''پاکستان جیت گیا ،فسا دیوں کو شکست ‘‘۔۔۔۔ یہ شہ سرخی موقرقومی اخبارنے لا ہو ر میں پی ایس ایل فا ئنل کے پرامن اور بھرپو ر انعقاد جس میں پشاور زلمی کی جیت ہوئی، پرلگا ئی ہے ۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنے تہنیتی بیان میں بہادر قوم کو سلام کہنے کے سا تھ سا تھ دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دے دی ہے ۔یقینا جا دو وہ جو سر چڑ ھ کر بولے ، لا ہو ر شہر میں ایسے بھرپور ایونٹ کے انعقاد پر حکومت پنجاب، سکیو رٹی ادارے اور خود پاکستان سپر لیگ کے مدارالمہام نجم سیٹھی بجا طور پر کر یڈٹ کے مستحق ہیں۔ اس بات پر ایک دوسر ے کو مبا رکبا د یں دینا کہ ہم نے دشمن کے دانت کٹھے کر دیے ہیں ذرا سی مبا لغہ آرائی ہوگی۔ واقعتاً اگر لا ہو ر میں ایک کر کٹ میچ کے انعقا د سے دہشت گرد ی کا خاتمہ ہو سکتا تو یہ میچ ہمیں بہت پہلے کروا لینا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے' ابھی عشق کے امتحا ں اور بھی ہیں‘!
پی ایس ایل کے فا ئنل کے اگلے روز ہی دہشت گردوں نے مہمند ایجنسی میں شب خو ن مارا جس میں پانچ فو جی شہید ہو گئے جس پرہماری حکومت نے افغانستان کے نائب سفیر کو طلب کر کے احتجا ج بھی کیا ہے ۔یقینا لا ہو ر میں پی ایس ایل کے حوالے سے ہلہ گلہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جز و تھا اور غا لباً اسی لیے وزیر اعظم نواز شر یف نے برادر خورد کو ویٹو کرتے ہو ئے کہا کہ خطرات کے با وجود اس میچ کا انعقا د کیا جا ئے ۔ یوں کئی بر س کے بعد اہلیان لاہور کو ہوم گراؤنڈ پر کرکٹ انجو ائے کر نے کا موقع بھی ملا ۔ میاں شہباز شریف ویسے تو بڑ ے فعال وزیر اعلیٰ ہیں لیکن وہ اہلیان لا ہور کی چھو ٹی چھوٹی خو شیوں کی کم ہی پروا کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر بہ ر کی آ مد پر بسنت کا تہوار بین الاقوامی سطح پر ہر سال لا ہور میں منعقد ہو تا تھا، لیکن چوہدری برادران اور شریف برادران جو نظر یا تی طور پر ہم خیال ہیں، نے اس پر پا بندی لگارکھی ہے ۔ اس سال شنید تھی کہ بسنت منائی جائے گی لیکن وزیر اعلیٰ نے آخری وقت پر ویٹو کر دیا۔ یہ تہوار جس کا کسی مذ ہب سے کو ئی تعلق نہیں، بین الاقوامی توجہ کا مر کز بن چکا تھا اور اسے منانے کیلئے دنیا بھر سے لوگ پاکستان آ تے تھے جس سے اقتصادی طور پر بھی لا ہوریوں کو فائدہ پہنچتا تھا اور ملک کاایک سا فٹ امیج بھی اجا گر ہوتا تھا۔ اگر بسنت کے لیے بھی خصوصی انتظامی اقدامات کیے جا تے تو یہ تہوار بھی منا یا جا سکتا تھا ۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ ہیٹی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ہوئی۔ ان کی طرف سے لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل کی مخالفت سیاسی طور پر اور بطور کرکٹ کے ہیرو انتہائی غلط فیصلہ تھا جبکہ میچ کا انعقاد بخیرو خوبی ہو گیا اور ٹیم بھی پشاور کی جیتی۔عمران خان کی سٹیڈیم سے غیر حاضری کو شائقین نے شدت سے محسوس کیا جبکہ سابق کپتان وسیم اکرم اور وقار یونس دونوں کے نام سے سٹیڈیم میں انکلوژر بھی منسوب ہیں اور وہ وہاں بنفس نفیس موجود نہیں تھے۔خان صاحب نے 28 فروری کو ٹویٹ کیا تھا کہ مجھ سے زیادہ کون یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہو لیکن لاہور میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل کرانا انتہائی خطرناک ہے اور اسے کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔خان صاحب کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہو گیا تو پاکستان میں اگلے دس برس تک انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو پائیگی۔