وطنِ عزیز کو ربِ کریم نے بے پناہ معدنی، قدرتی اور انسانی وسائل سے نواز رکھا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن سے مالامال دلآویز مناظر ہوں یا آسمان کو چھوتی ہوئی پہاڑی چوٹیاں، برف کی چادر اوڑھے ہوئے پہاڑ ہوں یا دل موہ لینے والے جھرنوں اور آبشاروں کی سرسراہٹ، میدانی علاقوں کے سرسبز و شاداب کھیت کھلیانوں سے مہکتے ہوئی سرزمین ہو یا اپنی پھلتی پھولتی فصلوں کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوتے محنت کش کسان، نہری نظام کے وسیع و عریض سلسلے اور ان کے نتیجے میں سیراب ہونے والے لاکھوں ایکڑ پر مبنی ہمارا شعبۂ زراعت ہو یا کپڑے کی صنعت، چمڑے، آلاتِ جراحی اور کھیل کود سے منسلک دیگر صنعتوں کے اَن گنت مراکز، روہی تھل کی ریتلے ٹیلے ہوں یا جنوب میں پھیلے رومانوی داستانوں کو جنم دینے والے صحرا، ہمارا ملک دنیا کی ہر نعمت سے نہ صرف مالامال ہے بلکہ یہ پیارا وطن اس جہاں میں ہم سب کیلئے اللہ تعالیٰ کے خاص انعام سے کم نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ان تمام تر انعاماتِ خداوندی اور بے شمار وسائل کی موجودگی کے باوجود پاکستانی معیشت کی کشتی ہمیشہ اندرونی و بیرونی قرضوں کے جان لیوا منجدھار میں گھری رہتی ہے اور بے یقینی اور عدم استحکام کی تلاطم خیز موجیں اسے ہر دم اپنے خوفناک حصار میں جکڑے رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس اقوامِ عالم میں کئی ممالک کم قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نظر آتے ہیں۔
اس پریشان کن صورتِ حال کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں کمی یا آسان الفاظ میں قومی آمدن کا محدود ہونا اور اس میں خاطر خواہ اضافے کا فقدان ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 44 سے 45فیصد ہے اور گزشتہ چند سالوں میں فرانس اور ڈنمارک اوّل پوزیشن کے حصول میں ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتے ہیں۔ برطانیہ میں ٹیکس بالحاظ ملکی مجموعی پیداوار 33فیصد ہے جبکہ افریقہ جیسے براعظم میں بھی یہ شرح 25فیصد سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھی اس لحاظ سے ہم سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے اگلی صف میں نیپال موجود ہے جہاں یہ شرح 19.4فیصد ہے، اس کے بعد بھوٹان ہے جو16فیصد سے زائد شرح کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بھارت اور سری لنکا میں یہ شرح12 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہم 10.5فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں اور ہمارے بعد صرف بنگلہ دیش اور افغانستان ہیں جہاں یہ شرح 9فیصد ہے۔ یہ بحیثیت قوم ہمارے لیے انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے کیونکہ اس شرح کے ساتھ ہم اپنی معیشت کو خود انحصاری، خودمختاری اور خوشحالی کی طرف جاتا نہیں دیکھ سکتے۔
یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہم بحیثیت قوم بے یقینی اور اضطراب کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ قرضوں کا بوجھ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، مہنگائی میں ہوشربااضافے نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے،غریب ہر نئے دن کے ساتھ مزید غریب ہوتا جا رہا ہے اور لاکھوں افراد ہر سال خطِ غربت سے نیچے گر کربے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے بے گھروں کیلئے پناہ گاہیں اور بھوک و افلاس کے مارے ہوئے بد نصیب افراد کیلئے لنگر خانے تو کھول دیے مگر اس اندوہناک کہانی کے پیچھے کارفرما عناصر اور اسباب کا کھوج لگانا بھی نہایت ضروری ہے کہ آخر ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا وبا کے باوجود ملک میں کاروں، موٹر سائیکلوں اور ٹریکٹروں کی خرید و فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا‘ تعمیراتی شعبے کو ملنے والے مراعاتی پیکیج اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے سبب ملک میں سیمنٹ، سٹیل اور اس شعبے سے وابستہ لگ بھگ تین درجن صنعتوں میں تیزی دیکھنے کو ملی مگر عام آدمی کے حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ یہاں پر تھوڑی دیر رک کر سوچیں تو اس گتھی کو سلجھانا آسان ہو جاتا ہے۔ ملک میں موجود اشرافیہ ملکی وسائل اور ٹیکس کے نظام کو یرغمال بنا کر اپنے مال و دولت اور آمدن کے مقابلے میں یا تو سرے سے ٹیکس ادا نہیں کرتی یا پھر اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق بہت کم ٹیکس دیتی ہے ۔ دولت کی اس غیر مساوی تقسیم اور وسائل پر محض چند فیصد مخصوص طبقے کی اجارہ داری کے خاتمے اور پاکستان کو قرضوں کے پہاڑ کے نیچے سے نکالنے کا واحد راستہ ملک میں رائج ٹیکس نظام کو شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدار بنانا ہے۔ ہر شخص اپنی آمدن، وسائل اور اثاثہ جات کے تناسب سے قومی خزانے میں حصہ ڈال کر اپنی قومی ذمہ داری سے عہد برآ ہو کر اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ قومی محصولات سے جمع ہونے والی رقم نچلے طبقے پر خرچ کر کے اور بنیادی سہولتیں فراہم کر کے اسے اوپر اٹھایا جا سکتا ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے ہمارے ملک میں محض تیس لاکھ افراد اپنا سالانہ انکم ٹیکس کا گوشوارہ جمع کراتے ہیں۔ اس میں گیارہ لاکھ ایسے فائلرز ہیں جو اپنی آمدن قابلِ ٹیکس نہ دکھا کر ٹیکس ادا نہیں کرتے، 9 لاکھ وہ ہیں جو 5ہزار یا اس سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور باقی ماندہ 10 لاکھ افراد میں بیشتر تنخواہ دار ہیں جن کا ٹیکس،ادائیگی کے وقت ہی کاٹ لیا جاتا ہے لہٰذا رضا کارانہ طور پر اپنی آمدن اور وسائل کے مطابق پورااور بروقت ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ریٹیل سیکٹر کا کاروباری حجم اٹھارہ ٹریلین ہے مگر اس میں صرف تین ٹریلین کے لگ بھگ ٹیکس نیٹ میں ہے اور اس کی بڑی وجہ ہماری معیشت کا غیر رسمی اندازِ کاروبار اور کیش کا لین دین ہے۔ یہ صورتِ حال مزید برداشت نہیں کی جاسکتی۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ اب ملکی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ ٹیکس کی وصولی اور اس کیلئے ایک شفاف نظام کا قیام لازم و ملزوم ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 4 ٹریلین کا نفسیاتی ہدف نہ صرف عبور کیا بلکہ کورونا وبا کی موجودگی اور اس کے خوفناک اثرات کے باوجود 4732 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اسی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ‘ جولائی اور اگست میں ہد ف سے زائد ٹیکس جمع کیا گیا اور 850ارب سے زیادہ رقم وصول کر کے اس مالی سال کے خطیر ریونیو ٹارگٹ 5829ارب کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں اضافے کیلئے اور ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد شامل کرنے کیلئے ایک مربوط، مضبوط اور شفاف حکمتِ عملی ترتیب دی گئی ہے جس کا کلیدی نکتہ ٹیکنالوجی کے استعمال کی مدد سے قابلِ بھروسہ معلومات کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے اس ملک کے وسائل اور حکومتی سہولتوں سے تو مستفید ہوتے رہے ہیں مگر انہوں نے یا تو سرے سے ٹیکس ادا نہیں کیا یا پھر اپنی آمدن اور کاروباری حجم کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ ایسے ٹیکس نا دہندگان کو ٹھوس شواہد کی بنا پر پکڑنا اور اُن سے ٹیکس وصول کرنا ایف بی آر کی نئی حکمتِ عملی کا بنیادی ستون ہے۔ اس حکمتِ عملی کو کامیابی سے آگے بڑھانے کیلئے چند روز قبل ضروری قانون سازی مکمل کر لی گئی اور اب نان فائلرز کو مزید چھوٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب قابلِ ٹیکس آمدن رکھنے والے افراد کو مقررہ تاریخ سے پہلے ٹیکس جمع کرانے کی تنبیہ کی جا رہی ہے بصورتِ دیگر انہیں ہزار روپے یومیہ جرمانے کے علاوہ دوسال تک قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔ مزید برآں اُن کے بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹ دیے جائیں گے، حتیٰ کہ فون سم بھی بند کر دی جائے گی۔ ریٹیل سیکٹر کے حقیقی کاروباری حجم کو دستاویزی صورت دینے اور سیل پوائنٹ پر خریداروں سے وصول ہونے والے ٹیکس کی چوری روکنے اور اسے قومی خزانے تک محفوظ انداز میں پہنچانے کیلئے پوائنٹ آف سیل کا ایک خود کار نظام لاگو کیا جا چکا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ مندرجہ بالا اقدامات کسی سزا کے پیرائے میں نہیں ہیں بلکہ ٹیکس کے نظام کو مضبوط بنانے، قومی خوشحالی اور ہر کسی کو اس کے حصے کا صحیح اور جائز ٹیکس ادا کرنے کیلئے کیے جا رہے ہیں۔ حالات و واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اب شاید ہمارے ملک میں نان فائلرز اور ٹیکس نا دہندگان کو مزید مہلت نہ ملے۔