ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!

تھامس کارلائل نے سچ کہا تھا کہ تاریخ عظیم انسانوں کی سوانح عمری ہے۔ تاریخ کے صفحات ہمیشہ ہیروز کے کارہائے نمایاں کو اپنی زینت بنانا پسند کرتے ہیں۔ زندگی کے تمام شعبہ جات میں خداداد صلاحیتوں سے مالامال منفرد کرداروں کی بدولت ارتقا، ترقی اور وسعت کے دروازے کھلتے ہیں۔ شعبۂ طب سے لے کر جراحی تک، سیاست سے لے کر تجارت تک، سائنس، تحقیق اور ترویج سے لے کر فنونِ لطیفہ تک، تعلیم و تدریس سے لے کر کھیل کے میدانوں تک ہمیں یہ مشاہیر دوسروں سے نمایاں نظر آتے ہیں اور لوحِ قرطاس پر ان کا نام ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ان کے کارنامے انسانیت کیلئے آسانیوں کی نئی راہیں متعین کرنا ہیں۔ اندھیروں میں روشنی کے مینار یہ لوگ امید، آرزو اور خوشی کا استعارہ بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی دوسروں کے نام وقف کر کے اپنا وقت، صلاحیتیں اور تمام تر توانائیاں بروئے کار لا کر حالات کا رخ موڑ دیتے ہیں، یہ ترقی و خوشحالی کی نئی سمت متعین کرتے ہیں اور یوں دوسروں کیلئے ایک قابلِ تقلید مثال بن جاتے ہیں۔ یہ ہیروز کئی مرتبہ تنازعات کی گھاٹیوں سے گزرتے ہیں‘دشنام طرازی کے تیر ان کا سینہ چھلنی کرتے ہیں اور زبان درازی کے پے درپے وار ان کی روح پر گہرے گھائو لگاتے ہیں مگر ان کی عظمت کا ستارہ اوجِ ثریا کے اس پار چمکتا رہتا ہے۔ یہ مرتے نہیں بلکہ موت سے بھی ان کو دوام نصیب ہوتا ہے اور تاریخ انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر دیتی ہے۔
گزشتہ کالم میں نے دھرتی ماں کے ایسے ہی بیٹوں کے نام کیا تو مجھے کیا معلوم تھا کہ دو دن بعد ہی وطنِ عزیز اپنے اُس عظیم بیٹے سے محروم ہو جائے گا جس نے اسے ایٹمی قوت بنا کر اسے ہمیشہ کیلئے ناقابلِ تسخیر بنا دیا اور پاکستان کو سائنسی ترقی کی سنہری شاہراہ پر گامزن کر کے اقوام ِ عالم میں سرفراز کیا۔ وہ قابلِ تحسین بیٹا جس نے یورپ کی چکا چوند روشنیاں چھوڑ کر اپنی ارضِ مقدس کے اندھیروں کے خاتمے کا عزمِ صمیم کیا‘ جس نے اغیار کی ملازمت کو ٹھوکر مار کر اپنے دیس کی خدمت کو ترجیح دی‘ جس نے پھولوں کی سرزمین ہالینڈ کی آسائشوں کو چھوڑ کر کہوٹہ کی سنگلاخ وادی میں کانٹوں سے دوستی کر لی، جس نے اپنی ذاتی آسودگی اور خوشحالی کے سنہرے خواب پاکستان کے دفاع کی مضبوطی پر قربان کر دیے اور پاکستان میں یورینیم کی افزودگی پر مبنی ایٹمی ریسرچ کی بنیاد ڈالی اور اس وقت کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اپنی خدمات کی پیشکش کی۔ وطن واپس آکر اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے شب و روزمحنت و مشقت کر کے بالآخر دس سال کی قلیل مدت میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا ڈالا۔ وفا کا پیکر اور قومی غیرت سے سرشار یہ عظیم سپوت مشرقی پاکستان کے سانحہ پر بہت رنجیدہ ہوا۔ملکی سا لمیت پر سنگین حملوں نے اس غیور بیٹے کے دل پر گھائو لگائے، پھر جب 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو ہالینڈ میں آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے دشمن کی ریشہ دوانیوں اورمکاریوں کے سامنے خود سینہ سپر ہونے کا فیصلہ کر لیا اور وطنِ واپسی کا ارادہ باندھ لیا۔ اس عظیم ایٹمی سائنسدان نے ملک کو ایٹمی قوت بنا کر اتنا بڑا احسان کیا کہ پوری پاکستانی قوم نے اسے محسنِ پاکستان کے خطاب سے نواز دیا۔ یہ احسان قیامت تک ہم تمام پاکستانی مل کر بھی شاید نہ اتار سکیں اور نہ اس کا بدلہ دے پائیں۔ ایسے غیور بیٹے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور کئی کئی نسلیں ان کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری کا ماتم کرتی ہے‘ تب کہیں جا کر چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1948ء، 1965ء اور 1971ء میں جنگیں مسلط کرنے کے بعد ہمارے ہمسایہ ملک نے پاکستان پر جب چوتھی مرتبہ پھر چڑھ دوڑنے کا ارادہ کیا اور1980ء کی دہائی میں ہماری سرحدوں پراپنی فوجیں لاکھڑی کیں تو صدر ضیاء الحق بھارت میں ہونے والا پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ایک میچ دیکھنے اچانک سٹیڈیم جا پہنچے جس پر بھارتی وزیر اعظم کو بادلِ نخواستہ اس دورے کو نہ صرف قبول کرنا پڑا بلکہ چند گھنٹے سٹیڈیم میں اپنے مہمان کے ساتھ بھی گزارنا پڑے۔ واپسی پر جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے صدرِ پاکستان کی طرف مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو صدر ضیانے ان کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں دبا کر ایک دبنگ اور دوٹوک پیغام دیا کہ جس ایٹمی طاقت کا تمہیں گھمنڈ ہے‘ وہ ہم نے بھی حاصل کر لی ہے اور اگر تم نے اگلے چند روز میں سرحدوں سے فوجیں نہ ہٹائیں تو بھارت کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ بھارتی وزیر اعظم یہ سن کر شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئے اور فوراً اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد آج تک بھارت پاکستان پر چڑھائی کے اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس نے کبھی پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو آزمانے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ عظیم وطن تاابد سلامتی و بقا کی ضامن اپنی ایٹمی طاقت پر نازاں رہے گا اور یوں ہماری آنے والی نسلیں بھی محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے احسانِ عظیم کی مقروض رہیں گی۔
میں ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ آفس کا دروازہ کھلا اور میرے محسن و مربی جناب پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی اپنے شاگردِ خاص جیدی میاں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ میں نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور ان کے سامنے مؤدب ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ محسنِ پاکستان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے خصوصی طور پر اسلام آباد آئے تھے۔ جیدی میاں کی نظریں میرے کالم پر پڑیں تو غصے سے لال پیلا ہونے لگا ۔ وہ محسنِ پاکستان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک اور الزامات پر گفتگو کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ ہم محسن کش قوم ہیں اور ہم نے ہمیشہ اپنے مشاہیر اور محسنوں کے ساتھ دشمنوں والا سلوک کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ملک کی محبت، خدمت اور وفا کے صلے میں ہم نے انہیں غدارِ وطن قرار دینے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک غیر ملکی طیارہ آ کھڑا ہوا اور ہمارے اُس وقت کے حکمران انہیں امریکا کے حوالے کرنے پر تیار ہو گئے۔ مگر ایک غیور وزیراعظم اور بلوچ سردار نے اپنی کابینہ کو اعتماد میں لے کر اس ناپاک منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور اپنے عہدے کی قربانی دینا اپنے لئے سعادت سمجھا۔ جیدی میاں رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، مزید کہنے لگا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے محسنِ پاکستان کو اپنے گھر تک محدود کر دیا گیا تھا، انہیں ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی دبائو کا شکار رکھا گیا۔ بیرونِ ملک موجود ان کے اثاثہ جات سے متعلق بے بنیاد کہانیاں گھڑی گئیں حالانکہ اُن کا کل اثاثہ پاکستان اور پاکستان سے بے لوث محبت تھی۔
پھر باباجی گفتگو کو آگے بڑھانے لگے۔ فرمایا کہ محسنِ پاکستان پر الزامات محض ایک مطلق العنان حکمران نے لگائے اور اس کے چند درباریوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی مگر وہ اپنے مذموم مقاصد میں بری طرح ناکام ہوئے۔ فخر پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر کی وفات پر پوری قوم بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں نے سوگ منایا، شہر شہر غائبانہ جنازے پڑھے، گھر گھر قرآن خوانی کی گئی اور دعائیں مانگی گئیں۔ پاکستانی پرچم سرنگوں رہا اور انہیں پورے سرکاری پروٹوکول اور اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہ سب مہرِ وفا کے اس پیکر کی پاکستانیوں کی دلوں میں موجزن لازوال محبت اور عقیدت کی گواہی ہے۔ باباجی نے گفتگو سمیٹتے ہوئے جیدی میاں کو حوصلہ دیا کہ آج جس طرح انہوں نے ان کی آخری آرام گاہ پر لوگوں کا جمِ غفیر دیکھا ہے اور لوگوں کو قبر سے لپٹ کر روتے پایا ہے، یہ اس عظیم سپوت کی عظمت کا کرشمہ ہے۔ یہ شعر یقینا شاد عظیم آبادی نے محسنِ پاکستان کیلئے ہی لکھا ہو گا اور اگر ان کی قبر کے کتبے پر نقش کر دیا جائے تو نہایت موزوں ہوگا ؎
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ؍ ملنے کے نہیں‘ نایاب ہیں ہم

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں