اُن دنوں لیری چھولے بیچا کرتا تھا۔ سی این این کے جنم میں ابھی کئی سال باقی تھے۔ اس لیے لیری کو کنگ بننے میں بھی مزید کئی سال لگ گئے۔
مگر بادشاہوں کے دیس میں بسنے والا درید لحام لبنان کے ایک غریب محلے میں پیدا ہو چکا تھا۔ گنجے پن نے اسے نو عمری میں ہی فارغ البال کر دیا۔ بڑھا ہوا پیٹ، موٹی ناک، ٹھِگنا قد اور لال سُرخ رنگ کا لبنانی نژاد یہ اداکار شام پہنچا تو دنیا بھر کے عربوں کا موسٹ فیورٹ کردار بن گیا۔ 1979 کا سال عرب دنیا سمیت صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں پہ قیامت بن کر برس گیا‘ جہاں اسرائیلی لیڈر ایریل شیرون کی ذاتی نگرانی میں فلسطینی مہاجروں کا کُھلا قتلِ عام ہوا۔ اتنا قتلِ عام کہ جس سے پورا لبنان خون میں نہلا دیا گیا۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے طالبِ علم کی حیثیت سے 1979 سعودی عرب میں میرا پہلا سال تھا۔ اسی سال، ساکر فُٹبال ورلڈ کپ منعقد ہوا۔ یہ دونوں واقعات اتنے بڑے تھے کہ ان کی موجودگی میں کسی مزاحیہ فن کار کی انقلابی کاوش پر نظر پڑنے کا سوال ہی کہاں تھا۔ رہی سہی کسر جہیمان العتیبی کے حملے نے نکال دی جس میں ہماری یونیورسٹی کے کچھ طلبہ بھی پکڑے گئے۔ اس واقعہ نے مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔ یہ حرمِ کعبہ شریف پر قبضے کا انتہائی شرمناک واقعہ تھا لیکن انہی دنوں درید لحام لوگوں کو اپنے طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گیا؛ چنانچہ وہ انٹرنیشنل سپاٹ لائٹ میں آ گئے۔ درید لحام نے ایسا کیا کیا کہ وہ یکا یک عربوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اس طرف پھر واپس آتے ہیں۔ پہلے چلیے آج کی ہائی ٹیک جسٹس پروڈکشن کی طرف۔ جہاں تعلیم، ہنر، پیشہ ورانہ مہارت کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس رنگ و بو کی دُنیا میں میک اپ، لائٹ، کیمرہ سٹارٹ اور ایکشن چلتا ہے۔ پرائیویٹ جِیٹ کی سیر، سندھی بریانی اور لاہوری پائے کے علاوہ سکہ رائج الوقت بھی۔ عکس بندی کے ایسے سیٹ پر ایڈیٹوریل، سکرپٹ اور ریسرچ کا داخلہ بند ہے۔ اس کی جگہ ایجنڈا، نعرہ اور ٹرائل سے پہلے ہی فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔ پلیز...! ذرا ساتھ رہیے گا، آئیے چل کر اندر جھانکتے ہیں۔
سٹوڈیو نمبر1۔ چڑا، چڑی یا چڑیا وہ سامنے ہے۔ جہاں پاکستان کی پہلی جوڑی کے ازدواجی تعلقات پر اندر کی بات چل رہی ہے۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بے روزگار چہرہ عیاں ہے۔ جہاں چڑیاں نہیں ہوائیاں اُڑ رہی ہیں، ساتھ ایک درفنطنی بھی۔ یہ شادی نہیں چل سکتی۔ دنیا بھر میں کسی گھٹیا خواہش کو خبر نہیں کہا جاتا‘ نہ ہی سیاسی ایجنڈے کو تجزیہ۔ یہاں سب چل رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے، جیسے سٹریٹ جسٹس کے ذریعے مذہبی بندھن کو توڑنے کی ڈگری صادر ہو رہی ہے۔
سٹوڈیو نمبر2۔ اس کٹہرے میں ڈرگ کیس کا تفتیشی افسر کھڑا ہے۔ اونچے منچ پر بیٹھے خواتین و حضرات اس سے سوال کر رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اتنا شریف آدمی اور اتنا جھوٹا الزام۔ دوسرا سوال: وقوعے کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی۔ تیسرے سوال پر تفتیش کار کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ سوال کرنے والے پہلے حیران ہوئے پھر پریشان ہو کر بولے: ہنستے کیوں ہو۔ تفتیشی نے کہا، یہ تو میراثی کی لڑکی والی بات ہے‘ جس نے رات کو کہا کل اس گھر میں سے ایک آدمی کم ہو جائے گا اور پھر رات کے پچھلے پہر وہ بھاگ گئی۔ یہ بزرگی کی نشانی نہیں بلکہ اقبالِ جرم ہے۔
