یہ ستم ظریفی ہے کہ وطنِ عزیز میں ملاوٹ کا رجحان اس قدر رواج پا چکا ہے کہ اس اخلاقی گراوٹ کو جیسے قبولیت کا درجہ مل گیا ہو۔ بحیثیت قوم ہماری کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں اور کچھ حقوق بھی ہیں۔ بعض اوقات جھنجھلاہٹ باقاعدہ غصے میں بدل جاتی ہے کہ آخر قوم سوال کیوں نہیں کرتی، ہمیں عمدہ چیز کی پہچان کیوں نہیں ہے‘ یہ استحصال کیوں خاموشی سے سہا جاتا ہے؟ روپیہ پیسہ کم یا زیادہ ہونا بری بات نہیں مگر فکر و دانش کا کم ہو جانا واقعتاً پریشانی کا باعث ہے۔ ہم نے شاید سوچنا ترک کر دیا ہے اوریہ معاشی و معاشرتی رویہ ہماری نسلوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر شدید مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پچھلے سال خیبر پختونخوا کے ایک ایسے شہر میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں گھروں اور ہوٹلوں کی چھتوں پر استعمال شدہ چائے کی پتی کو خشک کیا جا رہا تھا۔ یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ استعمال شدہ پتی خشک کر کے کیمیکل سے رنگنے کے بعد مہنگے داموں بازار میں بیچ دی جاتی ہے۔ یہ ایک شہر کی مثال ہے۔ غور کریں تو روز مرہ اشیائے خور ونوش میں کیا خالص رہ گیا ہے؟ دودھ کو لے لیں‘ کتنی قسم کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ پانی کی آمیزش تو اب بے ضرر لگنے لگی ہے۔ کیمیکلز والا دودھ ہمارے بچے بھی پیتے ہیں‘ معصوم بچے بھی ہمارے مذموم مقاصد اور حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی بے حس ہو گئے ہیں۔ذاتی مفاد کا سوچتے سوچتے یہ بھول گئے ہیں کہ بے حسی کی جو فصل ہم نے کاشت کی ہے‘ اس سے انسانی زندگی کوکتنے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ہم کیا اپنے اپنے جزیرے آباد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ایک مشہور ڈاکٹر (برین سرجن) جس کے ہاتھ اللہ نے ہنر دیا تھا کہ وہ دماغ جیسے پیچیدہ عضو ِ بدن کے علاج میں مہارت رکھتا تھا‘ کا قصہ سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے کام میں یکتا تھا مگر روپے پیسے کا لالچ بھی اسی درجہ کا تھا۔ مریض پیشگی رقم جمع کراتا تو ہی ڈاکٹر صاحب اس کا علاج کرتے۔ غریب یا کمزور معاشی حیثیت والوں کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھنے کی شاید توفیق عطا نہ ہوئی تھی ۔ ایک دن شعبۂ حادثات سے کال آئی کہ روڈ ایکسیڈنٹ میں ایک نوجوان زخمی ہے‘ دماغ پر چوٹ لگی ہے‘ فوری آپریشن ناگزیر ہے، ڈاکٹر صاحب نے حسبِ عادت اپنی فیس جمع ہونے کی تصدیق چاہی مگر اجنبی بے ہوش مریض کی فیس کس نے ادا کرنا تھی۔ لہٰذا آپریشن نہ ہوا اور مریض جانبر نہ ہو سکا۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کو گھر سے کال آئی کہ بیٹے کی کار کو حادثہ پیش آیا ہے‘ وہ آپ کے ہسپتال میں لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہوش سے بیگانہ ہو گیا کیونکہ سامنے اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پڑی تھی۔
دولت کمانا سب کا حق ہے‘ مگر کیسے ، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ ملاوٹ صرف اجناس یا ضرورتِ زندگی کی اشیاء تک محدود نہیں ہے۔ انسان‘ جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ کچھ ضرورتیں جسم کی ہیں، کچھ روح کی۔ کھانا پینا جسمانی ضرورت ہے، غذا زندگی کو دوام بخشتی ہے‘ اس کا خالص،طیب اور حلال ذرائع سے حاصل کرنا اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ بشری جبلتیں انسان کو کمزور کر دیتی ہیں۔ بھوک، پیاس، نیند، نفسیاتی خواہشات بلاشبہ طاقتور جبلتیں ہیں۔ ازل سے انسان ان جبلتوں کے ہاتھوں مار کھاتا آیا ہے۔ زمانہ جدید نے سوچوں کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ یہ ایک ترتیب ہے۔ پہلے سوچ آتی ہے، پھر عمل بنتا ہے اور آہستہ آہستہ عادت اور پھر فطرت۔ انسان اپنے آپ سے نہیں بچ سکتا۔ فطرت کی غلامی اخلاق کے اعلیٰ اوصاف کو اس سے متعارف ہی نہیں ہونے دیتی۔ سوچوں میں ملاوٹ آجائے تو یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے اور انسانیت کے بنیادی اصولوں اور تقاضوں کو روند ڈالتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم جسمانی اور روحانی‘ دونوں طرح کے انحطاط اور زوال کی لپیٹ میں ہیں۔ اس کے اسباب چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی، ذمہ داری ہر ایک کو لینا پڑے گی۔ ہمیں اپنے خدوخال کی مجموعی کیفیات اور ڈھانچے کو جانچنے کے بعد اس میں ضروری تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ خوش فہمیاں نہیں پالنی چاہئیں، اپنا جائزہ خود لینا ہوگا۔ مہذب معاشروں کو پڑھ کر‘سمجھ کر ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کو نئے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ یہ اعلیٰ معاشرتی اقدار کو نہ صرف متعارف کرانے کا وقت ہے بلکہ ان پر عمل کرنے اور کروانے کا بھی وقت ہے۔ ملاوٹ سے پاک معاشرے کی بنیاد سچائی، امانت اور دیانت جیسے اعلیٰ ترین اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی رویوں میں جھلکنی چاہیے۔ درو دیوار پر بے ہنگم اشتہارات اور جھوٹے دعوے قوم کے جذبات کے ترجمان ہر گز نہیں، انہیں بند کرانا ہوگا۔ قوانین پر گلی محلہ کی سطح پر عمل درآمد ضروری ہے اور پاکیزہ خیالات کے اظہار اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں ایک سمجھدار خاتون عدالت پہنچ جاتی ہے کہ ایک بین الاقوامی کاسمیٹکس کمپنی کے شیمپو کے اشتہار میں کہا جاتا ہے کہ یہ بالوں کو گرنے سے روکتا ہے مگر مستقل استعمال پر نتیجہ برعکس نکلا ہے۔ کمپنی کو نہ صرف ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ جھوٹ بولنے اور غلط بیانی کر کے مال فروخت کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا جاتا ہے۔ یہ ہیں صارف کے حقوق!
دیکھتے دیکھتے روایات تبدیل ہو گئیں۔ہم اصل سے دور اور مصنوعی زندگی کے عادی ہو گئے۔ سادہ خالص خوراک کو ملٹی نیشنل کارپویشنز کو کامیاب کرنے کیلئے مضرِ صحت قرار دے دیا گیا۔ نوجوان نسل کو قدرتی اور خالص دیسی اشیا کی پہچان اور ذائقہ تک بھول گئے اور ملک کا قیمتی زرِ مبادلہ امپورٹ پر خرچ ہونے لگا۔ وطنِ عزیز سے دودھ، دہی، لسی کا کلچر سرے سے ختم ہو گیا۔ سرمایا دارانہ نظام کی چکی میں عوام یوں پیسے گئے کہ اصل سے جدا ہو کر گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔گائوں کے لوگوں نے بھی دیسی دودھ بیچ کر تیل کا پیک خرید لیا۔ جنگلی شہد محنت سے تلاش کیااور شہروں میں بیچ کر بچوں کیلئے چپس اور پاپڑ خرید لیے۔ سفاکیت کی انتہا تو یہ ہے کہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کو دوا بھی خالص میسر نہیں۔ دو نمبر کمپنیوں کی بھرمار ہے اورمیعاد ختم ہوجانے کے بعد لیبل تبدیل کر کے چیزیں بیچی جا رہی ہیں۔اب ''رپلیکا‘‘ کا دور چل رہا ہے‘ گھٹیا مال اس خوبصورت نام کے ساتھ عزت پانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس کھیل کا خاتمہ کیسے ہو؟ زرعی زمینیں مافیا نے کوڑیوں کے مول لے کر اربوں کما لیے اور معاشرے کے معاشرتی و معاشی اور تہذیبی توازن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ فضا آلودہ،پانی پینے کے قابل نہیں، مشروم کی طرح اگنے والے نو دولتیوں کی ایک کلاس اس طرح کیچلی بدل کر عزت و وقار حاصل کر چکی ہے کہ اب غریب ہونا معاشرتی عیب بن گیا ہے۔ ریڑھی بان سے لے کر مل مالکان تک‘ ہر کوئی ملاوٹ کی لت میں پڑ چکا ہے اور حرص و ہوس کی اتھاہ دلدلوں میں مال و زر کے انبار لگا نے میں مصروف ہے۔
امام احمدؒ بن حنبل سے ایک خاتون نے ایک اہم مسئلے پر رہنمائی چاہی۔ وہ عورت سوت کات کر بازار میں فروخت کرتی تھی۔ سوال یہ تھا کہ ''میں رات کو سوت کاتتی ہوں‘ دن میں دیگر کام ہوتے ہیں اور میرا چرخہ گھر کی چھت پر ہے، کیونکہ میں چاند کی روشنی میں کام کرتی ہوں، رات کے وقت میری گلی سے بادشاہ کی سواری گزرتی ہے جس کے شمع دان پورے ماحول کو روشن کردیتے ہیں‘ جو سوت اس روشنی میں کاتا جاتا ہے اس کا معیار چاند والی روشنی سے اچھا ہوتا ہے‘ کیا میں ان دونوں کو الگ الگ قیمت پر فروخت کر سکتی ہوں؟‘‘۔ سمجھنے کی باتیں ہیں، غور و خوض کا وقت ہے، ذاتی اور قومی وقار اور مہذب دنیا میں ہمارا تعارف ہماری اجتماعی سوچ اور عمل کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ قوموں کی برادری میں ہمارے اسلاف نے جو عزت اور جو مقام حاصل کیا تھا‘ جس ذکر علامہ اقبال نے شکوہ میں کیا‘ اسی کو دوبارہ پانے کیلئے وہی اعلیٰ اقدار اپنانے کا وقت ہے۔آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔خالص اور پاکیزہ رزق‘ بقول بانو قدسیہ‘ سات نسلوں تک اثر دکھاتا ہے اور ساتویں نسل تک اگر رزق ملاوٹ اور ناجائز ذریعے سے حاصل کیا گیا ہو تو نسلوں میں جنون آجاتا ہے۔ ملاوٹ کو اگر عام فہم انداز میں لیا جائے تو محبت بھی پوری اور خالص دستیاب نہیں ہے۔ ہم شہروں میں رہنے والوں نے اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کیا تو دیہی معاشرتی سماجی تہذیب و تمدن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خیر نہ برکت، محبت نہ صفائی، طہارت نہ ذائقہ، اور مال کا زیاں بے شمار۔ آج سے سوچ کا روشندان کھولیں اور تازہ ہوا کا جھونکا اندر آنے دیں، اچھا لگے گا۔