خوشی اس نعمت،احساس اور کیفیت کا نام ہے جو بھلے عارضی سہی‘ لیکن نہایت ضروری اور سب سے زیادہ چاہے جانے والی شے ہے۔ اس کا حصول تمام مخلوقات کی دلی آرزو اور مقصدِ حیات رہا ہے۔ اگر ہم سب خود سے سوال کریں کہ ہمیں دنیا میں سب سے زیادہ کس شے کی تلاش ہے تو شاید ہمارے ذہن میں اپنی خواہشات اور ضروریات کی ایک لمبی فہرست ہو۔ فرض کریں کہ اس فہرست میں موجود بیشتر اشیا اور سہولتیں میسر آجاتی ہیں‘ کیا پھر آپ خوش،مطمئن اور پُر سکون زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے؟ جواب پھر بھی نفی میں ہی آئے گا۔ کیونکہ خوشی کا تعلق صرف حصولِ دولت، طاقت اور اختیار سے نہیں‘ نہ ہی بڑے بڑے پُرتعیش گھروں میں رہنے یا عمدہ ریشم واطلس کی پوشاکیں زیب تن کرنے سے ہے۔ لاکھوں ڈالر کی گھڑی زندگی کے خوشی کے پلوں کو روک کر اس کے لطف کو دو چند نہیں کر سکتی‘ نہ سونے اور چاندی کے برتن کھانے پینے کی اشیا کو مزید لذیذ بنا سکتے ہیں۔ نہ ہی یہ چیزیں انسانی زندگی کو موت‘ حادثات‘ بیماری اور غم سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ تو پھر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخر خوشی ہے کیا؟ اس کی تعریف کیا ہوگی؟ عام فہم، سادہ اور آسان! ہر کسی کی سوچ، نظریہ اور خیال دوسرے سے الگ ہو گا۔ خوشی ایک عارضی، لمحاتی اور غیر مستقل تجربہ ہے۔ یہ ایک احساس، ایک جذبہ، کیفیت، سرمستی، تسکین، اطمینان، آسودگی، آسانی، قربانی، خدمت، ایثار، محبت، اخلاص، ایمان اور لاتعداد اجزا اور احساسات کا مرکب اور مجموعہ ہے۔
امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سینٹوس ''دنیا میں کیسے خوش رہا جا سکتا ہے‘‘ کا مضمون پڑھاتی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ہم میں خوش مزاجی یونہی نہیں آتی۔ اس کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے، مشق کرنا پڑتی ہے، ایسے ہی جیسے موسیقار بہتر ریاض اور اتھلیٹ مسلسل محنت اور لگن سے اپنے فن میں مہارت حاصل کرتا ہے۔ حقیقی خوشی فارغ رہنے اور دنیاوی و مادی اشیا سے نہیں ملتی۔ خوشی کے حصول کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند کا پورا ہونا ضروری ہے۔ نیند ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کے خطرات کم کر دیتی ہے۔ تنہائی اور جدائی خوشی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ صحت مند رشتہ، سماجی رابطہ، لوگوں سے بالمشافہ ملاقات اور گفتگو کی بھی بہت اہمیت ہے۔ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ خوش رہنے کے لیے دانستہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
خوشی کو ماپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ اسے پر کھا جائے، برتا جائے اور سمجھا جائے۔ اتار چڑھائو، کمی، بیشی کو جانا جائے۔ اسے قسمت، نصیب اور تقدیر کا لکھا سمجھ کو قبول کر لیا جائے۔ خوشی کے مواقع اور لمحات کی تلاش اور ان سے حقیقی خوشی کشید کرنے کی صلاحیت، تربیت، تحریک اور اہلیت پیدا کی جائے یا ان وجوہات اور اسباب پر غور و فکر اور توجہ مبذول کرائی جائے جو خوش رہنے اور خوشی محسوس کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔ دراصل انسانی زندگی ایک پنڈولم کی مانند ہے۔ دو انتہائوں کے بیچ کی نارمل حالت اور لمحۂ موجود سے لطف اندوز ہونا۔ مثبت رجحان رکھتے ہوئے جو میسر ہے اس کو دل سے قبول کرنا خوشی ہے۔ ماضی کے ناخوشگوار تجربات اور محرومیوں کو بھول کر مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہوئے بغیر زمانۂ حال کی قدر کرنا اور اپنا خوش گوار لمحہ وصول کرنا۔ وہ وقت جو آیا ہی نہیں‘ اس کی فکر میں بے چین ہونا اور پیشگی اقدامات کرنا، بے جا خوف پالنا اور بدگمان ہونا زمانۂ حال کو بھی بدمزہ اور بے رنگ کر دیتا ہے۔خوشی بنیادی طور پر دواہم اجزا‘ مثبت اور منفی رجحانات، رویوں، تجربات اور محسوسات سے تعلق رکھتی ہے۔ ہمارے جذبات خوشی اور غم میں یکساں نہیں ہوتے۔ ہر فرد میں خوشی کی علامات الگ الگ دیکھی جا سکتی ہیں۔ دکھ اور غم کے لمحات میں ہمارے رویے مایوسی، پچھتاوے، غصے، انتقام اور نفرت میں بدل جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ خوشی کا تعین کیسے کیا جائے؟ کیا خوش اور شاد زندگی گزارنے میں موروثیت (جینز) کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں! ایک تحقیق سے یہ نتائج اخذ ہوئے ہیں کہ انسان کی خوشیوں اور اطمینان میں جینز کا 40فیصد تعلق ہوتا ہے اور اسی طرح ماحول کا بھی۔ سازگار ماحول، مثبت سوچ، قناعت پسندی، سادگی سے شاد اور خوشگوار زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ ہمیں کچھ گھرانے اپنے ارد گرد ایسے نظر آتے ہیں جو خوش باش،تندرست اور تواناہوتے ہیں۔ اس کی وجہ مال و دولت کی فراوانی نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو فوکس رکھتے ہیں، چاہے گھر ہو، دفتر ہو یا کاروبار ہو۔ لگن و دلجمعی سے توجہ مرکوز رکھیں تو احساسِ محرومی، عدم تحفظ اور نظر انداز ہونے کی سوچ نہیں پنپتی۔
ایک اور اہم چیز ہے مقصدیت! ہماری زندگی بے مقصد نہ ہو۔ مقصدکا تعین کر لینے سے راستہ واضح اور منزل آسان ہو جاتی ہے۔ زندگی میں نظم و ضبط آجاتا ہے۔ صلاحیتوں میں نکھار اور وقار پیدا ہو جاتا ہے۔ خوشی کی دشمن حسد ہے اور حاسد کو کبھی حقیقی خوشی اور سکون میسر نہیں آ سکتا کیونکہ وہ اللہ کی تقسیم پہ راضی نہیں ہوتا۔
تیرہ برس کے ایک نیک اور صالح بچے نے اپنے والد سے سوال کیا کہ خوشی کیا ہوتی ہے؟ اس کو کہاں تلاش کروں؟ اس کے والد نے ایک کاغذ پر ایک پتالکھ کر اسے دیا اور بتایا کہ کل تم سفر پر نکلو،فلاں جگہ جائو‘ وہاں ایک بڑا عالم رہتا ہے‘ اس کی صحبت میں بیٹھ کر سیکھو، وہ تمہیں سمجھائے گا کہ خوشی کیا ہوتی ہے؟ وہ لڑکا جب مطلوبہ جگہ پہنچا تو صحرا کے وسط میں ایک نہایت عالی شان محل دیکھا‘ ایسا محل جس کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ وہ صدر دروازے سے داخل ہوا اور اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ محل میں بہت چہل پہل تھی‘ مہمانوں کی میزوں پر
انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات اور لوازمات سجے ہوئے تھے۔ عالم مہمان نوازی اور تواضع میں مصروف تھا۔ وہ بچہ بھی ایک جگہ بیٹھ گیا۔ جب اس عالم کی نظر بچے پر پڑی تو اس سے آنے کا مقصد پوچھا، بچے نے اپنا مقصد بتایا۔ اس عالم نے کہا کہ یہاں سے ایک چمچ اٹھائو اور اس پر دو قطرے زیتون کا تیل ڈالو۔ وہ چمچ سیدھے ہاتھ میں پکڑو اور جا کر اس محل کی خوبصورتی دیکھو مگر خیال رہے کہ تیل چمچ سے نہ گرنے نہ پائے۔ بچے نے ایسا ہی کیا۔ سینکڑوں زینے‘ کئی منزلیں‘ راہداریاں‘ دلان‘ غلام گردشیں عبورکیں۔ وسیع و عریض گھاس کے قطعات میں سے گزرا۔ جب واپس اس عالم کے پاس پہنچا تو چمچ میں تیل اسی طرح موجود تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ محل کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ مجھے تو تیل گرنے کی فکر لاحق تھی‘ میں نے تو محل میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔ اب اس دانشور عالم نے کہا کہ دوبارہ جائو اور چمچ میں دو قطرے تیل بھی ڈال لو اور محل کی خوبصورتی کو دیکھو۔ واپسی پر اس نے بیان کرنا شروع کیا۔ درودیوار پر نقش و نگار، دبیز قالین، فانوس، لاکھوں قیمتی کتابیں، ظروف، اعلیٰ ریشم و اطلس اور کمخواب کے دیوان، رنگا رنگ باغات، نایاب رنگ و نسل کے پیڑ اور پودے، پھلوں کی اقسام اور خوشبو، مور اور قمریاں،پھلوں سے لدے درخت۔ آکر ساری تفصیل بتائی تو اس عالم نے کہاں چمچ میں تیل دیکھو، دیکھا تو چمچ خالی تھا۔ تیل گر چکا تھا۔ اس عالم نے کہا : خوشی کیا ہے؟ خوشی یہ ہے کہ چمچ سے تیل بھی نہ گرے اور تم اس دنیا کی رنگینیوں اور خوبصورتیوں کو دیکھ بھی سکو۔ دونوں پر دھیان رکھو تا کہ اس دنیا کی حقیقی خوشی سے مطمئن اور شاد زندگی جی سکو اور لطف اندوز بھی ہو سکو۔ دو قطرے تیل دماغ کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں بھی عطا کیں۔ اگر دل ایمان کی دولت سے بھر ے گا تو مالا مال ہوگا۔
خوشی کی نعمت دوسروں میں خوشیاں تقسیم کرنے سے ملتی ہے۔ زندگی تب بہترین ہوتی ہے جب آپ کی وجہ سے دوسرے خوش ہوں۔کسی کے لب پر مسکراہٹ کا سبب بن جانا خوشی دیتا ہے۔ یہ لطف لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ زندگی خوشی اور غم کا حسین امتزاج ہے۔ ہر دور میں یہ دونوں اکٹھے ملیں گے۔ زندگی میں سارے کے سارے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی تکلیف ساتھ چل رہی ہو گی۔ نعمتوں کا تذکرہ کرنا شروع کریں تو لامحدود‘ احاطہ کرنادشوار۔حسن جمال، عقل، سمجھ، ہاتھ پائوں، دماغ، آنکھیں، طاقت اَن گنت نعمتیں ہیں مگر ہمیں احساس نہیں ان بیش بہا نعمتوں کا۔ ہمیں شکر گزار بننا ہے۔ جو بھی ہم میں سے ان نعمتوں سے محروم ہیں ان کی دلجوئی کرنی ہے، ہمت بندھانی ہے۔ خوشیوں میں حصہ دار بنانا ہے۔ شکر ادا کرنا ہے رب کے فضل کا،کرم کا، عطا کا، مہربانی کا، رحمت اور برکت کا، صحت کا، رزق کا۔ استغفار کرنا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سے پوچھا گیا: خوشی کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا ''خوشی کا وجود دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دنیا کی مثال ریشم کے کیڑے کی سی ہے جو جتنی زیادہ مقدار میں ریشم اپنے اوپر لپیٹتا ہے‘ اپنے باہر نکلنے کے راستے کم کرتا جاتا ہے۔ مقصد کے پیچھے بھاگو، خواہشوں کے پیچھے نہیں۔ جانور خواہشوں کا غلام ہوتا ہے‘‘۔
اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ میں لکھتے ہیں ''ہماری زندگی میں خوشی کی بہار اچانک اور چپکے سے آتی ہے۔ دل کی کلی کب مسکرانے لگتی ہے اور خوشی کے بادلوں پر سوار ہو کر آپ کا دل مسرت سے بھر جاتا ہے‘ اس کا کوئی قاعدہ، قانون اور اصول نہیں ہوتا۔ نہ دھن دولت کی ضرورت۔ خوشیاں تو آس پاس پھیلی ہوئی ہیں۔ مسئلہ اتنا ہے کہ آپ کب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک اصول پر تخلیق کیا۔ وہ آزمائش کا اصول ہے۔ اس لیے حسن کے ساتھ بدصورتی، خوشبو کے ساتھ بدبو، پھول کے ساتھ کانٹے اور خوشی کے ساتھ غم۔ درحقیقت یہی رازِ حیات بھی ہے اور ہماری خوشی کا ضامن بھی۔