ہمارے الیکٹر انک میڈ یا کا7 24/سا ئیکل بھی خوب ہے ۔ کسی ایک مسئلے کوا تنا اچھا لا جا تا ہے کہ پو رے ملک میں ہاہا کا ر مچ جا تی ہے ۔وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلا ف سپر یم کورٹ میں' پاناما گیٹ‘ کے فیصلے کو محفو ظ کیے قر یبا ً چار ہفتے ہو نے کو ہیں ۔ ریٹنگ کار سیا میڈ یا کچھ بور سا ہو گیا تھا لیکن بیچ میں پی ایس ایل کے لاہو ر میں فا ئنل اور عمران خان کی طرف سے غیرملکی کھلا ڑ یوں کو پھٹیچرکہنے پر جو تنا زع کھڑا ہوااس سے ان کا کچھ نہ کچھ دال دلیہ چلتا رہا ۔اسی دوران واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اور آ صف علی زرداری اور نواز شر یف کے سابق دست راست حسین حقا نی کے' واشنگٹن پوسٹ ‘میں شائع ہو نے والے ایک مضمون نے ہمارے تجزیہ کا روںکو ٹمپر یچربڑ ھانے کے لیے وافر مواد فر اہم کر دیا ۔ اس حوالے سے حسین حقا نی کو جا ئز یانا جا ئز طور پر خوب رگیدا گیا اور ارکان اسمبلی جن میں پیپلز پا رٹی کے ممبرز بھی شامل تھے انھوں نے حقانی کو غدار قرارد ینا شر وع کر دیا حالانکہ ان کے لیڈر نے ہی حقا نی کو واشنگٹن میں سفیرتعینا ت کیا تھا۔ ان کامطالبہ تھا کہ ایک پا رلیمانی کمیشن قا ئم کر کے ان کا ٹرائل کیا جا ئے ۔میں اپنے کسی پہلے کالم میں تذکر ہ کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں توغدار قرار دینے کی فیکٹر یاں دن رات کام کر تی ہیں۔ میں نے حسین حقا نی کامضمون نہ صرف بغور پڑ ھا بلکہ شائع بھی کیا ۔ امر یکی صدر کے قومی سلا متی کے مشیر مائک فلن کو اس بنا پر مستعفی ہو ناپڑا کہ ٹر مپ کے اقتدار سنبھا لنے سے پہلے ہی ان کے واشنگٹن میں متعین روسی سفیر سے رابطے تھے جنہیں انھوں نے خفیہ رکھا ۔اس حوالے سے حقا نی کا کہنا ہے کہ بطور سفیر ہر قسم کے لوگوں اور لا بیوں سے رابطہ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور انھوں نے بھی اوباما انتظامیہ کے اقتدار سنبھا لنے سے پہلے ہی ان سے اپناتعلق جو ڑ لیا تھا، ان کے ری پبلکن پا رٹی کے لو گوں سے رابطوں کے علا وہ سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ اور سی آئی اے کے لیے کام کرنے والے افسران سے بھی تعلقا ت تھے۔ بقول ان کے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے تھو ک کے حساب سے امر یکی اہلکا روں کو ویزے جا ری کیے جن میں سے بعض کے نام بھی جعلی نکلے ۔اسی پالیسی کی وجہ سے اسامہ بن لا دن کا کھو ج لگانے اور بالا ٓخر 2مئی2011 کو امر یکی نیو ی سیلرز کے ہاتھوں ان کی ہلاکت ممکن ہو ئی ۔گو یاکہ اسامہ بن لا دن کا کھو ج لگانے کاکچھ نہ کچھ کر یڈٹ حقا نی لے رہے ہیں ۔
حسین حقا نی اب واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک کے رکن ہیں ۔ایک ٹیلی ویژن اینکر کا کہناہے کہ حسین حقانی کا تازہ مضمون دراصل ٹر مپ انتظامیہ میں نئی ملازمت کے لیے درخواست ہے ۔دوبر س قبل جب میں چند روز کے لیے واشنگٹن میں تھا توحسین حقانی نے اپنی اقامت گا ہ پر میرے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا، اس میں اس وقت سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ کی کنسلٹنٹ رابن رافیل جن پر بعدازاں سی آ ئی اے اور سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ کی طرف سے یہ الزام بھی لگا کہ وہ پاکستانی حکومت کے لیے جاسوسی کرتی ہیں، اور پاکستان میں امر یکہ کی سابق سفیر وینڈی چیمبر لین بھی موجو د تھیں ۔اس دعوت میں کسی پاکستا نی کے مدعو نہ ہو نے پر میں نے میزبان سے استفسا ر کیا کہ ایسا کیو ں ہے تو انھوںازراہ تفنن کہا کہ یہاں نہ میں کسی پاکستانی سفاتکا ر کو گھاس ڈالتا ہوں اور نہ وہ مجھے ۔گو یا کہ حسین حقا نی اب مستقل طور پر امر یکہ کے ہی ہو کر رہ گئے ہیں اور ظا ہر ہے کہ وہ وہاں پر امر یکی لا بیوں کے ساتھ انٹر ایکٹ کرتے ہیں ۔ ویسے حقانی بھی خوب شخصیت ہیں۔وہ زما نہ طالب علمی میں کرا چی کی طلبا سیاست میں اسلامی جمعیت طلبا کے ساتھ وابستہ تھے ۔ میری ان سے پہلی ملاقا ت 1980کے آس پاس ہا نگ کانگ میں ہو ئی تھی ۔ وہاں میں جنر ل ضیا ء الحق کے ہمرا ہ دورہ جاپان سے واپسی پرسٹا پ اوور کے لیے رکا۔اس دورے میں اردو ڈا ئجسٹ کے مد یر الطاف حسن قر یشی بھی ساتھ تھے ۔حسین حقانی ایک نیو ز میگز ین ' فار ایسٹرن اکنامک ریو یو‘ کے ہانگ کانگ میں مقیم نما ئند ے تھے۔وہ قر یشی صاحب سے ملا قا ت کر نے آ ئے تو میرا ان سے با ضا بطہ تعا رف ہوا ۔بعد ازاں وہ پاکستان آ گئے اور اپناناتا میاں نواز شر یف کے ساتھ جو ڑ لیا اور خاصے عر صے تک ان کے ساتھ رہے ۔اس زمانے میں انھوں نے محتر مہ بے نظیر بھٹو کے خلاف منفی پراپیگنڈا کر نے میں میاں نوازشر یف کی خوب مد د کی جس کے انعا م کے طور پر انھیں سری لنکا میں سفیر لگا دیا گیا ۔ بعدازاں جب میاں نواز شر یف کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولنے لگا تو وہ میاں صاحب کو چھو ڑ کر کچھ دیر سابق صدر پرویز مشر ف کی زلف کے اسیررہنے کے بعد پیپلز پارٹی سے جڑ گئے ۔ اس سارے عر صہ میں حقانی میںواضح نظر یا تی تبد یلی آئی اور وہ جما عت اسلامی کے بجا ئے لبر ل خیا لا ت کے علمبردار بن گئے ۔بلا کی ذہین شخصیت تحر یر وتقر یر کے فن کے ماہر ہیں ۔ان کی تازہ کتاب کا عنوان بھی ' انڈ یا ورسز پاکستان ‘'ہم دوست بن کرکیوں نہیں رہ سکتے‘ ہے۔ جس میں پاکستان اور بھارت کی دوستی پر زور دیا ہے۔ اس سے قبل امر یکہ اور پا کستان کے تعلقا ت کے حوالے سے بھی انھوں نے ایک کتاب' Magnificent Delusions ‘لکھی تھی ۔
حسین حقا نی نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمون کے ذریعے پاکستان کے کچھ زخم ہر ے کر دیئے ہیں۔آ ج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ دنیا کو انتہا ئی مطلوب اسامہ بن لا دن 8بر س تک کاکول اکیڈ می سے چند فر لانگ کے فا صلے پر کیسے چھپا بیٹھارہا اور ہما رے انٹیلی جنس اداروں کو اس بات کی کانو ں کان خبر تک نہیں تھی ۔نیز یہ کہ 2مئی2011کو اسا مہ بن لا دن کو ہلاک کر نے کا آپر یشن ہما رے انٹیلی جنس اداروں ،عسکر ی حکام اور حکومت کی آشیر باد سے ہو ا یا واقعی ہم اس آپر یشن سے بے خبر تھے ۔ اگر بے خبر تھے تو یہ سراسر نا اہلی تھی اور اگر ہمیں علم تھاتو قوم سے اب تک حقا ئق کیوںچھپا ئے جا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے سپر یم کو رٹ کے جسٹس جا وید اقبال کی سر بر اہی میںکمیشن بھی تشکیل دیا گیا،اس کمیشن کی رپو رٹ بھی پاکستان میں بننے والے دوسر ے کمیشنزکی رپو رٹس کی طر ح طاق نسیان میں کیو ں پڑی ہے ،اسے سامنے کیوں نہیں لایا جا تا ۔ایبٹ آبا د کمیشن رپورٹ کے ایک لیک شدہ حصے کے مطابق اس وقت کی آ ئی ایس آ ئی پر وفیشنل سے زیا دہ سیا سی بن چکی تھی ۔ اصولی طور پر تو سابق آ رمی چیف جنر ل اشفاق پرویز کیا نی اورآ ئی ایس آ ئی کے سابق سر بر اہ لیفٹیننٹ جنر ل شجا ع پاشا جو اسلام آباد میں موجو د ہیں،ان سے پو چھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کے دور میں ہوا اس وقت کے واقعا ت کی حقیقت کیا ہے؟ ۔جیساکہ ہمارا قومی وتیر ہ بن چکا ہے کہ عوام سے اصل حقائق چھپا ئے جا ئیں،اس حقیقت کا بخوبی علم ہونے کے باوجو د کہ حسین حقانی کسی صورت پاکستان واپس نہیں آ ئیں گے،انھیں تختہ مشق بنا کر اس مسئلے کو دبایا جا رہا ہے۔پہلے ایبٹ آ با د کمشن کی رپو رٹ شائع کی جا ئے پھر دیکھا جا ئے گا۔
دوسر ی طرف قوم کو 'پاناما گیٹ ‘کے فیصلے کا بھی انتظار ہے جو منظر عام پر آنے ہی والا ہے ۔بعض قانونی ماہر ین کا کہنا ہے سپر یم کو رٹ کی طرف سے کمیشن بنا ئے جانے کاامکان ہے، تا ہم فیصلے میں تا خیر اس امکان کی طرف بھی اشارہ کر تی ہے کہ نواز شر یف کے مستقبل کے حوالے سے بینچ کے ارکان متفق نہیں ہیں۔ واقعی عدلیہ کے لیے یہ کڑا امتحا ن ہے ۔ ما ضی میں عدلیہ کے بعض فیصلے متنا زعہ رہے ہیںاور ان پر تنقید بھی کی جا تی رہی ہے ۔ شاید اسی بنا پرفا ضل جج صاحبان زیا دہ وقت لے رہے ہیں ۔ملک کی تمام سیا ست اس فیصلے کی قانونی موشگا فیوں کے گرد گھو م رہی ہے ۔حتیٰ کہ عمران خان نے جو چین کے دورے پر جانے والے تھے اپنا دورہ منسو خ کر دیا ہے ۔ میاں نواز شر یف کے حواریوں اور بعض قانونی ما ہر ین کے مطا بق عدالت عظمیٰ میاں نواز شر یف کو نا اہل قرار نہیں دے گی جبکہ تحر یک انصاف کے وکلا کا کہنا ہے کہ میاں صاحب بچ نہیں سکتے ۔دیکھئے اونٹ کس کر وٹ بیٹھتا ہے ۔