ہماری قومی سیاست کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں سیاست کے بنیادی ادارے ہی پروان نہیں چڑھ سکے۔ دنیا بھر کے سیاسی نظام میں بلدیاتی ادارے سیاست میں حصہ لینے والوں کے لیے پرائمری سکول کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مصیبت یہ ہوئی کہ فوجی آمریت پاکستان کے اقتدار کا لازمی حصہ بن گئی، اور آمریت خواہ کسی نوع کی ہو، اس کا سیاسی اور سماجی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فوجی آمریت ہمیشہ ہر کام غیر سیاسی انداز میں کیا کرتی ہے، یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں ہر فوجی ڈکٹیٹر بنیادی جمہوریت کے اداروں کے انتخابات ہمیشہ غیر جماعتی بنیادوں پر کراتا تھا،کیونکہ معاملہ یہ تھا کہ غیر جماعتی انتخابات میں نہ تو قومی سیاست کا تصور ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاست کا بنیادی نظریہ اس میں شامل ہوتا ہے ،بلکہ بھان متی کا کنبہ سا کامیاب ہو کر بلدیاتی اداروں میں پہنچ جاتا ہے، جن کی نہ کوئی سیاسی منزل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی موقف ۔ غیر سیاسی اور غیر نظریاتی قسم کے ارکان کے ریوڑ کو سرکاری افسران جس طرف چاہتے ، ہانک کر لے جاتے تھے۔ پاکستان کے تمام فوجی ڈکٹیٹر غیر جماعتی بلدیاتی اداروں کے بل پر ہی پاکستان پر راج کرتے رہے ہیں۔ تیسرا فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق تو غیر جماعتی انتخابات میں دوسروں سے بھی کئی ہاتھ آگے چلا گیا تھا۔ اس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کروا کے قومی جمہوری سیاست کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا اور پاکستان کی قومی سیاست میں کرپشن کا زہر گھول دیا تھا۔پاکستان کے حکومتی اور سیاسی اداروں میں آج کل جو کرپشن ، بے راہ روی اور لاقانونیت نظر آرہی ہے، یہ جنرل ضیاالحق کے غیر جماعتی انتخابات ہی کی پیداوار ہے۔ پھر پاکستان کے منتخب حکمرانوں کا جو شاہی طرز عمل دیکھنے میں آرہا ہے، یہ بھی ان کی اسی غیر سیاسی تعلیم کا نتیجہ ہے ۔ غیر جماعتی قسم کے انتخابات تو فوجی آمروں کی ضرورت ہوتے تھے کہ ان کو سیاست اور سیاسی جماعتوں سے خوف لاحق تھا مگر آج کے منتخب حکمران کس لیے جماعتی بلدیاتی انتخابات سے گریزاں ہیں۔ فوجی آمروں کو شریف سیاسی کارکنوں یا قوم کے خادموں کی نہیں، بلکہ غنڈوں اور پولیس کے ٹائوٹوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ظاہر ہے کہ ان کو ایسی ’’خوبیاں‘‘ جماعتی انتخابات میں کامیاب ہونے والوں سے تو میسر نہیں آ سکتی تھیں، چنانچہ ان کی غیر جماعتی انتخابات کرانے کی سازش یا مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے، موجودہ منتخب حکمران کیوں فوجی آمروں کی نقل کر رہے ہیں؟جبکہ وہ قوم سے اپنی جماعت کے اور اپنی جماعت کے منشور کے نام پر ووٹ حاصل کرکے ایوان اقتدار میں پہنچے ہیں۔ آج کے منتخب وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کے عہدوں پر فائز حکمران قانونی اور اخلاقی طور پر غیر جماعتی انتخابات نہیں کروا سکتے۔ سیاست کا کوئی اصول ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پاکستان میں غیر سیاسی اور غیر جماعتی سیاست کو رائج کریں۔ سوچنے کی بات ہے کہ قوم نے اگر ان کو مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالے ہیں تو بلدیاتی انتخابات میں کیوں نہیں ڈالے گی۔ آخر وہ کون سا خوف ہے جو بلدیاتی اداروں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے سے روک رہا ہے؟ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اپنی قوم پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر ان کو قوم پر اعتماد نہیں ہے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ دھاندلی سے حکمران بنے ہیں؟ آخر وہ غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والا کوڑا کرکٹ کیوں اکٹھا کرنا چاہتے ہیں؟ انہیں ماضی کے غیر جماعتی انتخابات سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جن کی وجہ سے پاکستان کے معاشرے اور سماج میں قانون اور اصولوں کی سیاست کی روایات ناپید ہوتی گئیں اور آج اجتماعی سیاسی شعور کا بے حد فقدان ہے۔ بلدیاتی انتخابات پرائمری سکول کی طرح ہوتے ہیں۔ امیدوار منتخب ہو کر اپنی جماعت کے نظریات کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ تربیت پاتے ہوئے ایک محلے اور شہر کی سیاست اور قیادت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست سکھانے اور قیادت پیدا کرنے کے اس بنیادی ادارے کے نہ ہونے کی وجہ سے ہی اکثر ممبران میںتجربہ اور تدبر نظر نہیں آتا، اس لیے وہ سڑکیں بنانے، صفائی کروانے، پل بنوانے اور انڈر پاس بنوانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو اس بات کا ہرگز علم نہیں کہ ان کا منصب آئین اور قانون بنانااور ملک و قوم کے تمام اداروں کی قیادت کرنا ہوتا ہے۔گلیاں صاف کرانا بلدیاتی اداروں کا کام ہے، جن سے ہمارے حکمران خوف کھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہر طرح کے غیر جماعتی انتخابات، وہ قومی سطح کے ہوں ، صوبائی یا بلدیاتی سطح کے ،جمہوریت اور قومی یک جہتی کے خلاف ایک سازش ہوتے ہیںاور قوم کے اجتماعی تشخص کو مجروح کرتے ہیں ۔ان سے قوم کا شیرازہ بکھرنے کا عمل تیز تر ہوجاتا ہے اور غیر یہ قوم کو علاقوں ، نسلوں ، زبانوں، قبیلوں ، برادریوں اور دھڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس قسم کے انتخابات میں کوئی اصول ،کوئی ضابطہ پیش نظر نہیں ہوتا،کوئی اجتماعی مقصد یا تعمیری سوچ کارفرما نہیں ہوتی ،چنانچہ ایسے انتخابات سراسر شخصی اور ذاتی بن کرپوری قوم کو بے اصول بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں فوجی آمریتیں غیرجماعتی انتخابات کا زہر اس حد تک پھیلا چکی ہیں کہ ہمارے قومی انتخابات میں بھی غیر جماعتی انتخابات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ منتخب سیاسی رہنمائوں کے رویے غیر جماعتی سیاست کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ آج پاکستان پر ن لیگ کی حکومت ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے حکمرانوں کے مزاج میں بھی غیر جماعتی انتخابات کے اثرات موجود ہیں۔ دنیا میں کوئی جمہوری آئین کسی جمہوری حکمران کو غیر جماعتی انتخابات کروانے کی اجازت نہیں دیتا۔غیر جماعتی نمائندے ہمیشہ خریدے جاتے ہیں۔ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے ہوں گے تاکہ منتخب ہونے والے لوگ اپنی اپنی جماعت کے اصولوں کے کار بند رہیں اور ملک میں اصولوں کی سیاست کو تقویت ملے۔ اگر غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے تو یہ سیاسی عمل میں کرپشن کے مترادف ہوں گے۔ سخن برائے سخن ہے، یہ کیا تماشا ہے نہ کوئی علم نہ فن ہے، یہ کیا تماشا ہے