ڈالر ڈاکے کی کہانی

قارئین راجہ رینٹل سے جان چھوٹی تھی کہ اسحاق ڈار گردن پر سوار ہو گئے۔ ہمارے ساتھ کفن اور کلیّ والی بات ہو گئی ہے یعنی کفن چور گئے ہیں تو کلے والے آ گئے ہیں۔ خدا گواہ میں نے لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ کفن والے بہتر تھے۔ صدر آصف علی زرداری کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ڈالر 62 روپے کا تھا۔ زرداری صاحب چونکہ پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے موجد ہیں پس انہوں نے اپنی حکومت کی ابتدا بھی (ن) لیگ کے ساتھ مفاہمت سے کی اور انہیں اقتدار میں شریک کر لیا۔ اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلمدان ملا۔ موصوف نے وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر آئی ایم ایف کی شرط پوری کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت یک دم 62 روپے سے 65 روپے اور پھر چند دن بعد 68روپے کر دی۔ ڈالر کی قیمت اچانک بڑھانے سے زرداری حکومت کا سنگھاسن ڈول گیا۔ لوگ بلبلا اور تلملا اٹھے۔ خدا کا شکر کہ میاں نواز شریف کے‘ زرداری حکومت کے ساتھ چند ہی دنوں میں اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی‘ یوں اسحاق ڈار سے قوم کی جان چھوٹ گئی۔ مگر اب جان چھوٹنا ممکن نہیں کہ اب تو حکومت ہی اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کا آغاز ہی پانچ سو ارب روپے کے ’’ٹیکے‘‘ سے کیا۔ یہ پانچ سو ارب روپیہ آئی ایم ایف کو دیا گیا تاکہ مزید قرضہ حاصل کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ پانچ سو ارب روپیہ بغیر کسی حکومتی آڈٹ کے دیا گیا جو ایک طرح سے حکومتی ’’ڈاکے‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت میں ڈالر کی قیمت میں تین ماہ کے عرصے میں اضافے کی بڑی وجہ بیک وقت پانچ سو ارب روپے کے ڈالر خریدنے سے ہوئی۔ ہماری قومی بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے تمام سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے اکائونٹ پاکستانی کرنسی میں نہیں‘ ڈالروں میں ہیں۔ پاکستان کی کرنسی میں کمی کرنے کا یہ طریقہ ملکی معیشت کے لیے بلٹ شاٹ ثابت ہوا۔ اس طرح صرف آئی ایم ایف کو ہی فائدہ نہیں پہنچایا گیا بلکہ ہمارے ان حکمرانوں کے بھی وارے نیارے ہو گئے جن کے اکائونٹ ڈالروں میں ہیں۔ حکومت اور اس کے نام نہاد اقتصادی ماہرین نے آئی ایم ایف کے ساتھ مزید قرضہ لینے کی جن شرائط کو تسلیم کیا ہے وہ ملک و قوم کے ساتھ خیانت کا درجہ رکھتی ہیں۔ قرضہ لینے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام کی تمام شرائط تسلیم کر لی گئیں۔ جس ملک اور قوم کو گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا‘ معاہدہ میں اس کے تحفظ کا کوئی ذکر نہیں۔ معاہدہ کرتے وقت ظلم یہ ہوا کہ تسلیم کر لیا گیا کہ یہ قرضہ حاصل کرنے کے تمام عمل میں سٹیٹ بنک کے چیئرمین کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ وہ آئی ایم ایف کے معاملات میں دخل ہی نہیں دے سکے گا۔ یعنی آئی ایم ایف جو چاہے کرے‘ اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف ایک سامراجی کاروباری سودخور ادارہ ہے، جس کی نظر صرف منافع پر ہوتی ہے۔ وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایک اژدہے کی ہے جو ہر شے نگل جایا کرتا ہے پاکستان کا کیا حال ہو گا۔ اس کا ہمیں اندازہ کرنا چاہیے۔ افسوس کہ ہم قومی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کے احساس سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ جب معاہدے میں چیئرمین سٹیٹ بنک کو بے معنی بنا دیا گیا تھا تو چیئرمین صاحب کو ملک و قوم سے زیادتی کے اس جرم میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا اور مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ بات یہ ہے کہ ڈالروں میں اکائونٹ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے ہیں؛ البتہ اس ’’شغل‘‘ میں سب سے زیادہ متاثر نوے فیصد عوام ہوئے ہیں‘ جن کے اکائونٹ روپوں میں ہیں جن کا سو روپے کا نوٹ دس روپے کم ہو کر 90روپے کا رہ گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان میں تمام سبسڈیز ختم کر دی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال کے عرصے میں ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے نوٹ چھاپے تھے۔ موجودہ حکومت نے ایک خبر کے مطابق آٹھ سو ارب روپے کے نوٹ چھاپ کر ڈالر خریدنا شروع کئے تھے۔ جس کی وجہ سے ڈالر مافیا نے بازار سے ڈالر غائب کر دیئے تاکہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے۔ ڈالر مافیا اپنے حربے میں کامیاب ہو گیا اور ڈالر بازار میں 109روپے تک پہنچ گیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے یہ بھی خیال نہ کیا گیا کہ ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے اشیائے ضرورت کی قیمت میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا۔ کیا حکمران نہیں جانتے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بڑھتے ہی زندگی کی ضرورت کی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ پونے چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت چار بار بڑھائی جا چکی ہے اسی طرح بجلی کی قیمت میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا ہے کہ کوئی غریب بجلی کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھنے کا فائدہ بھی سرمایہ داروں کو ہوا۔ آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنے اور مزید قرضہ حاصل کرنے کے لئے حکومت نے آسان راستہ تلاش کر لیا ہے کہ ہر ماہ بجلی اور گیس اور پٹرول کی قیمت بڑھا کر قرضہ حاصل کر لیا جائے۔ آج بیس کلو آٹے کے تھیلے میں 150روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ روٹی چھ روپے اور سات روپے میں بک رہی ہے۔ دودھ ،چینی، سبزیاں دالیں لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ گوشت انڈہ کھانا تو اب عوام کے نصیب میں ہی نہیں۔ کردار و عمل کے لحاظ سے آمریت اور جمہوری حکومت میں کوئی فرق نہیں رہا۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کر کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔پڑوسی ملک بھارت میں پٹرول سات روپے سستا کر دیا گیا ہے‘ جو واضح کر دیتا ہے کہ قوم پرست حکمرانوں اور آئی ایم ایف کے تابع فرمان حکمرانوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ غریب عوام ایسے حکمرانوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں رکھ سکتے ؎ کیوں نظر آتے نہیں ان کو بلکتے بچے حکمرانوں میں کوئی صاحبِ اولاد نہیں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں