عالمی نظام میں ایک طرف خوبصورت نعرے، دلآویز دعوے اور دلکش وعدے ہیں جو دنیا کو جمہوریت کے حسن، امنِ عامہ کے فضائل اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا درس دیتے ہیں، انسان کی عزت و تکریم کا بول بالا کرتے ہیں اور انسانی ترقی و خوشحالی کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ آئے روز بین الاقوامی سطح سے لے کر علاقائی نوعیت تک اَن گنت ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں‘ سیمینار اور مذاکرات دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے موضوعات کا بنیادی نکتہ انسانی خوشحالی، معاشی استحکام اور سماجی ترقی کے گرد گھومتا ہے مگر یہ تصویر کا محض ایک پہلو ہے جبکہ اس کا دوسرا تاریک اور بھیانک رخ اس نظام کا اصل چہرہ ہے جو ہر وقت آگ اور خون کے کھیل میں انسان کی بے بسی، بے حسی اور بے کسی کی عملی تصویر سے عبارت ہے۔ مشہورِ زمانہ امریکی سیاستدان ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ سے دشمنی خطرناک ہو سکتی ہے مگر اس کی دوستی مہلک ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے‘ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ کار زارِ سیاست میں محض مفادات مقدم ہوتے ہیں‘ اصول و ضوابط یا اخلاقیات صرف ثانوی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اکثر ان کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج دشمن اور آج کے دوشمن کل کے دوست بن جاتے ہیں۔ ہنری کسنجر کے مذکورہ تجزیے کی عملی مثال ماضی قریب میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب برطانیہ امریکہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہو کر عراق کے خلاف بُر ی طرح استعمال ہوا۔ امریکہ نے اسے جنگ میں خوب جھونکا اور صدام حسین پر بے بنیاد الزامات لگا کر نہ صرف اقتدار سے الگ کیا بلکہ نشانِ عبرت بنا دیا۔ امریکہ سے دوستی کی قیمت برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو ادا کرنا پڑی اور اسے ٹین ڈائوئنگ سٹریٹ میں واقع وزیراعظم ہائوس خالی کرنا پڑا۔ یہی حال اس کے دیگر اتحادی ممالک کا رہا بلکہ نیٹو کا سارا نیٹ ورک امریکہ سے دوستی کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ سرد جنگ سے لے کر افغانستان کی شرمناک شکست تک اسے شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس جدید نظام کا یہ اصلی چہرہ ہے‘ اس کا بھیانک پہلو۔ جو نظر آتا ہے وہ اصل نہیں ہوتا اور جو اصل حقیقت ہوتی ہے وہ کئی خوبصورت پردوں میں چھپا دی جاتی ہے اور منظرِ عام کا حصہ نہیں بن پاتی۔
افغانستان کا موجودہ بحران اور انسانی المیہ ہنری کسنجر کے تجزیے کی عملی مثال اور جیتی جاگتی تصویر ہے۔ آج کے افغانستان میں اگر بھوک ہے، افلاس ہے، غذائی قلت ہے، ادویات کی شدید کمی ہے، بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور آئے روز بحران مزید بگڑتا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے بھی امریکہ کی ''دوستی‘‘ ہی کا رفرما ہے جس کی 'لازوال داستان ‘اس وقت رقم ہوئی جب دسمبر1979ء میں سرد جنگ عروج پر تھی اور سوویت یونین امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں عبرت ناک شکست سے دو چار کر چکا تھا۔ اس واضح فوجی برتری کے نشے میں چور وہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ افغانستان کی سنگلاخ زمین میں موجود دشمن سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینے کا سنہری موقع امریکہ کے ہاتھ لگ گیا،اس نے فوراً پاکستان کو اپنا کلیدی حلیف بنا کر افغانستان میں فوجی اور مالی امداد کا راستہ ہموار کیا اور سوویت یونین کو چاروں شانوں چت کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ یہی وہ دورتھا جب پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان کی نرسری لگائی گئی اور اس فصل کی تیاری میں امریکہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ افغان وار لارڈز واشنگٹن میں امریکی صدر رونالڈ ریگن سے بغل گیر ہوتے ، مصافحے اور معانقے کرتے۔ انہیں اعلیٰ ترین سفارتی پروٹوکول سے نواز کر ان کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے اور ظہرانے سجائے جاتے۔ یہ سیاسی تاریخ میں امریکہ اور افغانستان کے مابین تیزی سے بڑھنے والے اس رومانس کے شب و روز تھے جس کی قیمت آج افغانستان اور اس کے بدنصیب عوام چکا رہے ہیں۔
امریکہ نے سوویت یونین سے ویتنام جنگ کی شکست کا بدلہ چکا لیا اور زخموں سے چور سوویت یونین افغانستان سے ماسکو واپسی تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے سوویت یونین کے صدر گور باچوف نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور اپنی شکست تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر سر تسلیم خم کر لیا۔ اس تاریخی فتح پر امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے احسانات کا بدلہ چکانے کے بجائے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور ایک طرف پاکستان پر پریسلر ترمیم کے ذریعے فوجی امداد کے دروازے بند کر دیے تو دوسری طرف افغانستان کو بدترین اندرونی خانہ جنگی میں جھونک دیا۔ پھر جب وہاں طالبان نے حکومت قائم کر لی تو انہیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دے دیا جنہوں نے امریکی اتحادی کے طور پر سوویت یونین کو بدترین شکست سے دو چار کیا تھا بلکہ نائن الیون کے فوراً بعد امریکہ نے نیٹو اتحادی افواج کے ہمراہ کابل پر فوج کشی کردی اور اسے آگ اور خون کی عملی تصویر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 20سال کی طویل جنگ میں افغانستان کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے کے لیے بدترین مثالیں قائم کی گئیں۔ انسانی حقوق کی پامالی سے لے کر معاشی بدسلوکی تک‘ امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان اور افغان عوام پر زندگی کے سبھی دروازے بند کرتے رہے اور اپنی طاقت اور فوجی حکمتِ عملی کے تمام حربے آزماتے رہے مگر بالآخر صدر جوبائیڈن نے 20سالہ جنگ کو سعیٔ لا حاصل قرار دیا اور اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ اس اچانک فیصلے سے اتحادی بھی چونک اٹھے؛ تاہم انہیں افغانستان سے رخصت ہوتے ہی بنی۔
آج پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور اس پر امریکہ نے قافیۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اس کے غیر ملکی اکائونٹس منجمد کر رکھے ہیں اور وہاں کسی بھی قسم کی بیرونی مالی امداد نہیں پہنچ رہی۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ افغانستان کا بحران شدید ترین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف غذائی ضروریات کی قلت ہے تو دوسری طرف ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ ناپید ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوامِ متحدہ افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو تشویش ناک قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان میں نومولود بچے دودھ اور غذا کی عدم دستیابی کے باعث لقمۂ اجل بن رہے ہیں، بیروزگاری اور غربت و افلاس کے چار سو پھیلتے گہرے سائے افغانستان کے بحران کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔اسی بحران کو مزید شدت سے بچانے کیلئے اور افغان عوام کے دکھ اور پریشانیوں کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کاسترہواں ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں بلا کر اس سنگین انسانی المیے کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس غیر معمولی اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک کے علاوہ بین الاقوامی مندوبین بھی شریک ہوئے ہیں جن میں20وزرائے خارجہ اور 10نائب وزرائے خارجہ کے علاوہ کل 70کے لگ بھگ مندوبین شریک ہوئے۔ اگرچہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر انسانی جانوں کا ضیاع اور بچوں کا بھوک پیاس سے مر جانا آج کی ترقی یافتہ دنیا اور اس کے نیم مردہ ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کیا او آئی سی کے رکن ممالک اور ان کے عوام افغانستان کے عوام کے دکھ، درد اور افلاس کو اپنا درد سمجھتے ہوئے ان کیلئے عملی اقدامات بھی کریں گے یا یہ کانفرنس محض اعلامیوں اور وعدوں کے انبار میں دفن ہو جائے گی‘ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ پاکستان نے اس کانفرنس کی میزبانی کر کے نہ صرف اپنی حیثیت اجاگر کی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اپنے کلیدی کردار کو منوایا ہے۔اسلام آباد نے اس بحران میں افغان بھائیوں کیلئے پہلے ہی 17 ہزار میٹرک ٹن گندم، دیگر خوراک اور ادویات بھجوا دی ہیں اور بھارت کی طرف سے دیے جانے والے 50 ہزار میٹرک ٹن امدادی سامان کو اپنے زمینی راستے سے افغانستان جانے کی اجازت بھی دی ہے۔آج افغانستان مشکلات سے دو چار ہے اور پورا ملک آبلہ پا ہے۔ انسانی ہمدردی، بھائی چارے اور اسلامی اخوت کے عملی مظاہرے کا وقت آن پہنچا ہے۔