پاکستان میں سیر و تفریح اور فیملی کے ساتھ گھومنے پھرنے کا شوق پچھلے چند سالوں میں کافی بڑھا ہے۔ ذرائع نقل و حمل میں بہتری آئی ہے اور چھوٹی‘ بڑی ذاتی گاڑیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سال موسم کی پہلی بارش اور برف باری کی پیش گوئی سے سیاحت کے متوالوں نے مری کا رخ کرنے کا ارادہ کیا۔ ہماری قوم میں دو چیزیں بہت کم اور دو چیزیں بہت زیادہ ہیں۔ پلاننگ اور ڈسپلن کی شدید کمی ہے جبکہ جذباتی فیصلے اور بھیڑ چال کی بے حد زیادتی۔ پہاڑی علاقوں کا اپنا مزاج ہے اور قدرت کا اپنا نظام۔ پہاڑی علاقوں میں خراب موسم انتہائی خطرناک ہو جایا کرتے ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ اور پارکنگ کی کمی مری کا شروع سے مسئلہ رہا ہے‘ امسال بھی یہی ہوا۔ اتنی گاڑیاں مری اور اردگرد کے علاقوں میں داخل ہو گئیں کہ سڑکیں جام ہو کر رہ گئیں۔ اسی دوران موسم کے تیور حد درجہ بگڑ گئے۔ برف باری‘ طوفانِ بادو باراں نے مہلت ہی نہ دی اور لوگ بچوں اور خواتین سمیت برف زاروں میں پھنس گئے۔ مری میں برفانی طوفان اور خراب موسم سے جو تباہی مچی‘ اس کا اندازہ یا ذرا سا بھی شائبہ تک کسی کے ذہن میں نہ تھا۔ یکایک حالات تبدیل ہو ئے۔ کرائسس مینجمنٹ کی کوئی تربیت یا 'موک ایکسرسائز‘ کبھی پریکٹس نہیں کی گئی، نہ کوئی منصوبہ بندی نظر آئی۔ ذمہ داریوں کا تعین اور تفویض کا نظام وضع کیا گیا اور نہ سیاحوں کی تعداد پر نظر رکھی گئی۔ نہ تو سیاحت کے کوئی اصول وضع کیے گئے‘ نہ حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور نہ ہی ان سے نمٹنے کی تدبیر۔ بدقسمتی سے ہم سب بحیثیت قوم نہیں سوچتے، بطور فرد اپنی اپنی راگنی الاپتے ہیں اور یہی مجموعی اور عمومی رویہ ہمیں مسائل میں دھنسا رہا ہے۔ ہم اس حد تک سادہ، کم فہم اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں کہ کیمیائی، سائنسی، طبیعیاتی اور فطری عمل پذیری کو بھول کر روایتی انداز میں گاڑی میں ہیٹر چلا کر بے فکر ی سے سو گئے۔ موسم کی صورتحال کے پیشِ نظر تمام ذمہ داری سرکاری اداروں اور انتظامیہ پر ڈال کر انہیں ہر چیز کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست ہے مگر پورا سچ نہیں۔
سیاحتی مقامات اور خاص طور پر پہاڑوں کا سفر کرنے والوں کی کچھ ذاتی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی اور حفاظت کو بھی ملحوظ رکھیں۔ سیر و سیاحت کی ضرورت اور شوق اپنی جگہ مگر حالات کی سنگینی کا بھی ادراک کرنا ضروری ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کے ردِ عمل کو کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ کمال بات یہ ہے کہ ہم نے ایجادات اور مشاہدات کو تو کب سے چھوڑ رکھا تھا‘ جدید سہولتوں کے بہترین استعمال کو بھی نہیں سیکھ سکے۔ یاد رہے کہ مشکلات میں اکٹھا ہونا، یکجان ہونا ہمارے معاشرے کی ایک نمایاں صفت رہی ہے۔ ہزاروں گاڑیوں میں لاکھوں لوگ تو ہوں گے‘ باہر نکل کر مشترکہ حکمتِ عملی اپنائی جاتی تو بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ نوجوان ریسکیو اداروں کے ساتھ مل کر حالات کا مقابلہ کرتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ بات پھر وہیں پر آجاتی ہے کہ ہم اکائیوں میں سوچتے ہیں، اجتماعی مفاد کے بجائے نفسانفسی کی فکر نے راستے گاڑیوں کی بے ہنگم پارکنگ سے بند کر دیے تھے۔ مقامی انتظامیہ نے بے فکر ہو کر سب کچھ موسم اور حالات کے سپرد کر دیااور سیاح گاڑیوں کو جائے پناہ سمجھ کر بے عملی کی مثال بن گئے۔ رہتی سہتی کسر مقامی ہوٹل مافیا کی لوٹ مار اور بے حسی نے نکال دی۔ یہاں ہوٹل انڈسٹری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی تنظیمیں بھی ہیں۔ رزق کمانے کا حق سب کو ہے مگر وقت اور حالات کی سنگینی کا ادراک بھی ضروری ہے۔ مشکل وقت میں انسانیت اور انسانی زندگی مقدم ہوتی ہے۔ ہوٹلوں میں غیر معمولی حالات میں اگر گنجائش نہیں تھی تو انہیں کرایہ بڑھانے جیسا عمل زیب نہیں دیتا تھا۔ انتظامیہ ہوٹلز کو زبردستی کھلوا کر لوگوں کو موسم کی شدت سے تحفظ فراہم کر سکتی تھی۔ سیاح گھروں کے دروازوں پر دستک دے کر پناہ طلب کر سکتے تھے اور یوں موت کی بے رحم آغوش میں جانے والوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
اگر سب آئوٹ آف باکس سوچتے تو ذرائع اور راستے نکل سکتے تھے اور اس طرح قیمتی 22انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا تھامگر ہم ہمیشہ ایڈہاک ازم کی پالیسی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، حادثات اور سانحات سے سیکھ کر آئندہ کی پیش بندی نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی قوم کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ عام شہریوں کی آگہی اور تربیت کی کبھی منظم یا شعوری کوشش نہیں کی گئی۔ قانون کی خلاف ورزی کتنا بڑا المیہ ہے‘ اس کی حساسیت کیا ہے‘ اس کے نتائج بھگتنے والے کس طرح متاثر ہو تے ہیں‘ ان کی امیدیں اور خواہشیں کس طرح تشنہ رہتی ہیں‘ یہ کوئی نہیں سوچتا! پے درپے رونما ہونے والے سانحات کا گہرا اور عمیق جائزہ لیا جائے تو شاید ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہماری قوم کو یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اتحاد و یگانگت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ہم دوسروں پر الزام عائد کرنے میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں مگر پلٹ کر سوچنے کی عادت ڈال کر اپنے حصے کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کرنے کو اہم نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ نوجوان سڑکوں پرالجھتے نظر آتے ہیں۔
مری کے حالیہ سنگین حالات میں ضروری امر یہ تھا کہ حالات کی نزاکت کے مطابق سیاحوں کو معلومات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جاتا، گاڑیوں کے ہیٹر بند کرانے اور باہر نکل کر ایک دوسرے کی مدد کی طرف توجہ دلائی جاتی، کاربن مونو آکسائیڈ گیس اور اس کے مضمر ات کو سمجھنے میں مدد دی جاتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر زندگی کی بازی ہارنے والوں کو دکھایا جاتا رہا‘ الزامات اور کوتاہیوں پر زور لگا کر سارا ملبہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پر ڈال کر دل کی بھڑاس نکالی گئی۔ قومی اجتماعی سوچ کے عکاس دراصل ہمارے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ قومی شعور ایک ارتقائی عمل سے گزر کر پختہ ہوتا ہے اور یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ قوم کا مزاج بننے اور سنورنے میں ایک نسل کی قربانی اور دوسری کی پرورش اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض تنقید برائے تنقید اور پولیٹیکل ایجنڈا ہر معاملے میں روا رکھنے کی روش تبدیل کرنا ہوگی۔ بصورتِ دیگر مری جیسے ہولناک واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم ہر حادثے اور سانحے کے بعد لکیر پیٹتے رہیں گے۔
وقت آن پہنچا ہے کہ سرکاری محکموں کو بدلتے رجحانات، سماجی رویوں اور سوچوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ محکمہ موسمیات برفباری، طوفانِ بادو باراں، سیلاب اور منفی درجہ حرارت میں سفری معلومات اور ایس او پیز کے بارے میں عوام کو آگاہ رکھیں۔ اداروں میں اصلاحات اور تربیت کا مؤثر پروگرام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ہوٹل انڈسٹری کی واضح طور پر درجہ بندی کے ساتھ منظور شدہ معاہدے کے مطابق مناسب کرایہ لاگو کیا جائے تا کہ سیاحت ایک انڈسٹری کی حیثیت سے ملکی اور قومی وقار کو بلند کر سکے۔
ملکہ کوہسار کے برف پوش پہاڑوں میں پیش آئے سانحے پر پوری قوم اب تک ذہنی کرب اور صدمے کا شکار ہے۔ مگر اصل اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا اتنے بڑے سانحے سے ہم بطور قوم کوئی سبق سیکھ کر مستقبل کی مؤثر پیش بندی اور ٹھوس حکمتِ عملی بنا پائیں گے؟ کیا ہماری انتظامیہ، پولیس، ریسکیو، محکمہ موسمیات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے والے وفاقی اور صوبائی محکمے آپس میں کوئی مربوط اور مؤثر رابطے کا نظام وضع کر پائیں گے جس کی بدولت ایسے کڑے وقت میں سب مل کر حالات کا مقابلہ کریں اور مصیبت میں گھرے انسانوں کا تحفظ یقینی بنائیں؟ کیا مقامی ہوٹل مافیا کیلئے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام ترتیب دیا جائے گا؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کیلئے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سانحۂ مری پر بہت کچھ لکھاجا چکا ہے اور اس کے اسباب و عوامل پر بھی مسلسل بات ہو رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے ان بدقسمت افراد کو موسم کی شدت نے مارا تو دوسروں کے خیال میں وہ گاڑی میں چلنے والے ہیٹر اور کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں گئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہوٹل مافیا کی بے رحمی اور بے حسی نے ان پر زندگی کے دروازے بند کیے مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ ان افراد کو ان کی بے بسی نے مارا جو مذکورہ تمام عوامل کے مل جانے سے ان کا مقدر بن گئی تھی۔