربلا ول بھٹو کے ، جو پیپلز پا رٹی کے چیئر مین ہیں، بیانات اور ٹو یٹس سے بہت تنگ ہے۔ بھٹو جو نیئر ذومعنی فقرے چست کرنے کے ما ہر ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ میاں برادران کے سر پر بال نہ ہونے اور چو ہدری نثار علی کی وگ پر بھی فقرے بازی کرنے سے باز نہیں رہتے ۔ اپنے والد کی واپسی پر بلا ول کے مطابق رائے ونڈ والوں کی الٹی گنتی شر وع ہو گئی ہے ۔ ان کے ٹو یٹ کے مطا بق اب ''گو نواز گو ‘‘ کا بھر پو ر نعرہ لگے گا ۔اس کے بر عکس آ صف زرداری نے اپنی روایا ت کے مطابق وطن واپسی پر انتہا ئی مصالحا نہ ،محتاط اور نپی تلی تقر یر کی۔ انھوں نے فو ج کی بھی تعر یف کی اور میاں نواز شریف کو بھی نہیں رگیدا نیزحکومت پر برا ہ راست تنقید سے اجتنا ب کیا اور جیالوں کو یہ کہہ کر ٹر خا دیا کہ منگل کے روزگڑ ھی خد ابخش کے جلسہ عام میں خو شخبر یاں دیں گے ۔
جب زرداری صاحب خصوصی پرواز کے ذریعے دبئی سے کرا چی کے لیے روانہ ہو چکے تھے تواس وقت رینجر ز نے ان کے قر یبی دوست انو ر مجید کے دفا تر پر چھا پے ما رناشر وع کر دیئے اس کا مقصد کیا تھا، سمجھ سے بالا ترہے ۔ انور مجیدتو کئی بر س سے جلا وطنی میں ہیں ۔عین آ صف زرداری کی آمد کے مو قع پر کا رروائی یا تو یہ پیغام دینے کے لیے تھی کہ وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیںکہ جنر ل را حیل شر یف، کو رکما نڈر لیفٹیننٹ جنر ل نو ید مختاراور ڈی رینجرز میجر جنرل بلال اکبرکے جانے کے بعد اب ستیں خیراں ہیں ۔ بعض ناقد ین کا خیا ل ہے کہ یہ چوہدری نثا ر کا کیا دھرا ہے کیو نکہ انھوں نے بھٹو خاندان سے اپنی نفرت کو کبھی نہیں چھپا یا تا ہم وزیر داخلہ کا دعویٰ ہے کہ چھا پو ں کے سیاسی محر کات نہیں ہیں ۔ اگر ان چھاپوں کے سیا سی عوامل نہیں ہیں تو عین آ صف زرداری کی کر اچی لینڈ نگ سے قبل ان کی ٹا ئمنگ معنی خیز ہے ۔اگر اس کا مقصدآصف زرداری کو اشتعال دلا نا تھاتو ایسا نہیں ہوا۔ اخبار ی اطلا عات کے مطا بق وزیر داخلہ نے چھا پوں کے بارے میں وزیر اعظم کو بھی بر یفنگ دی ہے۔لگتا ہے کہ میاں نواز شر یف نے بھی کام بانٹ رکھے ہیںگو یاوہ خو د تو زرداری صاحب کو جی آیاں نوں کہیںجبکہ دوسر ی طرف اپنے وزرا اور دیگر ساتھیوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کے حر بے بھی استعمال کرتے رہیں ۔بالکل اسی طر ح جیسے زرداری صلح جو ئی ،مصالحت اور مل جل کر کام کر نے کی باتیں کرتے رہیں گے اور بلاول حکمران جماعت کے لتے لیتے رہیں گے ۔ آصف زرداری جیسے زیر ک اور جہا ند یدہ سیاستدان کو اس بات کا تومکمل ادراک ہو گا کہ زیا دہ سے زیا دہ ڈیڑ ھ برس میں عام انتخابات ہو نے والے ہیں لہٰذا پیپلز پا رٹی کی لیڈر شپ کے پا س اپنے معاملا ت درست کرنے کے لیے زیا دہ وقت نہیں ہے ۔ 
بلا ول نے حال ہی میں پیپلز پا رٹی کے یوم تا سیس کے موقع پرایک ہفتے تک لا ہو ر میں پڑاؤ ڈالے رکھا۔اس دوران انھوں نے پنجاب کے جیالوں کو حو صلہ دیا ۔دیکھا جا ئے تو پیپلز پا رٹی اور اس کے وزراء نے2008ء سے 2013ء تک پنجاب کے معاملات کو یکسر نظر انداز کیے رکھا ۔ وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے لیکن وہ صرف وزارت عظمیٰ کے مزے لو ٹنے میں ہی مگن رہے اور پارٹی کی طرف کو ئی تو جہ نہیں دی۔یہی وجہ تھی کہ2013 ء کے انتخابا ت میں تو پنجاب میں اس جماعت کا یکسر صفایاہی ہو گیا ۔معاملا ت منظو ر وٹو کے ہا تھ میں آ گئے لیکن جیالوں نے انھیں کبھی جیالا نہیں مانا۔ اس تناظر میں دیر آید درست آید کے مصداق بلاول بھٹو کا پنجاب میں نزول اور قمر زمان کا ئر ہ کی نئے صوبا ئی صدر کے طور پر تقر ری خو ش آ ئند ہے ۔پیپلز پارٹی جواس ملک کی سب سے بڑ ی جما عت تھی اس کے پنجاب میں احیا کے بغیر آ صف زرداری اور بلاول بھٹو کا یہ خواب کہ وہ مرکز اور صوبوں میں حکومت بنائیں گے شر مند ہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے باپ بیٹے کو شاید اپنا زیا دہ وقت لاہو ر میں گزارنا پڑے گا، یہ کو ئی آسان کام نہیں ہے ۔پیپلز پا رٹی نے پنجاب میں جو خلا چھوڑ اتھااسے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے کسی حد تک پُر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ 2013ء سے لیکر اب تک پنجاب میں جتنے بھی ضمنی الیکشن ہو ئے قریباًسب میں پیپلزپا رٹی تحریک انصاف کے بعد تیسر ی ہی پو زیشن حا صل کر پا ئی اورزیا دہ تر نشستیں مسلم لیگ(ن) ہی لے گئی۔ بلدیاتی انتخابات اور میئر اور چیئر مینوں کے انتخابات میں بھی نواز لیگ ہی نمبر ون رہی ہے ۔ شر یف برادران گز شتہ تین سال سے انتخابی مہم ہی تو چلا رہے ہیں ۔2008 ء سے شہباز شر یف پنجاب میں حکمرانی کر رہے ہیں ۔وہ اپنی خداداد انتظامی صلا حیتوں، محنت شاقہ اور وفا ق کی بھر پو ر حما یت کی وجہ سے پنجاب میں تر قیا تی کاموں کا وسیع نیٹ ورک پھیلا رہے ہیں ۔ نا قدین لا کھ کہیں کہ بجلی کی پیداوار کے میگا پراجیکٹس ،سڑ کو ں ،میٹرو بسوں، اور نج ٹر ین اور موٹر ویز کی تعمیر قومی خز انے پر بے جا بوجھ ہیں اور جلد باز ی میں شفافیت کو بھی مدنظر نہیں رکھا جا تا لیکن لو ڈ شیڈ نگ کے خا تمے سے لے کر ان تمام پراجیکٹس کا مقصد 2018ء سے پہلے پہلے ایسی بساط بچھا نا ہے کہ مسلم لیگ(ن) عام انتخابات میں پہلے سے بھی بڑ ی کامیابی حا صل کر سکے ۔ 
جنر ل را حیل شر یف کی ریٹا ئر منٹ کے بعد حکمران جما عت کچھ زیا دہ ہی شیر ہو گئی ہے۔ حال ہی میں بجلی ،گیس اور تیل کے ریگو لیٹر ی ادارے متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کر کے ان کے ریگولیٹر ی رول کو ختم کردیا گیا ہے ۔اس کامقصد بھی غا لبا ً یہی ہے کہ ایل این جی کی من ما نی قیمت پر درآمد اور نندی پو ر جیسے سفیدہا تھی سے پیدا کی گئی بجلی کو مرضی کے نرخوں پر فروخت کیا جا سکے ۔ اس تنا ظر میں ملک خواہ کتنا ہی مقر وض ہو جا ئے محتر م اسحق ڈار کو اس کی کو ئی فکر لاحق نہیں کیو نکہ شر یف برادران نے ہر حال میں پا نچ سال پو رے کر نے کے بعد پھر پا نچ سال کے لیے حکومت حا صل کر نی ہے ۔ یقینا یہ با تیں آ صف زرداری اورعمران خان سمیت اپو زیشن کے سو چنے کی ہیں ۔ تحر یک انصاف نے زرداری کی آمد پر یہ فقر ہ کسا ہے کہ زرداری کی آمد سے فر ینڈلی اپوزیشن مضبو ط ہو گی، پارٹی کے ترجمان کے مطابق زرداری سب پر تو نہیں لیکن پیپلز پا رٹی پر ضرور بھا ری ثا بت ہو نگے ۔ صاف ظا ہر ہے کہ تحر یک انصاف پیپلزپا رٹی کو اپنا حریف سمجھتی ہے اوریقینا پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنا کھو یا ہوا مقام کسی حد تک واپس لینے کے لیے مسلم لیگ ن کے علاوہ تحریک انصاف سے بھی کانٹے کا مقابلہ کر نا پڑ ے گا ۔ خان صاحب اور ان کے حواری اب بھی سولو فلا ئٹ پر ہی مصر ہیں ۔ ان دنوں اپوزیشن کے گر ینڈ الا ئنس کی با تیں ہو رہی ہیں لیکن ایسا اتحاد حزب اختلا ف کے اپنے تضا دات کی بنا پر فی الحا ل مشکل نظر آ رہا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ محتر مہ بے نظیر بھٹو کی نو یں برسی کے موقع پر آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے پا رٹی اور قوم کوکیا پیغام دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں