مالی سال 2019-20ء کا اختتام ہوا تو ایف بی آر نے مجموعی طور پر 3997ارب روپے محصولات میں نیٹ ریونیو حاصل کیا اور 30 جون 2020ء کی شام اس قابلِ تحسین کارکردگی پر ملک بھر میں ادارے کے ذیلی دفاتر میں موجود افسران اور ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ کورونا وبا کے باعث نہ صرف معمولاتِ زندگی بری طرح سے متاثر ہو چکے تھے بلکہ کاروباری معاملات بھی مسلسل تعطل اور دبائو کی وجہ سے پریشان کن انداز میں چل رہے تھے۔ اس خوفناک اور خونیں وبا کے سائے جیسے جیسے عالمی سطح کے ساتھ ساتھ پاکستان پر گہرے ہوتے گئے‘ ایسے میں ملکی معیشت کے استحکام اور کاروباری آسودگی میں نئے انداز اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نئے مالی سال 2020-21ء کے آغاز میں ہی حکومت سے کئی سالوں سے پھنسے ہوئے ریفنڈز کی رقوم کی ادائیگی کیلئے اضافی گرانٹ منظور کرائی گئی اور ملکی صنعت و تجارت کا پہیہ چلانے اور کاروباری مراکز کی رونقیں بحال رکھنے کیلئے اربوں روپے کے ریفنڈز صنعتکاروں اور ٹیکس گزاروں کو براہِ راست منتقل کیے گئے۔جب دنیا بھر میں کورونا کے باعث فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوئیں تو وطنِ عزیز میں کارخانے ڈبل شفٹ پر چلنا شروع ہو گئے۔ فیصل آباد جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں مزدوروں کی قلت پڑ گئی اور فیکٹری مالکان بیرونِ ملک سے ملنے والے آرڈرز کو پورا کرنے کیلئے پریشان نظر آنے لگے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ برآمدات بڑھیں اور ملک کو قیمتی زرِ مبادلہ حاصل ہوا۔
اس کے ساتھ ہی کلین ریونیو کولیکشن کا ایک نیا اور اچھوتا نظام متعارف کروایا گیا جس میں کسی بھی ٹیکس گزار سے ایک پائی تک بھی ایڈوانس نہ لینے کی تلقین کی گئی اور ہر ٹیکس گزار کے جائز اور تصدیق شدہ قابلِ ادا ریفنڈ کی فوری ادائیگی کیلئے ہدایات دی گئیں۔ مزید برآں ٹیکس گزاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کے ساتھ برتائو اور ان کو ہر ممکن آسانی فراہم کرنے کیلئے بھی واضح اور غیر مبہم احکامات جاری کئے گئے۔ ان اقدامات کا مقصد ٹیکس گزاروں اور وصول کنندگان کے درمیان موجود خلیج کوکم کرنا، بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ اور باہمی اعتماد کی بحالی کو یقینی بنانا تھا۔ تمام فیلڈ فارمیشنز میں کاروباری آسانی اور تجارتی آسودگی میں درپیش رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے خصوصی احکامات جاری کئے گئے اور ایف بی آر میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف شکایات پر ایکشن لینے کیلئے محتسب مقرر کیا گئے تا کہ نچلی سطح پر ٹیکس گزاروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جا سکے۔
مالی سال 2020-21ء میں 4691ارب روپے کے محصولات اکٹھا کرنے کا ہدف تھا مگر مذکورہ بالا اقدامات، ٹیکس آسانی پر مبنی شفاف نظام اور میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے دی گئی ہدایات نے کام آسان بنا دیا۔ 30جون 2021ء کی شام مالی سال کے خاتمے پر نہ صرف مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا بلکہ 54ارب کی خطیر رقم اضافی اکٹھی کی گئی۔اس طرح گزشتہ مالی سال 2019-20ء کے نیٹ ریونیو 3997ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً19فیصد کا اضافہ ہوا۔ جون 2021ء میں نیٹ کولیکشن کا حجم 568ارب روپے رہا جو جون 2020ء میں حاصل کردہ 451ارب روپے کے مقابلے میں 26فیصد زائد تھا۔ سب سے خوشگوار پہلو ریفنڈز کے اجرا میں 86فیصد کا اضافہ تھا کیونکہ مالی سال 2020-21ء میں مجموعی طور پر 251ارب روپے کے ریفنڈز جاری کئے گئے جو پچھلے سال 135ارب روپے تھے۔ واضح رہے کہ 30جون 2021ء تک مالی سال 2020ء کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں کی تعداد 30لاکھ 10ہزار تک بڑھ چکی ہے‘ گزشتہ مالی سال کے خاتمے پر یہ تعداد 26 لاکھ 70ہزار تھی۔ اس طرح ٹیکس گوشواروں کی وصولی میں 12.5فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ادا شدہ ٹیکس 52ارب رہا۔
انکم ٹیکس کے محصولات میں اضافے کے ساتھ ساتھ کسٹم ڈیوٹی میں بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔ پاکستان کسٹمز نے مالی سال 2020-21ء میں مجموعی طور پر 742 ارب روپے کی کسٹمز ڈیوٹی حاصل کی جبکہ مقررہ ہدف 640ارب روپے تھا۔ اس طرح مجوزہ ٹارگٹ سے 102 ارب زائد ڈیوٹی وصول کی گئی جو 16فیصد اضافہ ہے۔ صرف جون کے مہینے میں مقررہ ٹارگٹ 75 ارب تھا لیکن83 ارب روپے کے محصولات جمع کئے گئے اور اس طرح مطلوبہ ہدف سے 8 ارب زائد کسٹم ڈیوٹی جمع کی گئی۔ مالی سال 2019-20ء کے مقابلے میں 2020-21ء میں 117 ارب زائد کسٹم ڈیوٹی حاصل ہوئی جو 18 فیصد زائد ہے۔ پاکستان کسٹمز نے 2020-21ء میں 57.7 ارب روپے کی سمگل شدہ اشیا ضبط کیں جو پچھلے سال 36ارب روپے تک تھیں اور اس طرح ضبط کی گئی اشیا کی شرح میں بھی 58 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے مالی سال 2020-21ء میں شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے 1608 تفتیشی رپورٹس اور ریڈ الرٹس پر مبنی 244 ارب روپے کے محصولات سے متعلق ایف بی آر کے ذیلی دفاتر کو آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ اسی ڈائریکٹوریٹ نے جعلی سگریٹ کے 8754 کارٹنز ضبط کئے جن کی مالیت 8 کروڑ 75 لاکھ روپے سے زائد تھی۔ ان پر قابلِ ادا ٹیکس کی رقم بھی چھپائی گئی تھی۔
رواں مالی سال کیلئے ملنے والے ٹیکس اہداف کا حجم5829 ارب روپے ہے‘ جس کا تعاقب شاندار انداز میں شروع کیا گیا ہے اور پہلے چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں 1841کا نیٹ ریونیو جمع کر کے 37فیصد ریکارڈ اضافہ حاصل کیا گیا ۔ مقررہ ہدف 1608 ارب سے 233ارب روپے زائد محصولات اکٹھے کر کے گزشتہ سال کے اسی دورانیہ میں جمع ہونے والے 1347ارب سے تقریباً 500ارب زائد ٹیکس حاصل کیا گیا۔ صرف اکتوبر کے ماہ میں 337 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 440 ارب روپے کے محصولات وصول کر کے 30.5فیصد اضافہ حاصل کیا گیا۔ یہ سب اعداد و شمار اور قابلِ رشک کار کرد گی حکومت کی توجہ اور ستائش حاصل کر چکی ہے اور گزشتہ کئی مہینوں سے وزیراعظم نے اس پرفارمنس پر تواتر سے ٹویٹس بھی کیے ہیں۔
ستمبر میں انکم ٹیکس گوشواروں کے حصول کیلئے ایک بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی۔ اہلِ قلم نے قومی معیشت میں ٹیکس کی ادائیگی پر روشنی ڈالی‘ ٹی وی اینکرز نے بھی قوم سے بھرپور اپیل کی۔ موبائل کمپنیوں کے تعاون سے صارفین کو آگاہی پیغامات بھیجے گئے۔ 31اکتوبر تک مالی سال 2021ء کے انکم ٹیکس گوشواروں کی تعداد 28لاکھ سے تجاوز کر گئی جبکہ 52 ارب سے زائد ٹیکس بھی وصول ہوا۔ رواں مالی سال کے آخر تک ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 6000 ارب سے زائد ریونیو حاصل کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے اور امید ہے کہ عوام کے تعاون سے یہ ہدف بھی حاصل کر لیا جائے گا۔ اگر ملک کو غیر ملکی قرضوں اور عالمی اداروں کی ڈکٹیشن سے آزاد کرانا ہے تو سب کو اپنے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہو گا اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالنا ہو گا۔ جب ہر شہری ٹیکس کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے گا‘ تبھی ملکی ترقی کا سفر تیز تر ہو گا۔ بقول شاعر:
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے، رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا