"ANC" (space) message & send to 7575

جھوٹ اور اپنا گریبان......

اگر چہ آ ئین کے مطابق موجودہ حکومت کی مدت پو ری ہو نے میں ایک سال سے زیادہ عر صہ باقی ہے لیکن جس انداز اور تواتر سے وزیر اعظم میا ںنواز شریف فیتے کاٹ اور تقر یر یں کر رہے ہیں اس سے محسوس ہو تا ہے‘ مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے ۔ان کی متعدد تقار یرسے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کی 'پانامالیکس ‘ کے حوالے سے قانونی اور سیاسی مہم جو ئی کا بالواسطہ جواب دے رہے ہیں ۔شاید اسی بنا پر ان کے بعض ارشادات ہو ش کے بجا ئے جوش پر مبنی نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے مخا لفین جھوٹ کی سیاست کر رہے ہیں اور میڈ یا کا ایک حصہ دروغ گوئی اور الزام تراشی کے اس پر اپیگنڈے کا حصہ بن چکا ہے ۔ میاں صاحب کے بقول یہ سب لو گ تر قی کا را ستہ روک رہے ہیں ۔کیامیاں صاحب صدق دل سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے اور ان کی جما عت نے ہمیشہ سچ بولنے کی روایت قا ئم کی ہے اور جھو ٹ کی سیا ست کبھی نہیں کی ۔ ان کی راست بازی کا بھا نڈا تو سپر یم کورٹ نے ہی پھوڑ دیا ہے۔'پانامالیکس‘ کیس کی سما عت کر نے والے بینچ کے ایک فا ضل رکن جسٹس عظمت سعید نے یہ ریمارکس دئیے کہ نواز شر یف نے تقر یر میں غلط بیانی کی ہے ۔ جس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انجانے میں کو ئی بات رہ جانا اور جان بو جھ کرچھپا نے میں فر ق ہے اور تفصیلا ت نہ بتانا جھوٹ کے زمر ے میں نہیں آ تا جس پربینچ کے سربراہ جسٹس آ صف سعیدکھو سہ نے کہا کہ وزیراعظم کی ان تقا ریر کو آ دھا سچ یا جھو ٹ مان لیں۔ اگر وزیر اعظم نے کوئی چیز چھپا ئی ہے تو اسے آ دھا سچ ما نیں گے ۔سپر یم کو رٹ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ ان کی زند گی کھلی کتاب کی ما نند ہے لیکن اس کھلی کتاب کے بعض صفحا ت غا ئب ہیں ۔دوسری طرف دو روز قبل شائع ہونے والی بی بی سی کی سٹوری نے بھی کئی باتوں سے پردہ اٹھایا اور سوالات کو جنم دیا ہے۔
کوئی سیا ست دان اگر یہ دعویٰ کر ے کہ اس نے جھو ٹ نہیں بولا تویہ اس سال کا سب سے بڑ ا جھوٹ ہو گا ۔ عمومی طور پر تو سیا ست میں سب کچھ جائز قرار دیا جا تا ہے اور کہا جا تا ہے کہ سیا سیا ت اور اخلاقیا ت کا آ پس میں کو ئی تعلق نہیں ہو تا۔ لیکن آج کل روایت چل پڑ ی ہے کہ اکثر نجی چینلزجن میں وہ بھی شامل ہیں جو میاں نواز شر یف کے حامی تصور کیے جا تے ہیں سیا ستد انوں کے ا ٓج کے ارشا دات اور ما ضی کے رشحا ت فکر پر مبنی کلپس ایک ساتھ نشر کر رہے ہیں ۔گز شتہ روز ہی ایک چینل نے دانیال عزیز کا پر ویز مشرف دور کا کلپ دکھایا جس میں وہ بطورمشرف کابینہ کے وزیر، میاں نواز شر یف کو سخت سست کہتے ہو ئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی را ئے ونڈ کی جا گیرسراسر نا جا ئز دولت کی پید اوار ہے ۔ ایک اور کلپ میں شیخ رشید اور عمران خان ایک دوسرے سے دست وگر یبان ہیں ۔ اسی طر ح فیصل صالح حیا ت جنہوں نے پرویز مشرف دور میں اس وقت کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنر ل حسین مہدی کے ہا تھ پر بیعت کر کے اور پیٹر یا ٹس بنا کر پیپلز پارٹی کی پیٹھ میں چھڑ اگھو نپا تھا ، زرداری ایندکمپنی کو کو س رہے ہیں اور اب وہ اپنے خا لو جان خا لد کھرل کے ہمر اہ دوبارہ پیپلز پا رٹی میں شامل ہو چکے ہیں ۔ اس متذ کر ہ چینل نے میاں نواز شر یف اور میاں شہباز شر یف کے وہ کلپ دکھانے سے اجتنا ب کیا جن میں وہ تین سے چھ ما ہ میں لو ڈ شیڈ نگ ختم کر نے کا دعویٰ کر رہے ہیں،وہ کلپ بھی نہیں دکھا یا جس میں وزیر داخلہ چو ہد ری نثار آنسوؤں کے ساتھ رو رہے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت بہت بڑا سانحہ ہے اورا س سے طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا ۔سیاستدان اپنی را ئے اور قبلہ وقت کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت بد لتے رہتے ہیں ۔ حال ہی میں فو جی عدالتوں کی دوسالہ مدت ختم ہو گئی ۔ اس موقع پر وزیر قانون پنجاب رانا ثنا ء اللہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ فو جی عدالتیں دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام رہی ہیں لہٰذا ان کی کو ئی ضرورت نہیں رہی۔ ان کافر مانا تھا کہ انسداددہشت گرد ی کی عدالتیں یہ کام بہترطور پر کر سکتی ہیںاورمیں روزاول سے ان کے قیام کا مخا لف تھا ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ فو جی عدالتوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب اس معاملے میں فو جی قیا دت نے وزیر اعظم پر واضح کیا کہ فو جی عدالتوں کی مدت میں تو سیع ہو نی چاہیے اور دہشت گر دی پر قابو پانے کے لیے ان کا قیام ضروری ہے تو حکو مت نے پینترا بدل لیا ۔را نا ثنا ء اللہ جنہوں نے یقینا متذکر ہ ریما رکس سو چ سمجھ کر دیئے ہو نگے انھوں نے بھی کہہ دیا کہ ان کا بیان سیا ق وسباق کے بغیر نشر کیا گیا ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ''ڈان لیکس ‘‘کی تحقیقا ت کا کو ئی نتیجہ نہ نکلنے اور را نا ثناء اللہ کے فو جی عدالتوں کے بارے میں ریمارکس پر سینئر افسران نے آ رمی چیف جنر ل قمر جاوید باجو ہ سے ان کے حا لیہ دورہ جہلم اور کھا ریاں کے مو قع پر تند وتیز سوالا ت کیے ۔ فو جی افسروں کا مبینہ طور پر استدلال تھا کہ فو جی عدالتوں نے تو اپنے فر ائض خو ش اسلو بی سے ادا کیے ہیں اس لئے ان پر تنقید بے جا ہے۔ دوسر ے لفظوں میں جنر ل را حیل شر یف کے ریٹا ئرہو نے اور فو جی قیا دت میں تبد یلی کے بعد اگر یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اب سویلین اور فو جی قیا دت کے درمیان ' ہنی مو ن‘شر وع ہو چکا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔حکومتی عما ئد ین کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ فو ج کو آن بورڈ لیے بغیر ہی فیصلے کر لیں گے ۔
میاں نواز شر یف نے حال ہی میں چکوال کے قریب کٹا س را ج مندر کی تز ئین و آ را ئش اور دیگر منصو بوں کے افتتاح کے مو قع سلام ، نمستے ،ستسر ی یا کا ر ،گڈ آفٹر نو ن کہتے ہو ئے درست طو ر پر کہا کہ وہ صرف مسلما نوں کے نہیں بلکہ سب پا کستانیوں کے وزیر اعظم ہیں اور وہ اقلیتوں کا تحفظ کر نے پر یقین رکھتے ہیں ۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی زمینی حقا ئق سے تصدیق نہیں ہوتی ۔وطن عزیز میں اقلیتوں کا حال اگر چہ برما میں مسلمانوں جیسا نہیں ہے ۔لیکن جس انداز سے مسلمان ہو نے کا دعویٰ کر نے والے مذ ہب کی اپنی مر ضی سے تشر یح کی آڑ میں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہا تھ رنگتے ہیں وہ بھی تشو یشنا ک ہے۔ بلو چستان میں ایک فر قے کی خو اتین وحضرات کے خلا ف دہشت گرد ی اور ان کی ٹارگٹ کلنگ انتہائی افسوس ناک ہے ۔ اسی طر ح اقلیتیں بھی اپنے آپ کو محفو ظ تصور نہیں کر تیں ۔دوسری طرف وزیر داخلہ نے سینیٹ میں اس سوال کہ وہ اہلسنت والجماعت کے رہنما مو لا نا محمد احمد لد ھیانوی سے کیوں ملے تھے کا جواب دیتے ہو ئے کہا وہ ایک وفد میں شامل تھے اور ویسے بھی فر قہ واریت پھیلا نے والی ممنو عہ تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے برابر قرار نہیں دیاجا سکتا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنی شیعہ مسئلہ تو تیر ہ سوبر س پرانا ہے ۔ اس حوالے سے خود پر ہو نے والی تنقید سے چو ہدری نثا ر کچھ بو کھلا سے گئے ہیں ان کا خیا ل ہے یہ سب کچھ پیپلز پا رٹی کروا رہی ہے جسے ان سے کچھ مسئلہ ہے حالانکہ حقا ئق اس کے بر عکس ہیں۔ چار بلا گرز کے یکدم غائب ہو جانے پر انسانی حقوق کی اکثر تنظیمیں اور لبر ل خو اتین وحضرات سراپا احتجاج ہیں،اس کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اس بارے میں وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس انداز میں اپنے نا قدین کو غا ئب کر نے کے کا روبار میں شر یک نہیں ہے۔ لیکن یقینا اگر دن دہاڑے دارالحکومت اسلام آباد سے کچھ لو گ اٹھا لیے جا تے ہیں تو انھیں بر آمد کر نا حکومت کے فر ائض منصبی میں شامل ہے ۔خا ص طور پرجبکہ ایجنسیوںنے بھی اس بات کی تر دید کی ہے کہ ان افراد کے غا ئب ہو نے میں ان کا کو ئی ہا تھ نہیں اب یہ حکو مت کا کام ہے کہ وہ کھو ج لگا ئے ۔ یہ الزام توتواتر سے لگتا رہا ہے کہ بہت سا رے ایسے افراد کوجن پردہشت گر دی کا الزام ہو تا ہے، انھیں ادھر اُدھر کر دیا جا تا ہے لیکن اب لبر ل لوگوں کی باری آ گئی ہے ان پر الزام ہے کہ یہ فو ج پر تنقید کرتے تھے سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنا حکومت کا ہی کام ہے۔ جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے ان عدالتوں سے سزا پانے والوں میں سے صرف بارہ افراد کو ہی تختہ دار پر لٹکا یا جا سکا ہے کیو نکہ ان سے سزا پانے والوں کو سپر یم کو رٹ اور ہا ئی کو رٹس میں اپیلیں کر نے کا حق حا صل ہے ۔
ظا ہر ہے کہ فو جی عدالتیں ایک جمہو ری نظام کی ضد ہو تی ہیں اور اکثرسیا سی جما عتوں نے جن میں پیپلز پا رٹی پیش پیش ہے ‘ایسی عدالتوں کی مخا لفت کی ہے لہٰذا حکومت کے لیے ان کو بحال کرنا اتنا آسا ن نہیں ہو گا ۔ دراصل ہماری حکو مت اور اپو زیشن پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی اور اصلا حا ت میںقطعا ً دلچسپی نہیں لیتیں اوراسی بنا پر دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے کو ئی مو ثر نظام وضع نہیں ہوسکا ۔ اس تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو نہ صرف حکمرا نوں بلکہ تمام سیاستدانوں کو ایک دوسر ے کو جھوٹا کہنے کے بجا ئے اپنے گر یبان میں جھا نکناچاہیے اور یہ سو چنا چاہیے کہ جو مینڈیٹ لے کر وہ اسمبلیوں میں آ ئے ہیں اس کی کہاں تک آبیا ری کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں