"SBA" (space) message & send to 7575

زبیدہ آپا

ہمیشہ سے ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر پورا سماج ایک بوری آٹا سمجھ لیا جائے‘ تو اس میں پائوبھرنمک ڈالے بغیر روٹی میں لذت پیدا نہیں ہو سکتی۔ کھانے پینے کی دنیا میں جو محفل آرائی زبیدہ طارق مرحومہ نے زبیدہ آپا بن کر کی وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آسکی۔ زبیدہ آپا پاکستان کا ایسا گھریلو نام ہے‘ جو دعائیں دیتا ہوا ٹی وی سکرین پر نمودار ہوا اور دعائیں لیتا ہوا ملکِ عدم کو سدھار گیا۔
گئی تُو ایک مگر یوں کہ کر گئیں تنہا
تمہارے ساتھ گئیں خوبیاں مقدر کی
کہتے ہیں ہر ماتم کدے میں سارے رونے والے صرف مرنے والے کے لئے نہیں روتے ‘ بلکہ لوگ ہر ماتم میں اپنا غم تلاش کرکے اسے شیئر کرنے کے لئے بھی آنسو بہاتے ہیں۔ آپا زبیدہ سے نہ میر ی کبھی کوئی ملاقات ہوئی‘ نہ بات چیت اور نہ ہی ذاتی تعارف ۔ اس کے باوجود بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ان کے شو دیکھے ، ان کی باتیں سنیں۔ اسی لئے ان کی رِحلت پر یوں لگاجیسے ہم سب سے پاکستان کی اچھی آپا دور ہوگئی ہیں۔ 
ان کے غم میں میرے گھر والوں کو دو چہرے دکھائی دیئے۔ پہلا چہرہ میرے بچوں کی نانی نذیر بیگم صاحبہ کا تھا جو پوٹھوہار کی معروف ماہر تعلیم تھیں۔ جبکہ دوسرا میرے بڑے بھائی خالد اعوان صاحب مرحوم کا۔ بھائی صاحب سال 2010ء میں کینسر کے خلاف تین سالہ جنگ ہار کر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ والد صاحب ملک علی حیدر کی طرح بھائی خالد صاحب کو وفات کے لئے مغفرت کا عشرہ اور 13 رمضان المبارک کا دن نصیب ہوا۔ بھائی صاحب نے زندگی کی آخری 7 راتیں وینٹی لیٹر پر گزاریں۔ وینٹی لیٹر کا مطلب آپ جانتے ہی ہیں۔ مشین کے ذریعے مصنوعی سانس۔ ان سات دنوں میں نہ انہوں نے آنکھ کھولی اور نہ کوئی بات چیت کرسکے۔ ہم جاتے اور ہر روز ان کی آواز، گفتگو اور نظر اُٹھنے کا انتظار کر کے آئی سی یو سے دل گرفتہ واپس آجاتے۔ لیکن ساتویں شب کو عجیب واقعہ ہوا۔ میں رات 10بجے تک ڈاکٹرز اور خاندان کے افراد سمیت آئی سی یو میں رہا۔ بھائی صاحب کی آواز‘ نہ حرکت اور نہ ہی آنکھ کھلتے نظر آئی۔ رات تقریباً اڑھائی بجے میرا بھتیجا ہسپتال سے آیا۔ اس کی گفتگو سن کر ہم سارے خوشگوار حیرت میں ڈوب گئے۔ اس نے بتایا کہ ابھی15 منٹ پہلے بھائی خالد صاحب کے ہونٹ ہلے اور آنکھ کی پتلیاں کھلیں ۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کمرے میں موجود لوگوں کو پاس بلایا اور انتہائی دھیمی آواز میں کہنے لگے ''بلائو‘‘۔ گھر والوں نے ان کے بچوں، بیگم اوردیگر بھائیوں کے نام لیے جس پر وہ نفی میں سر ہلاتے رہے۔ جب میرا نام آیا تو انہوں نے کہا: ہاں بلائو۔ میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے آئی سی یو وارڈ میں پہنچا۔ ان کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیا، منہ سے منہ لگا دیا۔ ان کا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔ جو گفتگو ہوئی وہ خالص گھریلو تھی‘ جسے بیان کرنے کا یہاں محل نہیں۔ اس گفتگو کے تھوڑی دیر بعد بھائی صاحب نیند کی وادی میں جا بسے ''ابدی نیند‘‘۔ ہم بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے‘ لیکن خاندان، جرگہ اور سیاست ہر جگہ بڑے ہونے کے باوجود میرے ہر فیصلے کی تائید نہیں بلکہ رکھوالی کیا کرتے تھے۔ 
مرے ماضی کے اے سرسبز لمحو
پلٹ آئو کہ تنہا رہ گیا ہوں
اگلے دن عید گاہ والے پیر نقیب الرحمٰن صاحب کی بیٹی کی شادی تھی۔ آج کل شادیوں میں جس چیز کی کوئی پروا نہیں کرتا‘ اسے ''وقت‘‘ کہتے ہیں۔ شادیوں کے اس سیزن میں ہر روز کئی کئی دعوت نامے نبھانے پڑتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کئی شادیاں بھگتا کر گھر دیر سے پہنچے اور سوال کیا کھانے کے لئے کچھ ہے؟ اس دعوتِ شادی خانہ آبادی میں سے بھی کھانا کھانے سے پہلے نکلنے لگا تو نقیب الرحمٰن صاحب نے ہاتھ پکڑ لیا اور بولے بیٹی کو دعا تو دے جائیں۔ مجھے یہاں بھی زبیدہ آپا یاد آئیں۔ینگ مدرز اکثر چھوٹے بچوں کے لیے زبیدہ آپا سے ٹی وی پر آن لائن مشورے مانگتی تھیں۔ پہلے بچے کی پرورش کے وقت ہر نوجوان ماں مامتا سے بھرپور مگر رموز ِافزائش میں نا تجربہ کار ہوتی ہے‘ لہٰذا بچوں کے حوالے سے ینگ مدرزٹی وی پر گفتگو کرنے والے ہر مرد کو افلاطون اور ہر خاتون کو دیوی ماتا سمجھ کر فون کرتی ہیں۔ جواب میں ینگ مدرز کو طنز، طعنے اور ڈانٹ ڈپٹ ،وہ بھی انتہائی رعونت کے ساتھ سننے کو ملتے ہیں۔ زبیدہ آپا ان نو آموز مائوں کے لئے ٹوٹکوں کا بینک آف دولت پاکستان تھیں۔ نہ صرف مفت ماہرانہ مشورہ دیتیں بلکہ ساتھ دل کشا دعائوں کا تحفہ پیش کرنا بھی اُن کی فطرت میں شامل تھا۔ 
مجھے یہ ابھی کل کی بات لگتی ہے‘ جب ہمارے آنگن میں پہلی ننھی پری عائشہ اتری۔ میری بیگم یاسمین نے دوستوں اور عزیزوں کے گھروں میں مٹھائی کے ڈبّے بھجوائے۔ جواب میں اکثر فون کرنے والوں نے یوں دلجوئی فرمائی ''پُتر دیِ مبارک ہووے‘‘۔ عائشہ کے دل میں پیدائشی سوراخ تھا۔ محض 72 دن بعد پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد کے بچگانہ وارڈ میں عائشہ کو آخری علاج کے لیے مامتا سے سرشار نرس نے گود میں اُٹھایا‘ تو اس نے گردن موڑی ماں باپ کو دیکھا‘ اور یوں لگا جیسے زبانِ حال سے کہہ رہی ہو بابا مجھے روک لو۔ میں نے ابھی گڑیوں سے کھیلنا ہے۔ 
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
زبیدہ آپا جیسے لوگوں کے دو خاندان ہوتے ہیں۔ ایک حسبِ ونسب فیملی اور دُوسرے لارجرفیملی۔ دونوں جگہ زبیدہ آپا قسمت کی دھنی نکلیں۔ زہرہ نگاہ، فاطمہ ثریا بجیا اور انور مقصود جیسے نابغہ لوگوں سے خون کا پہلا رشتہ‘ جبکہ اپنے وطن کے 20 کروڑ لوگوں کے ساتھ غذا ، دُعا، وفا اور دوا کا تعلق بھی۔ اسی لیے اس بخت آور خاتون کا نام اور کام دونوں ہی کالم نگاروں‘ ممبرانِ پارلیمنٹ اور تجزیہ کاروں سمیت فنکاروں کے لیے محاورہ بن چکا تھا۔ پارلیمنٹ کے فلور پر جب وزیر صاحب سوال کا جواب دینے سے معزور نظر آئیں تو پیچھے سے آواز آتی ہے: زبیدہ آپا کے ٹوٹکے پڑھ لو۔ زبیدہ آپا سے پہلے فن وادب کی دنیا میں تخیلاتی کردار ہوا کرتا تھا‘ مشورہ خانم کے نام سے موسوم۔ مجھے یقین ہے کراچی میں فرضی خاتون کرداروں پر بہترین ڈرامے تخلیق کرنے والے زبیدہ آپا کو جلد موضوع بنائیں گے۔ ایک انتہائی روایتی سا گھر یلو کام کسی کو اس قدر سربلندی اور عزت سے سرفراز کر سکتا ہے ۔ کھانے پکانے کے شو کرنے والوں کے حوالے سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ اس کاایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ زبیدہ آپا کے نام پر خواتین کی ضرورت کی اشیاء کے باقاعدہ برانڈ مرچنڈائیز ہو گئے۔ حق تو یہ ہے کہ بعد اَز مرگ ہی سہی ریاست زبیدہ آپا کو سرکاری اعزاز سے نوازے۔ وہ تو اپنی زندگی میں ہی پاکستان کی مشہور ترین محترم خواتین میں شامل ہونے کا اعزاز لے گئیں۔
ــ''حق مغفرت کرے‘‘ 
ینگ مدرزٹی وی پر گفتگو کرنے والے ہر مرد کو افلاطون اور ہر خاتون کو دیوی ماتا سمجھ کر فون کرتی ہیں۔ جواب میں ینگ مدرز کو طنز، طعنے اور ڈانٹ ڈپٹ ،وہ بھی انتہائی رعونت کے ساتھ سننے کو ملتے ہیں۔ زبیدہ آپا ان نو آموز مائوں کے لئے ٹوٹکوں کا بینک آف دولت پاکستان تھیں۔ نہ صرف مفت ماہرانہ مشورہ دیتیں بلکہ ساتھ دل کشا دعائوں کا تحفہ پیش کرنا بھی اُن کی فطرت میں شامل تھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں