"ANC" (space) message & send to 7575

سانڈوں کی لڑائی میں پارلیمنٹ بیچاری…

قومی اسمبلی میں حکمران جما عت اور تحر یک انصاف کے درمیان جمعرات کو ہو نے والی دھینگا مشتی کے بعد سیاسی فضا مزید مکدر ہو گئی ہے۔ میڈیا پر دکھائے گئے تھپڑ مارنے، گھونسے برسانے اور دست و گریباں ہونے کے مناظر قابل افسوس ہیں۔ سپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ ہنگامے کے ذمہ دار دونوں فریق ہیں، ارکان کو اعتماد نہیں تو استعفا دینے کو تیار ہوں۔ عمران خان سمیت پی ٹی آ ئی کے رہنماؤں اور مسلم لیگ (ن) کے ذمہ دار وزرا کے درمیان پچھلے چند ہفتوں سے جس طر ح دشنام طرازی ہو رہی تھی اس کے بعد اسمبلی میں ایسا واقعہ ہو جانا کو ئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ شیخ رشید‘ جو خود بھی اس تلخی میں اضافے کے ذمہ دار ہیں‘ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ با ہر کی تلخی اسمبلی میں آ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے پہلے روز تحریک انصاف ہنگامہ آرائی کی منصو بہ بندی کر کے آئی تھی۔ لیکن دوسری طرف حکمران جماعت کے ارکان کے عزائم بھی جارحانہ تھے۔ شاہ محمود قر یشی نے تقر یر کے دوران یکدم وزیر اعظم نواز شر یف کے خلا ف نعر ہ بازی شروع کر دی جس کے بعد پی ٹی آ ئی کے ارکان بھی اس کو رس میں شامل ہو گئے۔ قریشی صاحب اپنی میانہ روی کے حوالے سے پہچانے جا تے ہیں۔ وہ منجھے ہو ئے پارلیمنٹیرین اور تین دہا ئیوں سے پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں آ ٹے دال کا بھا ؤ اچھی طر ح معلوم ہے۔ اطلا عات کے مطابق غصے سے بھر ے وفا قی وزیر شاہد خاقان عباسی‘ جن کا شمار حکمران جماعت کے پُرزور جیالو ں میں نہیں ہو تا‘ جب احتجاج کرنے شاہ محمود قر یشی کی نشست کی طرف بڑھے تو پی ٹی آ ئی کے ارکان بھی ان پر ٹو ٹ پڑ نے کے لیے لپکے‘ جس پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی اس دھینگا مشتی میں کو دپڑ ے۔ شاہد خاقان عباسی اگر شاہ محمود قر یشی کی سرزنش کر نے کے لیے اپوزیشن بینچوں کی طرف نہ بڑھتے تو شاید وہ پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کی غنڈہ گردی سے بچ جا تے۔ ان ارکان میں شہریار آفریدی بھی شامل تھے‘ جن کی گوشوارے جمع نہ کرانے کی وجہ سے اسمبلی رکنیت معطل تھی۔ یقینا اسمبلی میں اجنبیوں کا اس طر ح رونق افروز ہونا سپیکر اور اسمبلی کے عملے کی کو تا ہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خو رشید شاہ نے اب سپیکر ایازصا دق کو فو ن کرکے بجا طور پر کہا ہے کہ اسمبلی میں ما حو ل بہتر بنانے کے لیے وزرا کو متنا زعہ بیانات سے روکا جا ئے۔
اگلے روز خان صاحب کا رد عمل خا صا دلچسپ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں بیکا ر ہیں‘ انھیں بند کر دینا چاہیے‘ اور اسی لیے میں اسمبلی میں جا تا ہی نہیں، کرپٹ لوگوں کو اسمبلی میں لانا ہے تو اسے بند کر دیں۔ اسمبلی محض ایک عمارت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ارکان کی کار کردگی ہی اس کے وقار کی عکاس ہو تی ہے۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف، ان کے وزرا اور دوسری طرف خا ن صاحب اور ان کے ارکان اسمبلی اجلاسوں میں نہ آ ئیں اور باقی ارکان بھی صرف اپنی مراعات حا صل کر نے کے لیے ہی شر کت کریں تو اسمبلی کا کیا قصور؟ یہ ادارہ تو پا رلیمانی جمہو ریت کی طاقت کا منبع ہو تا ہے۔ شاہ محمو د قر یشی کی پیش کردہ تحریک استحقاق کا نکتہ ہی میاں نواز شر یف کی 'پاناما لیکس‘ کے حوالے سے مبینہ طور پر قومی اسمبلی میں غلط بیانی کے بارے میں تھا اور اس کا مقصد میاں صاحب کو اسمبلی میں لے کر آ نا تھا لیکن میاں نواز شریف نے بھی کچی گو لیاں نہیں کھیلیں، انھیں معلوم تھا کہ اسمبلی میں ان کی خوب درگت بنے گی۔ وہ ویسے بھی برابری کی بنا پر اپوزیشن تو کجا اپنی جما عت کے ارکان کے ساتھ بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ 'پاناما گیٹ‘ کے انکشافات کے بعد تو وہ نہ صرف اسمبلی بلکہ میڈ یا سے بھی جان چھڑاتے ہیں اور وہ اندرون اور بیرون ملک اپنے دوروں میں بھی میڈیا کا سامنا نہیںکرتے۔ غالباً وہ احتیا ط کر رہے ہیں کہ 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے مزید گوہر افشانی کرکے اپنا کیس مز ید خراب نہ کر لیں یا کو ئی صحا فی ان سے ٹیڑھا سوال نہ کر دے۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ سپر یم کو رٹ میں 'پاناما پیپرز‘ کے حوالے سے میاں نواز شریف کے خاند ان کی لندن میں پراپرٹیز کے بارے میں روزانہ کی بنیا د پر سماعت کا گہرا سا یہ ہما رے جسد سیا ست پر چھا گیا ہے۔ جو ں جوں کیس اپنے منطقی انجام کی طرف بڑ ھ رہا ہے تلخیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان اور ان کے ترجمان ہر روز سپر یم کورٹ میں پیشی کے فوری بعد عدالت کے باہر ہی یہ عندیہ دینا شروع کر دیتے ہیں کہ نواز شر یف 'آ ج گئے کہ کل گئے‘ کیو نکہ ان کا کیس، کیس ہی نہیں ہے۔ خان صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ کیس کا جو بھی فیصلہ آیا اس سے ایسی تا ریخ رقم ہو گی کہ آ ئند ہ حکمرانوں کے لئے کر پشن کرنا آسان نہیں ہو گا۔ درحقیقت تحریک انصاف کے رہنما یہ تا ثر دے رہے ہیں کہ وہ کیس جیت چکے ہیں۔ دوسر ی طرف حکمران جما عت پہلے تو وزیر مملکت برائے اطلا عات و نشر یا ت محترمہ مر یم اورنگزیب، دانیال عزیز اور طلال چو ہدری سے ہی کام چلا رہی تھی لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران ہیوی ویٹس خو اجہ محمد آصف اور خو اجہ سعد رفیق اپنے جو ہر دکھا نے میدان میں اترے ہیں۔ نواز لیگ کے یہ ارکان عمران خان اور جہانگیر تر ین کی ذات اور خاند ان کے بارے میں ایسی گفتگو کر رہے ہیں‘ گو یا یہ اقتدار کا نہیں بلکہ کو ئی ذاتی جھگڑ ا ہے۔ وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق تو گوجرانوالہ میں جو ش خطابت میں عدلیہ ہی پر برس پڑے۔ انھوں نے 'پاناما کیس‘ کی سماعت کرنے والے سپر یم کو رٹ کے بینچ کے سر برا ہ جسٹس آ صف سعید کھوسہ کے ان ریما رکس کہ 'میاں نواز شر یف کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے لیکن اس میں چند صفحے غائب ہیں‘ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کے صفحے غائب نہیں ہیں‘ اگر کسی کو پڑھنے نہیں آتے تو ہمارا کیا قصور ہے، آنکھیں کھو ل کر پڑ ھیں، تضیحک نہ کریں۔ سونے پر سہا گہ‘ مو صوف نے عدلیہ کو مزید آ ڑے ہاتھوں لیا اور براہ راست دھمکی دے دی کہ ہم لو ہے کے چنے ہیں اور ہمیں چبانے والو ں کے دانت ٹو ٹ جا ئیں گے۔ غا لباً خو اجہ سعد رفیق کو یہ احسا س ہی نہیں کہ اس قسم کا طر ز تکلم ان کے باس میاں نواز شریف کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے سر کردہ رکن انو ر بیگ نے میرے ٹی وی پروگرام میں درست طور پر کہا ہے کہ میاں نواز شر یف کے نادان دوستوں کا طر ز عمل انہیں عمران خا ن سے زیا دہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ انھوں نے اس بات سے لاعلمی کا اظہا ر کیا کہ آ یا یہ سب کچھ میاں نواز شریف کے علم میں لائے بغیر کیا جا رہا ہے لیکن یہ بات تو یقینا ان کے علم میں ہو گی کہ یہ سب کچھ محترمہ مریم صفدر کے سیل کے زیر اہتمام ہو رہا ہے جو پر ائم منسٹر ہا ؤس میں قائم ہے۔ میاں صاحب کی صاحبزادی ان کی آشیرباد کے بغیر کیسے یہ سب کچھ کر سکتی ہیں۔
اس کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، تمام فر یق اپنی اپنی بات کر چکے ہیں۔ لہٰذا گلے ہفتے تک دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی ہو جا ئے گا۔ جہاں تک کمیشن کی تشکیل کا تعلق ہے تو قانونی ما ہر ین کے مطابق اب یہ خارج از امکان ہے کیونکہ 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے تمام قانونی موشگافیاں، منی ٹر ائل اور دیگر معاملات کے بارے میں پا نچ رکنی بنیچ کو مکمل آگاہی حا صل ہو چکی ہے۔ بعض قانونی ماہر ین کا دعویٰ ہے کہ عدالتوں نے کبھی میاں نواز شر یف کے خلا ف فیصلے نہیں دیے بلکہ ہر دفعہ وہ صاف بچ جا تے رہے ہیں۔ اس مر تبہ شاید معاملات ذرا مختلف ہوں لیکن میاں صاحب کی سا کھ کو اخلا قی طور پر ناقا بل تلا فی نقصان پہنچ چکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں