کالم کی سرخی پر نظر پڑتے ہی سب نے یہ سوچا ہو گا کہ یہ کالم والدین اور اساتذہ کی بے لوث محبت اور بے پایاں شفقت کو زیرِِ بحث لائے گا مگر ایسا ہرگز نہیں ہے! یقینا ان ہستیوں کے قرض کبھی نہیں ادا کیے جا سکتے اور میں نے کئی بار اپنے کالموں میں ان موضوعات پر دل کھول کر لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا، مگر آج میں کچھ ایسے گمنام کرداروں کی خدمات، دعائوں اور احسانات کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جو کب کے منوں مٹی تلے جا سوئے۔ برسوں قبل وہ آسودہ خاک ہو گئے مگر ان کا میری زندگی میں بالخصوص زمانہ طالب علمی کے ایام میں نمایاں کردار رہا۔ اگر آپ بھی بطور طالب علم ہاسٹل میں رہائش پذیر رہے ہیں تو آپ یقینا ان کرداروں سے بخوبی واقف ہوں گے جو اس زمانے میں بھی ہمیں ''صاحب جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے جب ہم کچھ بھی نہیں تھے۔ ہمارے پاس محض خواب تھے، امنگیں تھیں، کچھ بڑا کرنے کے منصوبے اور زندگی کو بامقصد بنانے کی جستجو تھی، اس کے علاوہ ہمارا دامن خالی تھا، ظاہری طور پر ہمارے پاس کچھ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر ہمیں ''صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جا سکے۔
میں سب سے پہلے آٹھویں جماعت کے سالانہ امتحانات سے قبل چند ماہ تیاری کے سلسلے میں دیگر ہم جماعت طلبہ کیساتھ اپنے مڈل سکول کے ہاسٹل میں قیام پذیر ہوا تو وہاں ہمارا کھانا پکانے کی ذمہ داری ''چاچا ایوب‘‘ کے پاس تھی جن کے ہاتھ میں اتنی لذت تھی کہ جیسے ماں کے ہاتھوں کا پکا ہوا کھانا ہو۔ اسی نسبت سے ان کا نام ''ایوب اماں‘‘ پڑ گیا تھا۔ وہ بجا طور پر ہم سب کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھتے اور صبح، دوپہر، شام تین مرتبہ وہ ہمارے لیے طرح طرح کے کھانے پکاتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہیں دال سے کافی رغبت تھی کیونکہ تقریباً ہر کھانے میں دال کی شمولیت لازمی تھی یا شاید ہماری سکول انتظامیہ کی جانب سے مختص کردہ بجٹ کے مطابق دال ہی مستحکم معیشت کی ضمانت تھی۔ یہ سب راز و نیاز کی باتیں اس وقت ہماری دسترس میں نہیں تھیں اور نہ ہی ان میں ہمیں کوئی خاص دلچسپی تھی۔ البتہ کچھ شرارتی طلبہ 'ایوب اماں‘ پر یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ اچھی بوٹیاں خود تناول فرما لیتے ہیں اور ہماری قسمت میں محض مرغ کی گردن رہ جاتی ہے۔ مجھے دوستوں کی اس نکتہ چینی پر ہمیشہ اعتراض رہتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ''ایوب اماں‘‘ کے لال سرخ گال ان دوستوں کے شکوک و شبہات کو تقویت دینے کے لیے کافی تھے۔ خیر‘ ہم آٹھویں کا امتحان دینے کے بعد ہاسٹل سے اپنے گھروں میں واپس آ گئے اور اب ہماری اگلی منزل ہائی سکول بھوانہ ٹھہرا۔
میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج جھنگ کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کی تو ہاسٹل میس کے جملہ انتظام و انصرام سے لے کر کھانا پکانے تک کی ذمہ داری ''چاچا صوفی‘‘ کے پاس تھی۔ وہ کھانا پکانے سے پہلے روزانہ جھنگ کی منڈی میں جایا کرتے اور وہاں سے تازہ سبزیاں اور دیگر اشیائے خور و نوش رکشہ پر لاد کر واپس لوٹتے۔ ہمیں کلاس رومز میں دورانِ تعلیم رکشے کی آواز سنائی دیتی تو ہمیں فوراً اندازہ ہو جاتا کہ ''چاچا صوفی‘‘ ہمارے کھانے کا ساز و سامان لے کر پہنچ گئے ہیں۔ شام کو بھوک ستاتی اور کھانے میں کچھ دیر ہو جاتی تو ہم ڈائننگ ہال کے عقب میں واقع بڑے کچن میں ''چاچا صوفی‘‘ کے اردگرد جمع ہو جاتے اور انہیں کھانا جلد پکانے پر مجبور کرتے رہتے۔ وہ بھی ہماری حالتِ زار دیکھ کر بڑے بڑے دیگچوں میں چمچ ہلانے کی رفتار تیز کر دیتے تا کہ ہمیں کچھ تسلی مل جائے کہ وہ اپنے فرائض سے ہرگز غافل نہیں ہیں۔ یوں دو سال ''چاچا صوفی‘‘ ہماری ماں بن کر ہمیں پالتے رہے اور کبھی بھی ان کے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں آئی۔
اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہاسٹل آن پہنچا تو یہاں سیف انور بھائی پہلے سے قیام پذیر تھے اور ان کا خاص ''خدمت گار‘‘ چاچا شفیع کو پایا جنہیں عرفِ عام میں ''شفیع بجلی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ انتہائی پھرتیلا، مستعد اور فرمانبردار قسم کا ملازم تھا جو ہمیشہ ''جی! صاحب جی‘‘ اور ''میں آیا‘‘ کی صدا لگاتا اور پھر اگلے لمحے ہی شفیع بجلی ہمارے سامنے موجود ہوتا۔ اس کی برق رفتار سروس کا اصل امتحان میس میں دوپہر کے کھانے کے دوران شروع ہوتا جب ہم کھانے کی میز پر گرم روٹی کا مطالبہ کرتے۔ اس وقت چاچا شفیع واقعی ''بجلی‘‘ بن کر ہمارے سامنے گرما گرم روٹیاں پیش کرتا رہتا۔ مگر ہمارے کچھ احباب گرم روٹی کو دو چار نوالوں میں ہی ہڑپ کر لیتے تو چاچا شفیع بھی اپنی روایتی برق رفتاری کو برقرار نہ رکھ پاتا۔ کریز پر زیادہ دیر تک موجود رہ کر بڑا سکور کرنے والے بیٹسمین کی طرح اس کے قدم بھی بوجھل ہو جاتے تو اس کا آخری جواب یہ ہوتا کہ ''صاحب جی! میس شام نوں وی کھلنا اے‘‘ اس کا صاف مطلب تھا کہ بس کرو اور باقی روٹی شام کو کھا لینا۔ چاچا شفیع اور ان کی ساری پھرتیاں آج بھی میرے دل و دماغ پہ نقش ہیں۔
بعد ازاں ایم اے انگلش کے دوران پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں واقع خالد بن ولید ہال میں مقیم ہوا تو میری خدمت کی ذمہ داری ''بابا سائیں‘‘ کے سپرد ہو گئی۔ وہ بظاہر ''سائیں‘‘ طبیعت کے انسان تھے۔ انتہائی سادہ، سچے، بے لوث مگر اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرنے والے ایک مضبوط کردار کے مالک۔ ان کا اوڑھنا بچھونا مجھ سمیت وہ چند طلبہ تھے جن کی دیکھ بھال ''بابا سائیں‘‘ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ جوتے پالش کرنے سے لے کر کپڑوں کو دھلوا کر، استری کروا کر ہینگر پر لگانا اور پھر سارا دن کینٹین کے پھیرے لگانا ان کی صبحوں کو شام میں بدل دیا کرتے تھے۔ ''بابا سائیں‘‘ کو ہمارے کھانے کی سب سے زیادہ فکر لاحق رہتی تھی اور ان کی اولین ترجیح یہ ہوتی کہ میس کھلتے ہی ہم اوپننگ بیٹسمین کی طرح میچ کا آغاز کریں اور آخری اوور تک کریز پر جمے رہیں۔ میرا کمرہ ہاسٹل کے فسٹ فلور پر واقع تھا مگر وہ اپنی عمر اور صحت کی پروا کیے بغیر جانے کتنی مرتبہ آوازیں لگاتے ہوئے آتے کہ ''صاحب جی! جلدی کرو میس بند ہونے والا ہے‘‘ حالانکہ میس کھلتے ہی سب سے پہلی آواز ''بابا سائیں‘‘ ہی کی ہوا کرتی تھی۔ رمضان المبارک کے دنوں میں سحری کے وقت ''بابا سائیں‘‘ ہر پندرہ منٹ بعد میرے کمرے کے دروازے پر اس قدر زور سے دستک دیتے کہ مجھے لگتا کہ دروازہ ٹوٹ کر سیدھا میرے بستر پر آ گرے گا۔ صبح دو بجے سے شروع ہونے والی ان کی آوازیں سحری کے آخری دس منٹ تک جاری رہتیں‘ تب جا کر ''بابا سائیں‘‘ کو کامیابی ملتی اور میں سحری کے لیے میس جا پہنچتا۔وہ بے چینی، وہ اضطراب، وہ فکر، وہ احساس، وہ تڑپ، وہ احساسِ ذمہ داری، وہ اخلاص، وہ وفا، وہ بے لوث جذبات دراصل ایک مامتا کے سارے روپ تھے جو ''بابا سائیں‘‘ کی شخصیت و کردار میں نمایاں طور پر موجود تھے۔
شاید اس وقت مجھے اور دیگر طلبہ کو‘ جن کی خدمت پر ''بابا سائیں‘‘ مامور تھے‘ ان کی ان صفات کا ادراک نہ ہوا ہو یا ہم اسے زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوں مگر اب خود غرضی، لالچ، حرص و ہوس، طمع، دھوکا، فراڈ، مکر و فریب اور محض ذاتی مفاد کو مقدم رکھنے والے انسانوں کے اس ہجوم میں ''ایوب اماں‘‘، ''چاچا صوفی‘‘، ''شفیع بجلی‘‘ اور ''بابا سائیں‘‘ جیسے عظیم لوگ مجھے رہ رہ کر یاد آتے ہیں جو دراصل ایسے زمانوں کی پیداوار تھے جو اب کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ میں اکثر گوشہ تنہائی میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں ''صاحب جی‘‘ کہنے والے بظاہر وہ عام سے لوگ درحقیقت بڑے لوگ تھے جن کی بے لوث دعائوں، بیش قیمت خدمات اور بے پناہ احسانات کا قرض ہم کبھی بھی ادا نہیں کر پائیں گے کیونکہ کچھ قرض آپ چاہ کر بھی ادا نہیں کر سکتے۔