وزیر دفاع خواجہ آصف نے بالآخر اس خبر کی تصدیق کر دی جو خاصے عرصے سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہی تھی کہ جنرل راحیل شر یف 29نومبر کوریٹائرمنٹ کے بعد 39 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کے سر براہ بن جائیں گے۔ اگرچہ اس بارے میں سر کاری طور پر کوئی اعلان نہیں جاری کیا گیا لیکن وزیر دفاع کی اس کی تصدیق کو ہی کافی سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنرل راحیل شریف جب پاک فو ج کے سربراہ تھے تو سعودی عرب کے بنائے ہوئے اس اسلامی فو جی اتحاد کی سربراہی کا تقرر نامہ اس وقت بھی ان کی جیب میں تھا۔ خواجہ آصف کے مطابق ان کی یہ تقرری میاں نواز شریف اور جی ایچ کیو کی منظوری سے ہی ہو ئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات بحث طلب ہے کہ فوجی سربراہ کو قانونی اور اخلاقی طور پر ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ایسا منصب قبول کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ کیونکہ ابھی تو ان کی ریٹائرمنٹ کی 'عد ت‘ بھی پوری نہیں ہوئی۔سابق فوجی سربراہ سفارت کا عہدہ تو اکثر قبول کر لیتے ہیں لیکن باقاعدہ ایک فوجی اتحاد جو ابھی فعال بھی نہیں ہو سکا اور جس کے سیاسی اور بین الاقوامی محرکات بھی ہیں، میں شامل ہونا محل نظر ہے، خاص طور پر ایسا اتحاد جس میں ہمارا ایک برادر اور اسلامی ملک ایران نہ ہو اور وہ اس اتحاد کو کسی حد تک اپنے خلاف گردانتا ہو۔ اس بات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر حکومت پاکستان کی اس ضمن میں پالیسی کیا ہے۔
پہلے جب دسمبر2015 ء میں یہ اتحاد بنا تو سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیاگیا کہ پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اتحاد میں سعودی عرب،اردن، متحدہ عرب امارات ،پاکستان، بحر ین ،بنگلہ دیش،لبنان،ترکی،چاڈ،توگو، تیونس، جیبوتی، سینی گال، ما لدیپ، مالی،ملا ئشیا، مصر، مر اکش،مو ریطانیہ، نائیجریا،یمن، یوگنڈا اور دیگرشامل ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اتحاد کا مقصد عراق ،شام ،لیبیا ،مصر اور افغا نستان جیسے مما لک میں شدت پسندی سے نمٹنا بتایا تھا اور یہ عزم بھی ظا ہر کیا تھا کہ اس فوجی اتحاد کے ذریعے نہ صرف داعش بلکہ جوبھی دہشت گرد تنظیم ابھر ے گی اس کامقابلہ کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا اعلان ہو تے ہی سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا اورکہا کہ اس کے محرکات کا جائزہ لے کر ہی شمولیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی روز حکومت نے اس میں شمو لیت کی نوید سنا دی کہ پا کستان تو اس الائنس میں شامل ہے اور اعزاز چوہدری کی جواب طلبی کر لی گئی تھی۔اس کے بعد پاکستان میں بحث چل پڑی کہ ہمیں اس پرائی لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیے تو وزیر اعظم میاں نواز شریف اور جنر ل راحیل شریف سعودی عرب تشریف لے گئے اورمودبانہ درخواست کی کہ اگرچہ پاکستان، اپنے اسلامی بھائی کا دامے درمے سخنے ساتھ دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اتحاد یمن کی لڑائی میں فر یق بننے کے مترادف ہوگا۔اس حوالے سے مزید پیچیدگی یہ تھی کہ ایران یمن کے باغیوں کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان کے اپنے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔
وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ حکومت کی آشیر باد سے ہی جنرل راحیل شریف سعودی عر تشر یف لے گئے ہیں اس کا بالواسطہ مطلب تو یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب اس اتحاد میں شامل ہے۔ علامتی طور پر تو 39 ملکوں کے جھنڈوں میں پاکستان کا پرچم تو پہلے ہی لہرا رہا تھا۔گویا اس اتحاد کے بارے میں پاکستان کی پا لیسی،صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، کی طرح ہے۔ جنرل راحیل شریف کی قائدانہ صلاحیتوں اور پروفیشنل ازم سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن انھوں نے وطن عزیزکو دہشت گردی سے پاک کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا وہ ہنوز تشنہ ہے اور اس کے لیے ابھی بہت کچھ کر نا باقی ہے۔ اگر اس اتحاد کا کام یمن میں حوثیوں پر بمباری اورفوجی حکمت عملی کے ذریعے ان کا صفایا کرنا ہے تو شاید اس مشن کے لیے جنرل راحیل شریف ہی موزوں ترین شخصیت ہیں، لیکن پرائی لڑ ائی کی اوکھلی میں سر دینا پاکستان کے لیے کہاں تک درست ہے؟ خاص طور پر وہ بھی ایک اسلامی ملک میں۔ اس کی ایک تازہ مثال ترکی کی ہے، شام کی جنگ میں کودنے کی وجہ سے اس کی اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میںاضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان تو خود اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت اورافغانستان کے ساتھ تعلقات کشید ہ ہیں، اس لحاظ سے ہماری مشرقی اور مغربی سرحد وں پر خطرات ہیں۔ ہمیں تو اس وقت اپنی نبیڑنی چاہیے نہ کہ کوئی اور محاذ کھڑا کرنا چاہیے۔
اصولی طور پر فوجی سربراہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو برس تک کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کرسکتا لیکن جنر ل (ر) راحیل شریف کا نیا منصب حکومت پاکستان کی ملازمت نہیں ہے تاہم کسی سابق فوجی سر براہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی عہدہ لینے اور کسی سکیورٹی سیمینار میں شرکت کر نے کے لیے حکومتی کلیئرنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوجی سربراہ عملاً ایٹمی صلاحیت کا منبع بھی ہوتا ہے اور ریٹائر ہ ہونے کے باوجود حساس سکیورٹی معاملات اس کے سینے میں محفوظ ہو تے ہیں۔ لیکن جیسا کہ خواجہ آصف نے خود تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے بڑی عجلت میں انھیں کلیئرنس دی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ راحیل شریف کا سعودی عرب میںعہدہ لینا پہلے سے طے شدہ تھا۔ بعض ناقدین کے مطابق یہی وجہ تھی کہ راحیل شریف بار بار مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے ٹویٹ کراتے رہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایک تحریر گشت کر رہی ہے جو قابل غور ہے۔ ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ اس فوجی اتحاد کا مقصد کیا ہے۔ اگر یہ نیٹو یا امریکہ کے مقابلے میں ہے تو اس اتحاد میں شامل کئی ممالک امریکہ اور یورپ کے بغل بچے ہیں،کیا وہ نبھا کر سکیں گے؟ اگریہ فوج اپنے ہی اسلامی ممالک کے خلاف استعمال ہوگی تو یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔
یقینا جنرل صاحب اور حکومت پاکستان نے اس فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔ دیکھنا ہو گا کہ سربراہی کے حوالے سے ان کا مینڈ یٹ کیا ہوگا۔دہشت گردوں کا صفایا اور بات ہے لیکن حوثی قبائل تو اپنی دانست میں آ زادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ایما پر ان کا صفایا کر نے کی لڑائی میں فریق بننا کہاں تک ہمارے مفاد میں ہے؟ ویسے بھی ایک غیر عرب شخصیت کا 39ملکوں جن میں اکثریت عرب ممالک کی ہے جو عسکریت کی 'الف ب‘ سے بھی واقف نہیں، کے فوجی اتحاد کی سربراہی ایک انوکھا تجربہ ہوگا۔ راحیل شریف ہمارے لیے بڑ ے قابل احترام ہیں۔انھوں نے ملک کے لیے بے شمار خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اندرون ملک رہ کر پاکستان کی خدمت کرتے تو بہت اچھا ہوتا اور بہتر یہی تھا کہ وہ کانٹوں کا یہ تاج سر پر نہ سجاتے۔