اس کے مقابلے میں شیخ رشید جن کا شمار میاں نواز شریف کے بد ترین مخالفین میں کیا جاتا ہے نے عام انکلوژر کا ٹکٹ خرید کر میچ انجوائے کیا۔رانا ثنا اللہ بجائے ان کا شکریہ ادا کرنے کے پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔عجیب ماجرا ہے کہ خان صاحب جیسی شخصیت جن کا اوڑھنا بچھونا سب کچھ کرکٹ ہے، ایک مرتبہ پھر کرکٹ کے حوالے سے عوامی جوش و جذبہ سمجھنے سے قاصر رہے۔ایسا لگتا ہے کہ بنی گالہ کی ٹھنڈی فضاؤں میں رہتے ہوئے ان کی بعض حسیں ماؤف ہو گئی ہیں۔ان کے برعکس غیر ملکی کوچ ڈین جونزنے لاہور پہنچتے ہی یہ ٹویٹ کیا کہ یہاں پر سکیورٹی کے انتظامات مثالی ہیںاور یقیناً لاہور میں اچھا وقت گزرے گا۔ایک اور شہری نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان آرمی،پولیس،پنجاب حکومت اور پرجوش عوام متحد ہیں سوائے 'پھوپھو‘ عمران خان کے۔ بعد از خرابی بسیار عمران خان کو غالباً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انہوں نے میچ کے انعقاد پر یہ ٹویٹ کیا کہ میں دونوں ٹیموں کیلئے گڈ لک اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوںاور عوام کی بھرپور شرکت کو سراہتا ہوں،اللہ سب کو محفوظ رکھے۔بعد ازاں انہوں نے پشاور زلمی کو مبارکباد بھی دی۔خان صاحب نے گزشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے انوکھی منطق پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقہ سے پکڑ کر لائے ہوئے لوگ غیر ملکی نہیں قرار دئیے جا سکتے،پھٹیچر لوگ تو ویسے ہی آ جاتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک غیر ملکی صرف گورا ہی ہوتا ہے۔ لگتا ہے خان صاحب نے غلط وقت پر صحیح اور صحیح وقت پر غلط بات کرنا وتیرہ ہی بنا لیا ہے۔
سٹیڈیم میں کچھ لوگوں نے ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔اگرچہ مخالفانہ نعرے بازی بھی جمہوریت کا حسن ہے اور اس پر میاں نواز شریف کے حامیوں کو مشتعل نہیں ہونا چاہیے، لیکن ان نعرے بازوں کی آواز شائقین کے مجموعی جوش و خروش میں دب کر رہ گئی۔اگر پورا سٹیڈیم ''گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھتا تو سیاسی طور پر یہ میاں نواز شریف کیخلاف ریفرنڈم کہلاتا۔جن لوگوں نے تحریک انصاف کے حامیوں کو ایسے نعرے لگوانے کا مشورہ دیا تھا انہوں نے کچھ اچھا نہیں کیا۔پی ٹی آئی کو یہ بنیادی حقیقت کیوں سمجھ نہیں آتی کہ محض نعروں کی بنا پر اگلے انتخابات میں لاہور جو مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے کو لوٹا نہیں جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر بعض دلچسپ تبصرے چلتے رہے ، نمونے کے طور پر:
22 کھلاڑی۔۔۔۔۔ 4 امپائر۔۔۔۔۔ 20 کیمرہ مین۔۔۔۔۔ 10کمنٹری ایکسپرٹ۔۔۔۔۔ 300 میڈیا کے نمائندے۔۔۔۔۔ 200 میٹل واک تھرو گیٹ۔۔۔۔۔ 16ایکسرے مشین۔۔۔۔۔ 800 بم ڈسپوزل سکواڈ ممبر۔۔۔۔۔ 1000سراغ رساں کتے مع نگران۔۔۔۔۔ 2000 نمبر ون فوج۔۔۔۔۔ 40000 پنجاب پولیس۔۔۔۔۔ پروٹوکول اہلکار برائے وزیر اعظم پاکستان
ہاکی گراؤنڈ عارضی ہسپتال میں تبدیل... چار نادرا کی گاڑیاں بائیو میٹرک چیک کیلئے۔۔۔۔۔ ثابت کرنے کیلئے کہ پاکستان کرکٹ کیلئے محفوظ ملک ہے۔