یادش بخیر لاہور میں تھانہ قلعہ گجر سنگھ ہوتا تھا‘ جس میں مارتھ نامی ایس ایچ او نے سائیکل چوری کی گمنام ایف آئی آر میں ملزم پکڑا۔ ملزم عارف بلوچ کا اقبالِ جرم پولیس نے ضمنی میں لکھا۔ پھر اس ضمنی پر نئی ایف آئی آر کاٹی گئی‘ جس کے ذریعے آصف زرداری کو ڈرگ لارڈ قرار دیا گیا، منشیات کا عالمی سمگلر۔ زرداری ڈرگ ریکٹ کے ساتھیوں میں شورنگ خان، بلیک پرنس اور بے شمار دوسرے نام ڈال دیے گئے۔ جنرل ضیا کے بھانجے میاں جہانگیر سیشن جج نے اس مقدمے کا ٹرائل کیا۔ میں وکیلِ صفائی تھا۔ مقدمہ 11 سال چلتا رہا۔ ایک تولہ، ایک ماشہ اور شہباز شریف کے بقول ایک کسیرے کی برآمدگی نہ ہوئی۔ اس خیالی ڈرگ ریکٹ کے سارے ملزم جیل میں سڑتے رہے۔2 بڑے ملزموں کی ضمانت کے لیے میں لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوا، جہاں اُس وقت کے چیف جسٹس میاں اللہ نواز کی عدالت نے ضمانت دے دی۔ اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے بعد ازاں مسٹر جسٹس ایم بلال خان نے تب پراسیکیوشن کی طرف سے مقدمے کی پیروی کی۔ چوہدری شجاعت حسین اسی دور میں نواز حکومت کے وزیرِ داخلہ تھے، اور تب اے این ایف کو امتحان میں ڈالا گیا۔ حکومت مقدمے کو کریڈیبلٹی دینے کے لیے اے این ایف کے ذریعے پرچہ کٹوانے کی خواہش مند تھی مگر یہ جانے بغیر کہ اے این ایف کے ساڑھے تین ہزار لوگوں میں سے ایک ہزار کے قریب سویلین سٹاف ہے۔ لیکن آپریشنل قیادت اور صلاحیت فوج کے حاضر سروس جوانوں کے ہاتھ میں ہے‘ جنہوں نے ملک کے سارے ایئر پورٹس، انسداد منشیات تھانے، ڈرائی پورٹس اور ڈرگ لارڈز کے خلاف آپریشنز سنبھال رکھے ہیں جس میں میجر کے رینک تک جانیں نثار کر بیٹھے ہیں۔ ایسا ادارہ قلعہ گجر سنگھ کے تھانے کا کردار ادا کرنے سے صاف انکاری ہو گیا۔ کوٹ لکھپت جیل کی فیکٹری میں ملزموں کا ٹرائل شروع ہوا‘ جہاں لاہور میں مقابلوں کے ماہر پانچ میں سے چار ایس ایچ او ڈیوٹی کرتے۔ کیا ڈیوٹی؟ کاش رئوف کلاسرا صاحب یا زاہد گشکوری صاحب جیسا رپورٹر آصف زرداری سے خود پوچھ لے۔
سٹوڈیو نمبر3 کے کٹہرے میں مشتاق چینی والا بیان دے رہا ہے۔ یہاں نہ کوئی رپورٹر پہنچا‘ نہ کوئی تجزیہ کار یا اینکر۔ کٹہرے کی دوسری جانب بڑے ہوٹل کے ہال میں آستینیں چڑھائے وارث شاہ اور بُلھے شاہ کے پنجاب کا دعوے دار پریس کانفرنس سے مخاطب ہے۔ ذرا اس کی سنیے۔ بچو کرپشن، کرپشن ہوتی ہے جو ہوتی رہتی ہے۔ کرپشن کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اگر میری شیڈ کی مُرغیاں سونے کے انڈے دیتی ہیں تو کسی کو کیا تکلیف۔ اور ہاں اگر ابا جی ٹی ٹی کی تعداد نہیں بتا سکتے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
سٹوڈیو نمبر 4 پر قُلفہ ہائوس کا سیٹ لگا ہے۔ کچھ بینکر، کچھ انویسٹر معتبر چہروں کے ساتھ ڈنر کر رہے ہیں۔ اچانک ڈنر کی سروس کرنے والا بیرا آگے بڑھا‘ اور دروازے کے پیچھے لگے ٹیلی فون کی کال اٹینڈ کرنے لگ گیا۔ اور پھر دھڑام کی آواز آئی اور بیرا فرش پر جا گِرا۔ اس کے ساتھی دوڑے، اسے سنبھالا دیا اور پوچھا: کیا ہوا؟ بیرے نے جواب دیا کہ وہ خوشی میں گِرا تھا۔ اس کے اکائونٹ میں ابھی ابھی4 ارب روپے پہنچ گئے ہیں۔ وہ جلدی گھر پہنچ کر اپنا ذاتی ہوٹل کھولنے کی تیاری کرے گا۔ اس کے ساتھی کہنے لگے‘ OK سر ہمیں یاد رکھنا۔ ڈنر ٹیبل پر موجود لوگوں نے کہا: غریبوں کو اس قدر سستا اور فوری انصاف مبارک ہو۔ درید لحام نے ڈرامہ بنایا تھا‘ جس میں عرب دنیا کی غربت کے زمانے میں عربی کشتیاں سپین لے جا کر جلانے کے الزام میں زیاد کے بیٹے طارق کا ٹرائل دکھایا گیا۔ سستے اور فوری انصاف کے لیے قوم کو چاہیے کہ درجن بھر انویسٹی گیٹو رپورٹروں کو تفتیشی افسر مقرر کرے، انہی کے ہمنوا تجزیہ کاروں پر مشتمل جیوری بٹھا دے‘ اور ان کے سرپرست اینکرز کو جج۔ آپ یقین کریں ہر طرف سستے اور فوری انصاف کا ڈھیر لگ جائے گا۔ ارے ہاں یاد آیا! گھر بیٹھ کر ٹی وی پر سستا اور فوری انصاف ہوتا ہوا صاف، صاف نظر آئے گا۔
فاش ہیں مجھ پہ کئی سال سے اسرارِ درُوں
سوچتا ہوں کہ سرِ عام کہوں یا نہ کہوں