درختوں کی طرح انسان بھی زمین ہی سے نمو پاتے‘ پھلتے اور پھولتے ہیں اور اس مٹی سے سامانِ رزق پا کر تناور اور طاقتور درخت بن کر چمنِ زیست میں رنگِ بہار نمایاں کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ انسان کی جڑیں بھی زیرِ زمین گہرے پاتالوں میں پھیل جاتی ہیں اور اسی لیے زمین کی کوکھ سے اس کا رشتہ خاصا گہرا ہوتا ہے۔ درختوں کی طرح انسان بھی پھل‘ پھول اور سایے کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں اور خود کڑکتی دھوپ میں جل کر دوسروں کیلئے راحت، سکون اور آسائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔ زمین سے جڑے ہوئے لوگ فطرت کی بانہوں میں اٹھکیلیاں کرتے ہیں، پنپتے ہیں اور بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کے قریب رہنے والے درخت پھلوں سے لاد دیے جاتے ہیں اور ان کی ہر شاخ پر انعامات ِ خداوندی کی بارش ہوتی ہے مگر کئی درخت بانجھ بھی ہوتے ہیں۔ بظاہر قد کا ٹھ میں آسمان کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں لیکن نہ ان پر پھول لگتے ہیں اور نہ ہی پھل حتیٰ کہ اُن کے پاس سایے کی نعمت بھی نہیں ہوتی۔ وہ بد نصیب درخت جو زمین سے اپنا تعلق مضبوط نہیں بنا پاتے‘ تند و تیز ہوا کے جھونکے اکثر ان کی شاخوں کو توڑ دیتے ہیں، کئی مرتبہ طوفان انہیں جڑوں سے ہی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ گرے ہوئے درخت کو کاٹ کر ایندھن میں جلا دیا جاتا ہے اور پھر اس کی راکھ ہوائوں میں اڑ کر فضائوں میں بکھر جاتی ہے اور اس طرح اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مٹ جاتا ہے۔ حضرت علیؓ سے منسوب ایک قول ہے کہ زمین کے قریب رہو کیونکہ زمین پر بیٹھا ہوا شخص گر بھی پڑے تو اسے چوٹ کم لگتی ہے۔
ہم اپنے ارد گرد مختلف انواع کے لوگ دیکھتے ہیں۔ کئی پھلدار بھی ہیں اور پھولوں سے مزین بھی ،گھنے اتنے کہ ٹھنڈی چھائوں کی نعمت سے سرفراز اور دوسروں کیلئے سامانِ راحت ۔ گفتگو کریں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ وہ چلیں تو زمانہ ان کے نقشِ قدم کو اپنے لئے نشانِ منزل بنا لیتا ہے۔ اُن کے ہونے سے لوگوں کی زندگیاں بدلتی ہیں، خوشیاں رقص کرتی ہیں اور خوشحالی عام ہو تی ہے اور اُن کے فیض سے ہر خاص و عام فیضیاب ہو تا ہے۔ وہ خیر بانٹتے ہیں، خیر مانگتے ہیں اور صحیح معنوں میں فرشتوں سے بڑھ کر انسان بن کر اپنے قول و فعل سے کائنات کی مانگ میں رنگ بھرتے ہیں۔یہ مقامِ فیض، یہ صبر و رضا کی نعمت، یہ عجز و انکسار کا انعام ربِ کائنات انہیں ان کے اخلاص، سچائی اور اخلاق کے طفیل عطا کرتا ہے جو انہیں لوگوں کے اور قریب کر دیتا ہے۔ وہ انعاماتِ الٰہی سے سرشار ہو کر مخلوقِ خدا کی خدمت میں مزید جُت جاتے ہیں، زیادہ جھک جاتے ہیں اور اللہ کے بندوں کیلئے آسانیاں تقسیم کرنا اُن کی زندگی کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔ وہ دراصل اپنی دھرتی ماں کے سچے اور سُچے بیٹے بن کر اپنی ماں کا قرض چکانے کی حتی المقدور کوشش کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں اور انہی کے دم سے گلشنِ حیات میں بہار ہوتی ہے۔ وہ اپنی خواہشات، ذاتی طمع و لالچ اور خود غرضی سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ۔یہی کردار انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور وہ انسانوں کی بھیڑ میں یکتا ہو جاتے ہیں۔
ہمارے آس پاس پھیلے ایسے لوگ نظامِ کائنات میں اپنا غیر معمولی حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی آسمان سے اتری مخلوق نہیں بلکہ عام لوگ ہیں مگر اپنے منفرد کام کی وجہ سے خاص ہو جاتے ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی میں یہ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ یہ لوگ تنخواہ کو اپنے لئے سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں اور پوری طاقت، توجہ اور دیانت سے اپنے طلبہ و طالبات کے روشن مستقبل کو سنوارنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یہ بغیر اضافی فیس کے‘ کمزور شاگردوں کو اضافی وقت دیتے ہیں اور ان پر زیادہ توجہ دے کر انہیں بھی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بے لوث لوگ حرص و ہوس سے بالاتر ہوتے ہیں۔ شعبۂ طب سے وابستہ ہوں تو یہ غریبوں‘ بے نوائوں، بے کسوں، یتیموں اور بیوائوں سے فیس نہیں لیتے، ان کا مفت علاج و معالجہ کرنا اپنے لئے باعثِ سعادت گردانتے ہیں۔ یہ جعلی ادویات نہیں بیچتے اور نہ ہی پانی والے ٹیکے لگاتے ہیں۔ یہ خواہ مخواہ ہزاروں روپے کے ٹیسٹ نہیں کرواتے اور نہ ہی مریضوں کو مخصوص لیبارٹری سے خریداری پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ لوگ وکیل ہوں تو غریبوں کے کیس مفت لڑتے ہیں اور ان کے حقوق کے تحفظ اور جائز معاملات کو قانونی پیچیدگیوں سے نکال کر اُن کیلئے عدالتی انصاف کا حصول ممکن بنانے میں اپنی پوری طاقت لگا دیتے ہیں۔ یہ سرکاری نوکری میں ہوں تو اپنی تنخواہ اور دیگر مراعات کے علاوہ کسی کی جیب پر نہ نظر رکھتے ہیں اور نہ ہی حرام کا نوالہ اپنے یا اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتے ہیں۔ یہ تھوڑے پر خوش ہو جانے والے، رزقِ حلال سے مالا مال اور قناعت پسندی سے آسودہ حال رہتے ہیں۔ یہ اپنے فرائضِ منصبی صرف ذمہ داری نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ یہ خیر کی خیرات بانٹتے ہیں۔ یہی غیرت مند بیٹے جب وردی پہن لیں تو وطنِ عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دوسروں کے لیے قابلِ تقلید مثال بن جاتے ہیں۔
اس کے برعکس وہ بانجھ درخت‘ وہ بد نصیب لوگ ہیں جنہیں نہ خیر بانٹنے کی توفیق ملی اور نہ ہی لوگوں کیلئے آسانیاں تقسیم کرنے کی ہمت ہوئی۔ یہ ہمیشہ ذاتی طمع و لالچ کے گرداب میں پھنسے رہے، اکثر وہ حرص و ہوس کی دلدل میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ لوٹ کھسوٹ کو اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں،پرائے مال پر اپنا حق جتاتے ہیں اور کمزوروں اور بے بسوں پر چڑھ دوڑنا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ اس فانی زندگی کو اصل حیات سمجھ بیٹھتے ہیں اور منافع خوری سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک، چوربازاری سے لے کر ملاوٹ و رشوت ستانی تک بھتہ خوری اور گراں فروشی سے لے کر ضمیر فروشی تک‘ یہ کردار کی پستیوں کی نچلی ترین گہرائیوں میں گرنے پر فخر کرتے ہیں۔ مکر و فریب کے تمام ہتھکنڈے آزمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔ نہ ان کے شر سے اپنے محفوظ رہ پاتے ہیں اور نہ ان کی شیطانی چالوں سے غیر بچ پاتے ہیں مگر آخر میں یہ لوگ دوسروں کے لیے ایک عبرت آموز مثال بن کر رہ جاتے ہیں۔
اپنی دھرتی کا قرض اتارنے، وطنِ عزیز سے محبت کرنے اور اپنے پیارے ملک سے اپنا پیار مزید گہرا کرنے کے کئی انداز ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں پہلو اس کی خوشحالی، خودداری اور خود مختاری میں اپنے حصے، اپنی آمدن اور ذرائع کے مطابق ٹیکس ادا کرنا، وقت پر اور پورا ٹیکس ادا کرنا ہے۔ وطن سے محبت کا یہ انداز دراصل اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس ملک نے ہمیں شناخت دی ہے اور یہی دنیا بھر میں ہمارا پہلا اور آخری ٹھکانہ ہے۔ ہماری جیب میں موجود شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اسی کا دیا ہوا تحفہ ہے اور اس پاسپورٹ کی عزت و آبرو میں اضافہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا ملک معاشی طور پر خوشحال ہو جائے اور اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکل کراپنے سیاسی و معاشی فیصلے خود کرنے کے قابل بن جائے۔ اس سب کا دارومدار ہماری جانب سے ٹیکس کی ادائیگی پر ہے۔ آئیے! اس دھرتی ماں کا قرض چکانے کیلئے اس کے سچے بیٹے بن کر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے سبز ہلالی پرچم کو اقوامِ عالم میں سربلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارا دیا ہوا ٹیکس ہی ہمارے ہم وطنوں کی فلاح و بہبود، تعلیم ، علاج معالجہ اور سہولتوں پر خرچ ہو تا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم سب دینے والا ہاتھ آگے بڑھائیں اور قومی خزانے کو بھرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ وطن سے محبت ہمارا آئینی فرض بھی ہے اور قومی غیرت کا تقاضا بھی۔اپنے فرائض کی انجام دہی کے بغیر تو ہم سب مٹی کی مورتیں ہیں اور بقول شاعر ؎
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی