"ANC" (space) message & send to 7575

بال عدالت عظمیٰ کے کورٹ میں!

'پاناما کیس‘ ڈرامہ ویسے تو گزشتہ دس ماہ سے چل رہا ہے لیکن جب سے سپریم کورٹ نے اس معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کی ہے، عدالت عظمیٰ کی پر شکوہ عمارت کے باہر اور شام کو میڈیا چینلز پر جو رونق لگی رہتی تھی وہ بنچ کے ایک رکن جسٹس عظمت سعید کی اچانک علالت کی وجہ سے و قتی طور پرماند پڑ گئی ہے۔ جسٹس عظمت سعید کو یکم فروری کو دل کی تکلیف کے باعث پنجاب کارڈیک انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے علاج کے بعد وہ گھر پر آرام کر رہے ہیں۔ اب یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ بدھ کے روز سے' پاناما کیس‘ کی دوبارہ سماعت شروع ہو جائے گی۔ یہ سن کر اینکروں، تجزیہ کاروں اور میڈیا چینلزکی جان میں جان آئی ہے کیونکہ وہ 'پاناما کیس‘کی وجہ سے ہونے والے ہلے گلے کے عادی سے ہوگئے تھے۔ اگرچہ چینلز کے معیار کے بارے میں اکثر شکایات رہتی ہیں لیکن ناظرین کو بھی چٹ پٹے تجزیوں اور سیاستدانوں کی طرف سے ایک دوسرے کو دی جانے والی بے نقط گالیاں سننے کا چسکا سا پڑگیا ہے۔ ریٹنگ کے شوقین چینلز بھی عوام کو وہی مواد فراہم کرتے ہیں جس سے ہر روز شام سات بجے سے رات گئے تک ان کو تفنن طبع کا سامان ملتا رہے۔ اس دوڑ میں بعض تجزیہ کار حقائق کو بھی نظر اندازکر دیتے ہیں۔ ایک روز پروگرام میں چھوڑی گئی درفنطنی کے قطعاً برعکس اگلے روز نئی درفنطنی چھوڑ دی جاتی ہے، لیکن اکثر مائی کے لعل اس تضاد بیانی کو چھوڑنے کے بجائے اس کا مائنڈ بھی نہیں کرتے۔ پرنٹ میڈیا میں توصحافی اس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ ان کی خبر کی تردید نہ ہو اور اگر تردید ہو جائے تو ایڈیٹر ان کی جواب طلبی کرتا ہے لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس پس منظر میں جب ایک طرف خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف کی معیت میں وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب، طلال چوہدری اور دانیال عزیز سپریم کورٹ کی پیشی کے فوری بعد عمران خان اور ان کے حواریوں کو کھلے عام رگیدتے ہیں تو دوسری طرف جواب آں غزل کے طور پر عمران خان خود اور ان کے ترجمان نعیم الحق اور فواد چوہدری بھی نواز شریف فیملی کو خوب رگڑا لگاتے ہیں اور لیگی رہنماؤں کے الزامات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ اس سارے عمل میںاکثر اوقات حقائق کو بھی مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ میں نے مسلم لیگ(ن) کے ایک رہنما سے پوچھا کہ آپ کی پارٹی کے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں تو انھوں نے کہاکہ ہم تحریک انصاف کو دفاع پر لے کر جانا چاہتے ہیں۔
حال ہی میں جہانگیر ترین کی پٹیشن پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناعی خارج کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں شریف خاندان کی تین شوگر ملوں میں کر شنگ بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت کی ہے وہ اس کیس کو خود سن کر فیصلہ دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کر نے والے سپریم کورٹ کے بنچ نے بعض بڑے سخت ریمارکس بھی دیے ہیں۔ واضح رہے کہ 2006ء میں ایک قانون کے تحت شوگر ملوں کی منتقلی پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن ضلع رحیم یار خان میں گنے کی مٹھاس زیادہ ہونے کی بنا پر پیداوار وافر ہوتی ہے۔ لہٰذا شریف فیملی مبینہ طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں ملیں منتقل کر رہی تھیں اور اس ضمن میں پنجاب حکومت نے 2015ء میں قانون میں ترمیم کر کے انھیں ایسا کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰکا اس علاقے میں شوگر ملوں کو منتقلی کی اجازت دینا بظاہر حکمران خاندان کو نوازنے کے لیے لگتا ہے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال کے یہ ریمارکس کہ ہم کیس میں مفادات کے ٹکراؤ کو ضرور مد نظر رکھیں گے کہ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو ایسی پالیسی بناتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کے خاندان کو فائدہ پہنچاتی ہے، میاں شہباز شریف کے لیے کوئی اچھا سرٹیفیکیٹ نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے یہ تاثر تو غلط ثابت ہوگیا ہے جو جسٹس ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کے وقت بعض ناعاقبت اندیشوں نے پھیلایا تھاکہ وہ حکمرانوں کی جیب میں ہیں کیونکہ جسٹس ثاقب نثار معروف وکیل خالد انور کے سا تھ کام کرتے تھے جو میاں نواز شریف کے کاروباری معاملات میں وکیل بھی رہے ہیں۔ ایسی دور کی کوڑیاں لانے والے شاید بھول گئے تھے کہ جسٹس ثاقب نثار سنیارٹی کے اصول اور میرٹ پر چیف جسٹس بنے ہیں،حکمرانوں کی مہربانی سے نہیں۔ لہٰذا وہ کیونکر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قائم کردہ اعلیٰ روایات کو توڑیںگے۔
'پانامالیکس‘ کی سماعت اسی ماہ مکمل ہو سکتی ہے، لہٰذا اگلے ماہ تک وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ عدالت کے سامنے یقیناً یہ سوال ہیںکہ نواز شریف فیملی کے لندن میں فلیٹس کی 'منی ٹریل‘ کیا ہے،کیا شر یف فیملی نے منی لانڈرنگ تو نہیں کی اور عدالت کے سامنے جھوٹ تو نہیںبولا؟ لیگی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ میاں نواز شریف کا کیس تو بڑا سادہ ہے کہ ان کا تو 'پاناما لیکس‘ میں نام ہی نہیں ہے۔ مزید برآں متحدہ عرب امارات میں لگائی گئی جس گلف سٹیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے یہ فلیٹس خریدے گئے ہیں، اس مل کے مالکان میں بھی میاں نواز شریف کا کہیں نام نہیں آتا۔ یہ مل 1974ء میں شریف برادران کے کزن میاں طارق شفیع نے لگائی تھی اور بعد ازاں اسے چلاتے بھی رہے، وہ اس امر کے گواہ ہیں اور کسی مرحلے پر عدالت عظمیٰ انھیں طلب بھی کر سکتی ہے۔ لیگی حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عمران خان کے وکلا کہیں یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ میاں نواز شریف نے منی لانڈرنگ کی ہے۔ جہاں تک ان کے بچوں کا تعلق ہے تو وہ بالغ ہیںاور میاں نوازشریف کو ان کے کاروباری معاملات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس تناظر میں شاید تکنیکی طور پر میاں نواز شریف بچ جائیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخلا قی طور پر ایسا سیاستدان جو تیسری بار وزیر اعظم بنا ہے کیا ان کی اولاد کے معاملات بھی صاف شفاف نہیں ہونے چاہئیں؟ بہر حال اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ لیکن اس امکان کو بھی کیسے رد کیا جا سکتا ہے کہ عدلیہ نواز شریف کو گھر بھیج دے گی۔ رانا ثناء اللہ کا انوکھا استدلال ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ غیرجمہوری ہوگا کیونکہ میاں نواز شریف منتخب اور مقبول لیڈر ہیں۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو محض سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے گھر بھیج دیا تھا۔ لہٰذا ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناتے حکمران مسلم لیگ (ن) کو ہر قسم کی صورتحال کا مقابلہ کر نے کے لیے پیشگی منصو بہ بند ی کر لینی چاہیے۔
نواز شریف کی عدم موجودگی میں کون وزیر اعظم ہوگا، اس بات کا فیصلہ شاید حکمران فیملی نے آپس میںکر لیا ہو لیکن جماعتی سطح پر اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کے بعد اگلے عام انتخابات تک جو ایک سال سے زیا دہ دور نہیں ہیں، فوری طور پر تو کسی رکن قومی اسمبلی کو وزیر اعظم بنانا ہوگا۔ قرعہ فال میاں شہبازشریف کے نام نکل سکتا ہے۔ بعض حلقوں میں مریم نواز شریف کا نام بھی بطور جانشین وزیر اعظم لیا جا رہا ہے لیکن انتہائی ذہین، زیرک اور ملنسار ہونے کے باوجود وہ ابھی رموز سیاست میںنوآموز ہیں۔ 'پاناماگیٹ ‘ کی زد میں بھی آسکتی ہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو میاں شہباز شریف ہوں یا وہ، دونوںکو ہی قومی اسمبلی میں پہنچنے کے لیے پہلے ضمنی الیکشن لڑنا پڑے گا۔ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے موزوں ترین امیدوار ہیں لیکن پنجاب میں ان جیسی فعال اور محنتی قیادت کا ممکنہ خلا کون پر کر ے گا؟ ایک لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ بہتر ہوگا میاںنواز شریف برادر خورد میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم اور ہونہار صاحبزادی مریم نوازکو مزید تربیت کے لیے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنا لیں۔ لیکن بال تو عدالت عظمی کے کو رٹ میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں