سائنس دان اور سیاست

1960ء کے عشرے میں یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کے دانشور طبقوں میں ایک انتہائی دلچسپ بحث چلی تھی کہ ایک سائنس دان کا دنیا اور معاشرے میں کیا مقام اور مرتبہ ہے۔ اس دلچسپ بحث میں سوالناموں کی شکل میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں فلسفیوں کا مقام موجود ہے۔ دانش وروں‘ ادیبوں اور شاعروں کا مقام موجود ہے۔ فنکاروں، معماروں اور مصوروں کا مقام موجود ہے۔ تاریخ دانوں اور قانون دانوں کا مقام موجود ہے۔مگر سائنس دانوں کے بارے میں دنیا میں ایسی کوئی متفقہ رائے موجود نہیں ہے جس پر سائنس دانوں کی عظمت اور ان کے مقام کا تعین کیا جائے۔ سائنس دانوں کے بارے میں لوگوں میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کارآمد علمی نوعیت کی بحث کا سلسلہ انگریزی کے معروف جریدے ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھنے میں آتا تھا۔ اس سلسلے میں سائنس دانوں کے خلاف تمام مذہبی حلقوں کی رائے تھی کہ سائنس دان ملحد اور کافر ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ خدا کو نہیں مانتے۔ اس کے برعکس دنیا کے مختلف ممالک کے دانشوروں کی رائے سائنس دانوں کے حق میں تھی۔ ان کے اقوال زریں یہ تھے کہ اس کائنات کے تمام فلکی اور ارضی نظام کی اصل حقیقت کو سائنس دانوں نے ہی دریافت کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ترقی عروج کے لیے جو ایجادات سائنس دانوں نے ایجاد کی ہیں ان کی مثال دنیا کے باقی تمام علوم میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ سائنس دان اس کائنات کے اصل راز داں ہیں۔ یہ زندگی کی ہر ایک ہیئت اور ماہیت سے واقف ہیں۔ کائنات کے چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتے ہیں۔ ان کا مقام ولیوں اور قطبوں کا سا ہے۔یہ فطرت شناس اور مسیحا صفت لوگ ہیں۔ ان کا مقام دنیا اور معاشرے میں سب سے بلند ہے۔ سائنس دانوں کو مسیحا اور قطب کہنے والوں سے کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ جاپان کے شہر ناگا ساکی اور ہیروشیما پر جو گزری‘ اس کے بارے میں آپ لوگوں کا کیا خیال اور رائے ہے۔ ان دونوں شہروں پر گرائے گئے ایٹم بم سائنس دانوں کے ہی تو بنائے ہوئے تھے۔ ان دونوں شہروں میں انسانیت پر جو قیامت گزری تھی اس کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کی مختلف تاویلیں کی تھیں مگر بیسویں صدی کے ممتاز فلسفی اور دانشور لارڈ برٹرینڈ رسل کا جواب تھا کہ ایٹمی قوت حاصل کرنا‘ ایٹم کو تسخیر کرنا‘ انسانی فکر کی ترقی کا کمال تھا مگر اس قوت کو انسانی زندگی کی تخریب کاری کے لیے استعمال کرنا ایک حیوانی اور شیطانی کام تھا۔ ایک غیر انسانی فعل تھا۔ ایک انتہائی قابل مذمت حرکت تھی۔ ایک ناقابل معافی جرم تھا۔برٹرینڈ رسل نے کہا کہ جاپان کے شہروں پر ایٹم بم سائنس دانوں نے نہیں‘ بلکہ امریکہ کے حکمرانوں نے گرائے تھے۔ میں برٹرینڈ رسل کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہوں گا کہ جاپان کے شہروں پر ایٹم کی تباہ کاری کا سب سے زیادہ اور سب سے بڑا صدمہ امریکہ کے ہی سائنس دان جوڑے پر گزرا تھا جن کا نام اینل روزن برگ تھا۔ اس میاں اور بیوی سائنس دان جوڑے نے امریکی سامراج کی ایٹمی قوت کو توازن میں لانے کے لیے ایٹم بم بنانے کا راز سوویت روس کو دے کر دنیا میں ایٹمی قوت میں توازن پیدا کردیا تھا۔ اس سائنس دان جوڑے کا یہ انسان دوست کردار انسانی تاریخ کا عظیم ترین کارنامہ تھا‘ جس کی اس عہد میں تمام انسانیت ممنون تھی۔ جس کردار کی پاداش میں ان میاں بیوی کو امریکی قوم نے غدار قرار دے کر باقاعدہ عدالتی حکم سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میاں بیوی کا سوویت روس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا۔ انہوں نے جو کچھ کیا تھا انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے کیا تھا۔ سامراجی طاقت کی عالمی دہشت گردی کو لگام ڈالنے کے لیے کیا تھا۔ ایٹمی قوت کے استحصالی نظام کو ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔اس دنیا میں جس شخص کو بھی سائنس دان ہونے کا دعویٰ ہو‘ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان سائنس دان میاں بیوی کے کردار سے ایک سائنس دان کی عظمت کا سبق حاصل کرے۔ اپنے ملک کے سائنس دان کے بیانات پڑھ کر میرے کان پک گئے ہیں کہ میں نے ایٹم بم بنایا ہے۔ میں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ پاکستان کا ایٹم بم بنانے میں ڈاکٹر قدیر کا ہاتھ ضرور تھا‘ مگر یہ بات ہرگز تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ ایٹم بم بنانے والے تنہا ڈاکٹر قدیر ہی تھے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے سائنس دانوں کی ایک پوری ٹیم تھی۔ اس معاملے میں ڈاکٹر قدیر کا کردار کتنا بھی اہم ہو ان کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ہرگز ہرگز خالق نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق صرف اور صرف شہید ذوالفقار علی بھٹو تھے اور بقول فیض احمد فیض جنہیں جرم عشق پر ناز تھا‘ وہ گناہ گار چلے گئے۔ ایٹم بم کے معاملے میں صرف انہی کو عبرت کی مثال بنانے کی دھمکی دی گئی تھی اور ان کو پھانسی پر لٹکا کر عبرت کی مثال بنا دیا گیا تھا۔ قارئین موجودہ دنیا میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، اسرائیل، کینیڈا اور ہندوستان کے پاس ایٹم بم ہے۔ ان تمام ممالک کے ایٹم بم پر ان ممالک کے سائنس دانوں نے ہی بنائے تھے۔کیا آج تک ایسی کوئی مثال ہے کہ ان ممالک کے کسی ایک بھی سائنس دان نے کبھی یہ اعلان کیا ہو کہ وہ ایٹم بم کا خالق ہے۔ کیا اسرائیل یا ہندوستان کے کسی سائنس دان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیل یا ہندوستان کا ایٹم بم بنایا ہے؟ کیا ان سائنس دانوں نے اپنے ملک اور قوم پر کبھی احسان جتلایا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کے ایٹم بم بنانے والے سائنس دانوں کا آج تک کوئی نام تک نہیں جان سکا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ برطانیہ کا ایٹم بم کس سائنس دان نے بنایا تھا۔ شاید اسی لیے آج تک دنیا کے کسی سائنس دان پر یہ الزام لگ سکا ہو کہ اس نے کسی دوسرے ملک کو ایٹمی سامان فراہم کرنے کی کوشش کی۔ دنیا کے کسی سائنس دان نے آج تک سیاست میں حصہ لینے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے کوئی سیاسی جماعت کبھی بنائی۔ کسی سائنس دان نے اپنی قوم سے ملک کا صدر اور وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں کی۔ جبکہ ہمارے موصوف سائنس دان پاکستان میں باقاعدہ سیاست کررہے ہیں۔ سائنس دان قوموں کے راز دان ہوتے ہیں، دیش بھگت ہوتے ہیں۔ ان کے ہدف دولت، شہرت اور وزارت نہیں ہوتے۔ ان کا ہدف کائنات کو تسخیر کرنا ہوتا ہے۔ خلائوں کو تسخیر کرنا ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کو کمال و معراج پر پہنچانا ہوتا ہے۔ صرف ایک ایٹم بم بنانا ہی تو سائنس دان کے لیے قابلِ فخر کام نہیں ہوتا۔ سائنس دان ولی اور قطب ہوتے ہیں۔ ان کے منہ میں زبان نہیں ہوتی‘ ان کے پاس صرف دماغ ہوتا ہے یا سینے میں دلِ پُرشوق۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں