مشرقِ وسطیٰ میں شخصی حکمرانی اور پاکستان میں الیکشن کے مستقبل پر ایک جیسی بحث ہو رہی ہے۔
آج ملک میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے، کیا الیکشن ہو گا...؟ عمران خان سے تازہ ترین ملاقات میں ایسے ہی سوالات گفتگو پر چھائے رہے۔ عدلیہ کے سارے ٹاک کارنرز میں بھی یہی سوال زیرِ بحث ہے۔ پہلے آیئے دیکھتے ہیں‘ یہ سوال اصل میں ہے کیا؟ اس سوال کے کئی حصے ہیں۔
پہلا: الیکشن نہیں ہو گا۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت آئے گی۔ لمبا یعنی با معنی احتساب ہو گا۔ دھلائی، صفائی اور ستھرائی کے بعد جمہوریت یوں طلوع ہو گی جس طرح پلاسٹک سرجری کے بعد عمر رسیدہ فنکارہ جلوہ گر ہوتی ہے۔
دوسرا: الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہو گا‘ جس میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستیںکم ہو جائیں گی۔ وفاقی دارالحکومت‘ کے پی کے اور بلوچستان جیسے چھوٹے یونٹ میں سیٹوں کی نئی تقسیم سے فائدہ اُٹھائیں گے۔
تیسرا: کچھ آ رہا ہے۔ لیکن خفیہ ہاتھوں کی طرف سے۔ مگر نام لیوا ان کی نشان دہی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اگر سارے خیال اور گھوڑے دوڑا لیے جائیں تو تین خفیہ ہاتھ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
پہلا خفیہ ہاتھ بیرونی ہے۔ ممکنہ طور پر بیرونی خفیہ ہاتھ 2 جگہ سے ہلایا جا سکتا ہے۔ پہلا سعودی عرب، جہاں آلِِ سعود میں سے آلِ سعود نے ہی کرپشن کے مُلزم ڈھونڈ نکالے ہیں۔ حکمران خاندان کے درمیان ''گیم آف تھرون‘‘ پہلی بار کُھل کر سامنے آئی۔ دو اہم ترین شخصیات کے جوان بیٹے مبینہ طور پر جان سے گئے۔ دستیاب رپورٹس کے مطابق 15000 شہزادوں میں سے بہت سارے بارڈر کراس کر چُکے ہیں۔ اگر دستیاب تفصیلات ایک طرف رکھ دی جائیں تو کم از کم اتنا ضرور کہنا پڑے گا کہ آلِ سعود اپنے طویل اقتدار کے سب سے گمبھیر بحران سے دوچار ہے۔ مسائل کی اس فُل پلیٹ کے ساتھ آلِ شریف کی وکالت کون کرے گا‘ اور وہ بھی کرپشن کے خلاف خون آشام بیانیہ سامنے لائے جانے کے بعد۔ دوسرے بیرونی ہاتھ کا نام لیتے ہی دھیان فوراً امریکہ کی طرف چلا جاتا ہے۔ آلِ شریف کی بابرکت کمائی دُنیا میں جہاں جہاں پہنچی‘ حکمرانوں پر الزامات کی بارش ہو گئی۔ آلِ شریف کمر باندھ کر سب سے پہلے قطر میں داخل ہوئی۔ حمد بن جاسم نامی قطری شہزادے نے 2 بیانِِ حلفی دے کر آلِ شریف کو بچانے کی ایسی حرکتِ شریف کی کہ خود اُسی الزام کی زد میں آ گئے۔ شریفانہ تجارت سعودی عرب میں بھی اسی شان سے داخل ہوئی‘ جس کے نتیجے میں اصلی شہزادے اپنے کزن کی جیل میں جا پہنچے۔ شریفانہ کمائی نے برطانیہ میں بھی رنگ جمایا‘ جس کی برکت سے ملکہِ برطانیہ 92 سال کی عمر میں الزامات کی زد میں آ گئیں۔ ٹلرسن نے شریفوں سے پہلی ملاقات میں ہی وہ رُتبہ حاصل کر لیا جو باقیوں کو سال ہا سال کے تعلقات کے بعد مل پایا۔ ان حالات میں امریکہ کے بڑے اپنا دفاع کریں گے یا پاکستان میں کرپشن کے بڑے گھرانے کا۔ تیسرے نمبر پر میڈ ان پاکستان‘ اندرونی ہاتھ آتا ہے۔ اس وقت شریف سرکار کے نااہل لیڈر اندرونی ہاتھ کا ذکر تو کرتے ہیں‘ لیکن بے چاروں، پاناما کے ماروں میں ہاتھ کا نام لینے کی ہمت نہیں۔ چھ سات فل ٹائم کرپشن کے دفاعی وزرا اور 15سے 30 کے درمیان خواتین و حضرات کارکنوں کا سمندر شریف خاندان کی پیشی پر باہر نکلتا ہے۔ پاناما کے ملزم پوری کوشش میں ہیں کہ ٹکر مارنے کے لیے انہیں کوئی کھمبا مل جائے‘ لیکن کھمبا اس وقت ٹکر مارنے کے موڈ میں نہیں لگتا۔ اس لیے جاری ہفتے پلان بی پر عمل شروع ہوا۔ سب سے پہلے مردم شماری کے نتائج کو سبوتاژ کرنے کا
خطرناک کھیل کھیلا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جو آئینی ترمیم کے لئے بلایا گیا تھا‘ اس میں حکمران سائیڈ کے 200 سے زائد ارکان‘ اسمبلی میں آئے ہی نہیں۔ اس کے 2 مطلب ہو سکتے ہیں۔ پہلا: یہ چڑیاں کھیت چُگ کر اڑ گئی ہیں۔ دوسرا: یہی کہ حکومت نے اپنے ارکان کو شرکت سے خود منع کیا تاکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی آئینی ترمیم کی ڈیڈ لائن پوری نہ ہو سکے‘ جو 10 نومبر تھی‘ اور آج ختم ہو رہی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے شرکا میں سے کچھ معتبر ناموں سے میری بات ہوئی۔ کہنے لگے: جب ہم نے اسمبلی کے جاری اجلاس کو ملتوی کرنے پر احتجاج کیا تو سپیکر نے کہا: اجلاس میں نے ملتوی نہیں کیا‘ بلکہ التوا کا صدارتی حکم نامہ آ گیا تھا۔ ایاز صادق صاحب کو کون بتائے کہ ملک میں ایک وزارتِ پارلیمانی امور بھی ہے‘ جس کا کام ہی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلانے یا انہیں ملتوی کرنے کی سمری بنانا ہوتی ہے‘ جو وزیرِ اعظم منظور کرتا ہے‘ اور صدر اس سمری پر دستخط کرنے کا پابند ہے۔ اس کے بعد بھی گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے پارلیمانی میٹنگ کا ناٹک کھیلا گیا۔ پھر خبر آئی کہ ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ جب حکمرانوں کی نیت خراب ہو اور وہ حالات خراب کرنے پر تُل جائیں تو ایسے میں ڈیڈ لاک بڑھ تو سکتا ہے‘ ختم نہیں ہوتا۔ 2 حکمران خاندانوں کو اس ڈیڈ لاک کے مالکان سمجھ لیں۔ دونوں کو ایک ہی خطرہ ہے کہ کہیں وقت پر الیکشن نہ ہو جائیں۔ ڈیڈ لاک کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب تک مردم شماری کے نتائج شائع نہیں ہوتے‘ انتخابات منعقد نہیں ہو سکتے۔ اس مسئلے کا حل آئین کے اندر ہی آرٹیکل 254 میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
"when any act or thing is required by constitution to be done within particular period and it is not done with in that period ,the doing of the act or thing shall not be invalid or otherwise ineffective by reason only that it was not done with in that period "
اس واضح آئینی پوزیشن کے بعد الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ جمہوریت کے نام پر روٹیاں توڑنے والے ارب پتی چند ماہ کے لیے اقتدار قربان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ان کا بس چلے تو الیکشن کبھی نہ ہو جب تک یہ گارنٹی نہ دی جائے کہ حکومت پھر انہیں ملے گی۔ اس لیے جسٹس اعجاز افضل خان صاحب نے جمہوری نازی ازم سے بر وقت یہ سوال پوچھا:
اِدھر اُدھر کی نہ بات کر تو بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
اب یہ سوال پوچھنے کی یہ ضرورت باقی نہیں رہی کہ الیکشن سے کون بھاگ رہا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اس ہفتے الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے رجوع کر لے گا۔ اس طرح ایک بار پھر یہ بات طے ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ سپریم ہے‘ جو نہ الیکشن کو آئینی ترمیم دے سکی ہے‘ نہ الیکشن کمیشن کو بروقت قانون سازی دے سکی اور نہ ہی عام آدمی کو کوئی ریلیف۔ وقت پر انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم پارلیمان کے سامنے سرے سے روڈ میپ ہی نہیں‘ لہٰذا یہ جواب کوئی اور دے گا کہ الیکشن کب ہو گا۔ آرٹیکل 218(3) کی رو سے بروقت فری اینڈ فیئر الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ وزیرِ اعظم اور سپیکر الیکشن کمیشن کے تحریری حکم نامے کے باوجود 10 نومبر تک آئینی ترمیم نہ لا سکے۔ توہینِ عدالت اور کسے کہتے ہیں؟