سکندر مرزا، ایوب خان، آغا یحییٰ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جو کھیل کھل کر کھیلا‘ اس نے پاکستان میں نظریہ ضرورت (Law of Necessity) کو جنم د یا۔
کیلسن ڈاکٹرائن آف لاء اس قدر ڈھیٹ نکلی کہ اب جانے کا نام نہیں لے رہی۔ اس کے باوجود بھی کہ جو دل والے اسے دلہنیا بنا کر لائے تھے، اقتدار سمیت ان کی رخصتی ملکِ عدم کو ہو گئی۔ اسے نظریہ ضرورت کہیے یا کیلسن صاحب کا بھوت۔ تا حیات نا اہل شریف کے اقتدار میں 3 دفعہ عسکری عدالتیں بنائی گئیں۔ سال 1997ء سے 2017ء تک۔ ایک بار سپریم کورٹ نے ان عدالتوں کو لیاقت حسین کیس میں کالعدم قرار دے مارا۔ دوسری مرتبہ 21ویں آئینی ترمیم آئی‘ جسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا گیا‘ جہاں سے تقسیمِ رائے پر مبنی فیصلہ صادر ہوا۔ پچھلی 2 ترامیم چیلنج کرنے والوں نے نظریہ ضرورت کی برکت سے تیسری ترمیم کو عدالتی چیلنج کے قابل نہ سمجھا‘ یعنی بانس تو موجود رہے لیکن بانسری نہ بج سکی۔ ورنہ خطرہ تھا الٹے بانس بریلی کو نہ پڑ جائیں۔
پاکستان کا آئین اب کی بار پھر سے پارلیمنٹ میں ''پنچنگ بیگ‘‘ بنا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک نہیں 2 جگہ پر۔ صرف ایک پارلیمانی کمیٹی میں نہیں، بلکہ دونوں ہائوسز کی تازہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی میں بھی۔ اس کمیٹی کو کوئی مشترکہ کہہ رہا ہے اور کوئی متفقہ۔ اگر سچے زمانوں کے درختوں کی طرح آئینِ پاکستان کے صفحات بھی بول سکتے، گفتگو کرتے اور انسانوں سے ہم کلام ہو پاتے تو پھر کاغذ جو درختوں کا ہی بچہ ہے بول بول کر کہتا: آئین مت توڑو۔ آج یہاں جس اصولِ آئین کی بات ہونے جا رہی ہے‘ اس کے تحت آئین کے آرٹیکل 212 کی رُو سے سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ آیا‘ جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ درجنوں سالوں کی نوکری، طویل مدتی مقدمہ بازی کے بعد ملنے والے حقوق سے محروم ہو گئے۔
ملک بھر کی ہائی کورٹس میں پینڈنگ لا تعداد رِٹ پٹیشنز‘ عدالتِ عظمیٰ میں دائر آئینی درخواستیں دونوں ہی ماورائے آئین ٹھہریں۔ ورکرز کو عشروں بعد واپس سروس ٹربیونلز، سیشن جج، لیبر کورٹ اور دوسری عدالتوں میں جانا پڑا۔ اس مقدمے کی سماعت میں کئی دیگر سینئر وکلا کے علاوہ میں نے بھی سپریم کورٹ کی وکالتی معاونت کی تھی‘ لیکن لاکھوں لوگوں کے کیسز چونکہ آئین کی زد میں آ گئے۔ اس لیے انہیں نئے سرے سے سماعتوں کے سفر پر بھجوا دیا گیا۔
پاک سر زمین کے اسی آئین میں آرٹیکل 225 کا بھی بسیرا ہے۔ یہ آرٹیکل آئین کے باب نمبر 8 کے پہلے زمرے میں آتا ہے‘ جس کے ذریعے اسمبلیوں کے الیکشنز پر اُٹھنے والے سوالوں کے جوابات دینے کا فورم مہیا کر دیا گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ 1973ء کا آئین متفقہ ہے، منصفانہ، آرگینک، ریاستی ضرورتوں کے عین مطابق ناقابلِ تسخیر اور تنسیخ بھی۔21 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان نے جو فیصلہ صادر کیا‘ وہ PLD سال 2015ء سپریم کورٹ صفحہ نمبر 401 پہ شائع شدہ ہے‘ جس کا عنوان آئینی پٹیشن نمبر 12,13ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی بنام وفاقِ پاکستان وغیرہ ہے۔ اس فیصلے میں جمہوری معاشروں کے ایک آفاقی اصولِ قانون کو پھر دہرایا گیا‘ اور وہ یہ کہ آئین بالا تر ہے پارلیمنٹ سپریم نہیں۔ ساتھ ساتھ یہ آئینی اصول بھی طے ہوا کہ آئین پر بھی عوام کی خواہش اور ضرورت (Will and welfare of the people) غالب اور سپریم ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے آئین کے آرٹیکل 225 پر نظر ڈال لیں۔
ARTICLE 225: Election disputes -No election to a House or a Provincial Assembly shall be called in question except by an election petition presented to such tribunal and in such manner as may be determined by Act of 1[Majlis-e-Shoora (Parliament)].
ایوانِ بالا کی داخلہ کمیٹی کا بالائی چیئرمین، آئین کے آرٹیکل نمبر 225کو تھوڑا تھوڑا دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘ ذرا ذرا تیز دھار قینچی سے کاٹ بھی رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ الیکشن میں چونکہ بے ضابطگیاں ہو گئیں‘ دھاندلی برپا کی گئی‘ اس لیے سینے پر دہری شہریت کا تمغہ سجائے یہ اس کا استحقاق ہے کہ وہ تھوڑا سا آئین توڑ ڈالے۔ اس کمیٹی نے اکڑ بکڑ کے انداز میں CORRUPT AND ILLEGAL PRACTICES پرکارروائی شروع کر رکھی ہے۔
اگر کوئی صرف آئین کھول کر آرٹیکل 225 پر نظر ڈالے تو اس میں واضح طور پر حد اور امتناع ان لفظوں میں جاری کیا گیا ہے۔ ''کوئی الیکشن بھی جو ہائوس یا صوبائی اسمبلی میں منعقد ہو اس پر کوئی سوال کہیں بھی نہیں اٹھایا جا سکتا‘ ماسوائے ایک الیکشن پیٹیشن کے ذریعے جو ایسے الیکشن ٹربیونل میں پیش کی جائے‘ جسے پارلیمنٹ نے تشکیل دیا۔ الیکشن ٹربیونل، الیکشن کے تنازع کا فیصلہ اس قانون کی رُو سے کرے گا‘ جو پارلیمنٹ نے بنایا ہو‘‘۔ اب ذرا واپس چلتے ہیں سال 2017ء میں جب پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ارکان نامزد کر کے کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی کو انتخابی اصلاحات کے نفاذ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کئی مہینوں کی بحث اور بے شمار بیٹھکوں کے بعد اس کمیٹی نے 8 انتخابی قوانین کو جمع کر کے نیا قانون بنا دیا‘ جس کا نام دی الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء رکھا گیا۔ اس قانون میں بھی انتخابی تنازعات کے حوالے سے علیحدہ سے ایک پورا باب شامل ہوا۔ اس باب میں دفعہ 139 کی زبان 100 فیصد آئین کے آرٹیکل 225 سے ''امپورٹ‘‘ کی گئی ہے۔
اس آئینی اور قانونی تناظر میں اس وقت ملک کے دو قوانین ایسے ہیں‘ جو الیکشن تنازعات، الزامات، تحقیقات کے لیے فورم مہیا کرتے ہیں۔ پہلا سپریم لا آئین اور دوسرا ماتحت قانون سازی یعنی الیکشن ایکٹ 2017ئ۔ آئین و قانون پہ ستم بالائے ستم یہ کہ جس پارلیمنٹ نے یہ دونوں قانون بنائے۔ ایک 1973ء میں اور دوسرا 2017ء میں۔ اس کی ایک کمیٹی ان دونوں قوانین کو ماننے سے انکاری ہے‘ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے‘ اور وہ یہ کہ الیکشن ٹربیونل کی سربراہی ملک کے پانچوں ہائیکورٹس کے جج کر رہے ہیں۔ ان آئینی عدالتوں میں الزام، ثابت ہونے تک صرف اتہام یا تہمت سمجھا جاتا ہے۔
دھاندلی یا کرپٹ پریکٹس کا الزام ثابت کرنے کے لیے قانون شہادت مجریہ 1984ء کے ضابطہ کار کے اندر رہ کر قابلِ قبول اور قابلِ ادخال قانونی شہادت پیش کرنا پڑتی ہے۔ ہر الزام علیہ ہر الزام کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ ہر ثبوت کی تردید پیش کی جا سکتی ہے اور شہادت صفائی بھی۔ ایسے جوڈیشل پراسیس کے مقابلے میں پارلیمانی کمیٹی ٹی وی ٹِکر تو بنا سکتی ہے‘ متبادل عدالت نہیں بن سکتی۔ یادش بخیر سوات کے ایک مولوی صاحب نے سال 2010ء میں ملک کا جوڈیشل سسٹم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس اقدام کو درست طور پر آئین شکنی کہا گیا۔ اس سے بھی کم درجے کی آئین شکنی یعنی چند جج نوکریوں سے نکال دینے پر پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت فوجداری ٹرائل کا سامنا ہے۔
2018ء کے الیکشن پر بننے والی نئی پارلیمانی کمیٹی کا کام بھی یہی ہے۔ یہ کمیٹی انتخابی تنازعات و الزامات پر تحقیقات کرے گی۔ اس حوالے سے ملک میں ایک اور قانون بھی موجود ہے‘ جس کے تحت جوڈیشل کمیشن بنائے جاتے ہیں‘ لیکن کسی جوڈیشل کمیشن کو انتخابی تنازع طے کرنے کا اختیار کبھی نہیں مل سکتا۔ تازہ ترین عدالتی نظیر 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی اور کرپٹ پریکٹس کے الزامات پر بننے والا کمیشن ہے‘ جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس ناصرالملک نے کی۔ اس دھاندلی کمیشن کی فائنڈنگ کہتی ہے: انتخابی عمل میں 40 فیصد تک بے ضابطگیاں ہوئیں۔ اس کے باوجود کمیشن کسی ایک حلقے کے الیکشن کو بھی اپ سیٹ کرنے کی طرف نہیں گیا۔ وجہ آئین کا آرٹیکل 225 بنا۔ لہٰذا پارلیمانی کمیٹی کسی الیکشن کو دھاندلی زدہ ڈکلیئر یا کالعدم کیسے کر سکتی ہے‘ جس پارلیمنٹ نے آئین اور قانون بنایا اس میں 'آئو تھوڑا سا آئین توڑیں‘ کا رواج کب ختم ہو گا؟؟؟