اپوزیشن کو تو میاں نواز شر یف کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولتا نظر آ رہا ہے شاید اسی بنا پر ملک میں سیا سی سر گر میاں تیز تر ہو تی جا رہی ہیں ۔بعض سیاسی رہنما جو عام انتخا بات میں بمشکل اپنی ہی سیٹ نکال پاتے ہیں گدِ ھوں کی طر ح مردار خوری کے لیے تیا ری کر رہے ہیں ۔جہاں تک وزیر اعظم میاں نواز شر یف کا تعلق ہے ،ان کے سینئر وزراء 'پاناما کیس ‘ کی روزانہ کی پیشی بھگتنے کے بعد سپر یم کو رٹ کے باہر با آواز بلند دعوے کرتے ہیں کہ' ستوں خیراں‘ ہیں ان کے لیڈر کو کچھ نہیں ہو گا ۔ان کی توپو ں کا رخ زیا دہ تر عمران خان کی طرف ہی ہو تا ہے اور اب آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی ان کی ریڈار سکرین پر آئے ہیں۔ کیس کے میرٹ پر بہت کم بات کی جاتی ہے جس بنا پرناقد ین کو شبہ ہو تا ہے کہ 'پانامالیکس ‘ کے حوالے سے میاں نواز شر یف اور ان کے اہل خانہ کا کو ئی کیس ہی نہیں ہے ۔حکومتی رہنما ؤں کی طرف سے عمران خان کومسلسل کرپٹ قرار دیا جا تا ہے ۔اگر عمران خان واقعی اتنے کرپٹ ہیں تو زبانی کلامی بہتان تراشی کے بجائے ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرنی چاہیے اس وقت تو عدالت میں میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا ٹرائل ہو رہا ہے۔
ادھر ایک انگر یزی روزنامے میں ایک وکیل فیصل صدیقی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ شریف برادران تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے پنجاب میں حکمرا نی کر رہے ہیں اور نواز شر یف تیسر ی بار ملک کے وزیر اعظم ہیں، اس لحا ظ سے وہ ملک کی Permanent Ruling Eliteہیں ۔ کو ئی عدالت آج تک ان کا بال بیکا نہیں کرسکی۔ 1997ء میں سپر یم کو رٹ پر حملے کی پاداش میں بھی ان کا کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔1990ء کے اصغر خان کیس جس میں یونس حبیب کے ذ ریعے مبینہ طور پر مسلم لیگ(ن) کو مہران بینک سے آ ئی ایس آ ئی کا مال ملا تھا ،طا ق نسیان میں پڑا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے غیر قانونی طور پر فنڈز وصول کر نے کے الزام میںمیاں نواز شر یف کے خلا ف انکوائر ی کا حکم دیا تھا لیکن آ ج تک کوئی سنجید ہ تحقیقا ت نہیں ہوسکی۔میاں نواز شریف کومشرف دور میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں اگرچہ عمر قید ہوئی لیکن بعد ازاں اس میں سے بھی نکل گئے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اس پس منظر کے باوجو د میاں نواز شریف انگلی کٹوا کر جسٹس افتخا ر محمد چو ہدری کی بحالی کی تحر یک میں شامل ہو گئے تھے ۔ فیصل صدیقی اپنے مضمون کا آغاز اور اختتام 'پانامالیکس ‘ کی سما عت کرنے والے بینچ کے سر برا ہ جسٹس آ صف سعید کھو سہ کے ان ریما رکس سے کرتے ہیں ''وہ قوم قابل رحم ہے جو قانون کی حکمرانی کے لیے تحریک توچلاتی ہے لیکن جب قانون کا اطلاق اس کی اشرافیہ پر ہو تا ہے تو سراپا احتجاج بن جا تی ہے ‘‘۔
اس پس منظر میں تو عین ممکن ہے کہ اس بار بھی میاں نواز شر یف اپنے وکیل کے ذریعے استثنیٰ کا سہا را لے کرصاف بچ جا ئیں گے ۔واضح رہے کہ پاکستان کی تا ریخ میں کئی مر تبہ فوجی آمروں اوران کے آ لہ کاروں نے آ ئین کو اپنے بو ٹوں تلے روندتے ہو ئے منتخب وزرائے عظم کو برطرف کیا ہے لیکن نواز شر یف وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں 1993ء میں آرٹیکل 58۔ٹو بی کے تحت صدر غلام اسحق خان کے ہا تھوں بر طرف کیے جانے کے باوجو د چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی عدالت نے بحال کردیا تھا لیکن موجودہ ڈرامے کا ڈراپ سین مختلف بھی ہو سکتا ہے، کیو نکہ وقت بدل چکاہے ، عوامی ماحول اورمیڈیا کی چیخ وپکا ر میاں صاحب کے موافق نہیں ہے ۔عدلیہ اب آزاد ہے اورججز مدت ملازمت اور ترقی وتنز لی کے معا ملے میں ایگزیکٹوکے مر ہون منت نہیں ہیں ۔ جسٹس سجا د علی شاہ نے1996ء میں فیصلہ دیا تھا کہ سینئر ترین ہی چیف جسٹس بنے گا جبکہ جسٹس افتخا ر محمد چوہدری نے ججوں کی تقرری کے حوالے سے اسی طر ح کا میکانزم دیا تھا ،اس کی رو سے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز بالعموم اور جسٹس ثاقب نثاربالخصوص کسی کے مرہون منت نہیں ہیں بلکہ وہ میرٹ پر بنے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے 2018ء سے پہلے ہی انتخا بی مہم شر وع کر دی ہے کیو نکہ اسے تو قع ہے کہ الیکشن مقررہ وقت سے پہلے ہو جا ئیں گے ۔ شیخ رشید تو اسی برس17مئی کو انتخابات کا ڈنکا بجا رہے ہیں ۔عمران خان کا ارشاد ہے کہ 2013ء میں تیا ری نہیں تھی اب دھاندلی ہو ئی تب بھی ہم الیکشن جیتیں گے۔ ان کی پا رٹی نے ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شر وع کردیا ہے ۔نوآ مو ز سیاستدان بر خورداربلا ول بھٹو بھی کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں ہیں، انھوں نے بھی اپنی موجودہ تحر یک کے ذریعے انتخابات کی تیا ری کے لیے ڈول باندھ لیا ہے ۔ حال ہی میں لاہور میں ان کی ریلی اور فیصل آباد میں جلسے کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے ۔آ صف علی زرداری کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس مرحلے پر قومی اسمبلی میں منتخب ہو کرجانا ان کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت ہو سکتا ہے ۔گمان غا لب ہے کہ اب بلاول بھٹوابا جان سے تھوڑی سی آزادی حا صل کر کے آئند ہ انتخا بات میں بھر پو ر کردار ادا کر یں گے ۔ بلاول کا آغاز اچھا ہے ۔ حال ہی میں انھوں نے سندھ اسمبلی میں ایک خاتون رکن جن کا تعلق ان کی پا رٹی سے نہیں تھا کے بارے میں پیپلز پا رٹی کے وزیر کے ریما رکس کا سخت نوٹس لیا اور متعلقہ وزیرکو خا تون سے معا فی مانگنے پر مجبورکیا۔ خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی بھی متحرک ہو گئے ہیں۔جہاں تک وفاق اور پنجاب بلکہ بلو چستان میں بھی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو وہ روزاول سے ہی انتخا بی مہم پر نکلی ہو ئی ہے ۔بجلی کے بڑ ے منصوبے ،سڑ کوں کے جال،مو ٹر ویز ،میٹر وبسیں اور اورنج ٹر ینیں اس کے انتخابی پر وگرام کا ہی حصہ ہیں ۔ حکمران جماعت کم از کم پنجاب جو اسکا گڑھ ہے، میں لوڈشیڈنگ ختم اور میٹرو اور اورنج ٹرینوں کے منصوبے مکمل کرکے اس کر یڈٹ کی بنیا د پر ووٹ لینا چاہتی ہے ۔حکومت کی مخالف جما عتوں کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ انتخا بات شاید اسی سا ل ہو جا ئیں لہٰذا اپوزیشن کو لمبی چوڑی تیا ری کی ضرورت نہیں ہوتی ۔انھوں نے ٹکٹوں کی تقسیم، پا رٹی کی تنظیم اور بقول ان کے حکومت کے خراب ریکا رڈ کو بنیاد بنا کر الیکشن لڑناہے ۔ یقینا حکمران جما عت بھی اپنے ریکارڈ کی بنیا د پر ہی انتخا بات میں جا ئے گی اور اس کا ریکارڈ اتنا برا بھی نہیں ہے ۔پچھلے قر یبا ًچار برس میں برآمدات میں کمی آ ئی ہے ،غیر ملکی قرضوں میں ریکا رڈ اضافہ ہوا ہے ۔وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں آسکی جس سے روزگار کے مواقع میں اضا فہ نہیں ہوا ، تا ہم افراط زر کی شر ح عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو نے اور کچھ حکومت کی حکمت عملی کی بنا پرکم رہی ہے جس کی بنا پر عام آدمی پر زیا دہ بو جھ نہیں پڑا ۔
مسلم لیگ(ن) کوٹکٹیں دینے کا کو ئی مسئلہ نہیں ۔ان کے جیتے ہو ئے ارکان کئی مر تبہ انتخابات لڑکر جوڑ تو ڑ کے ما ہر بن چکے ہیں ۔ 2013ء کے انتخا بات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں عمران خان کے شور مچانے کے نتیجے میں اگلے انتخابات نسبتا ً زیادہ شفاف ہو نگے اور اس ضمن میں چند ما ہ میں الیکشن کمیشن کو طاقتور، فعال اور مو ثر بنانے کے لیے اعلیٰ عد لیہ کے ذریعے اصلا حات نافذ ہوں گی ۔ ہمارے انتخا بی نظام کی یہ عجیب کمزوری ہے کہ ایک سینئر وزیر انتخابات میں دھاند لی کا کیس ہا رنے کے باوجود حکم امتناعی کی بنیاد پر گرجتے پھر رہے ہیں۔اس تنا ظر میں میاں نواز شریف کے حواریوں کوخم ٹھونک کر اب یہ دعویٰ نہیں کر نا چاہیے کہ وہ چو تھی بار بھی وزیر اعظم ہو ں گے۔