تاجِ برطانیہ اور غلام ہندوستان کی تاریخ بڑے دلخراش اوردلچسپ حقائق سے بھرپور ہے۔ کچھ سیاسی ایلیٹ‘ کچھ غلامانہ ذہنیت والے اور کچھ کرسی نشینی کے امیدوار۔ ان سب کا خان+ دانی پس منظر اور چہرہ اس تاریخ کے مختلف آئینوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ رنگ برنگے آئینے۔ ان میں برٹش راج کے فرنگی راج کماروں کی یادداشتوں پر مبنی کتابیں۔ ہر علاقے کے لیے لکھے گئے Gazetteer اور چشم کشا حقائق پر مبنی ڈاکومنٹس بھی شامل ہیں۔ جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا طوفان آیا ہے ان تاریخی حوالوں پر ٹیکنالوجی کے ذریعے پہنچنا کافی آسان ہوگیا۔ آج کے وکالت نامے کا عنوان اُسی دور کے تین عہدوں سے لیا گیا ہے۔ جو غلاموں کو آزادی کے تصور سے آزاد کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے۔
اسی تسلسل میں ایک کتاب فرنگی راج کے آخری پانچ عشروں کی کہانی سناتی ہے۔ ایسے دور کی کہانی‘ جب دہلی بھی پنجاب کا حصہ تھا‘ اور اس سے ذرا پہلے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ (13نومبر 1780ء تا 27جون 1839ء) کابل کے بھی حکمران تھے۔ معروف Encyclopedia Britannica میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شناخت Lion of the Punjab بتائی گئی ہے۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ اُس وقت کے پنجابی علاقے‘ بدرو خان اور آج کے گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ جنہوں نے1801ء میں مہا راجہ بننے کے بعد 40سال حکمرانی کی۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ 10صدیوں میں پہلے سکھا شاہی انڈین حکمران تھے جنہوں نے نارتھ سے آنے والے حملہ آوروں کو نہ صرف سرزمینِ پنجاب پر روکا بلکہ اُنہوں نے یہ حملے نارتھ کی طرف پلٹا کر ایک وسیع و عریض علاقے کو فتح کر دکھایا۔
رنجیت سنگھ 1792ء میں فوت ہونے والے‘ مہا سنگھ کا اکیلا بیٹا تھا جو سکرچکیا سکھ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس نے 15سال کی عمر میں پنجاب کے کنہیّا سردار کی لڑکی سے شادی کر لی۔ اُس کی دوسری شادی نکئی خاندان میں ہوئی۔ رنجیت سنگھ نے سال 1799ء میں کِنگ آف افغانستان شاہ زمان کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کر لیا۔ جس کے دو سال بعد رنجیت سنگھ نے مہا راجہ کا لقب اختیار کیا۔ پھر پنجاب‘ کشمیر اور ناردرن انڈیا کے سارے راج واڑے فتح کرڈالے۔
1801ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے بے رحمی سے لڑنے والے مرہٹے پنجاب سے نکال باہر پھینکے۔ 1809ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے ہماچل پردیش فتح کیا اور سال 1818ء میں شاہ زمان کے بھائی‘ افغان حکمران شاہ شجاع کو حراست میں لے کر لاہور پہنچایا‘ جہاں اُس سے ڈیل کرکے دنیا کا سب سے بڑا ہیرا کوہ نور حاصل کر لیا۔ جولائی 1819ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے ہمالیہ کی وادیوں سمیت پورا کشمیر فتح کر چھوڑا۔ اُس کے جرنیلوں میں نپولین کی فوج کے ٹرینڈ آفیسرز بھی شامل تھے۔
1834ء میں ڈوگرا کمانڈر‘ زور آور سنگھ کے ذریعے رنجیت سنگھ نے لداخ بھی فتح کر لیا تھا جس کے بعد 1837ء میںمہا راجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان کی فوجوں اور اُن کے اتحادیوں کو پشاور میں فیصلہ کن شکست دی۔ 1838ء میں رنجیت سنگھ نے کابل جاکر جشنِ فتح منانے کی پریڈ میں شرکت کی۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ جون 1839ء میں دنیا سے رخصت ہوا تو صرف چھ سال کے عرصے میں برٹش راج کا پنجاب پر قبضہ ہوگیا۔ اس کی بڑی وجہ انگریزوں کی جانب سے سیاسی خرید و فروخت اور سکھ سرداروں کی آپس میں نہ ختم ہونے والی لڑائیاں تھیں۔
پنجاب صدیوں سے برّصغیر کی فوڈ باسکٹ کے طور پر پہچانا جاتا ہے‘ لہٰذا گوروں نے پنجاب میں عوام کو فتح کرنے کے بجائے اُن میں ایلیٹ کلاس پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی منصوبے نے غلام ہندوستان میں سیاسی کرپشن کی پہلی کھڑکی کھولی جس کے اندر تین کائونٹر لگے ہوئے تھے۔ آئیے تاریخ کے جھروکوں سے کرپشن کی اس کھڑکی میں ایستادہ ان تین کائونٹرز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
کرپشن کی کھڑکی کا پہلا کائونٹر: یہ طبقاتی تقسیم کا کائونٹر تھا جس کا دستاویزی ثبوت دہلی کے Gazetteerسے ملتا ہے جہاں 12 جولائی 1887ء میں کرسی نشین اور زمین پر بیٹھنے والے غلاموں کے درمیان طبقاتی تقسیم پیدا کی گئی۔ نمونے کے طور پر دہلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے کرسی نشین سرٹیفکیٹ نمبر 14کی عبارت پیش ہے:
Ram Narayan Son of Shad Parshad being an accepted Kursi Nashin of this district, is entitled to the courtesy of a seat when visiting officers and gentlemen.
کرپشن کی کھڑکی کا دوسرا کائونٹر: BBC archivesکے مطابق انگریز سرکار نے تاجِ برطانیہ کے لیے لڑنے والے غلاموں کو سیاسی رشوت دینے کے لیے 1912ء میں قانون بنایا جس کا نام Colonization of Land Act رکھا گیا۔ پنجاب کی ہائی لینڈز‘ سندھ کا کچا پکا اور صحرائے چولستان اور تھر کے ساتھ ساتھ چڑھدا پنجاب کے دریائوں کے کناروں پر کرسی نشین سرداروں کو بے رحمی سے زمینیں الاٹ کی گئیں۔ اسے گھوڑی پال مربع کہا گیا تاکہ ہندوستان میں برٹش راج کے لیے لڑنے والوں کو آزادی کی سوچ کے بجائے مفادات کی دوڑ میں لگا دیا جائے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پنجاب کی 20لاکھ سے ایکڑ سے زیادہ زمین گھوڑی پال سکیم میں دی گئی۔ یہ اعداد و شمار 1947ء کے بعد کے ہیں۔ اس سے پہلے کوڑیوں کے بھائو بانٹے گئے رقبے کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ چند سال پہلے مجھے گھوڑی پال سکیم کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑنے کا اتفاق ہوا۔ جس کی تفصیلات پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ گھوڑی پال زمین کا ہر مربع 200کنال کا ہوتا ہے۔ جس میں کوئی دوگھوڑیاں بھی نہیں پالتا۔
کرپشن کی کھڑکی کا تیسرا کائونٹر: وہ قبائلی علاقے جو پاکستان کے تین صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے‘ اُن میں پسندیدہ سرداروں کو لنگی allowance دے کر‘ اُن کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کا راستہ کھولا گیا۔ پورے قبیلے کے وسائل کے استعمال پر ملنے والا allowance مواجِب کہلایا۔
کتاب جس کا ذکر میں نے اوپر کیا‘ وہ 1925ء میں لندن سے شائع ہوئی۔ مصنف تھا Sir Michael O'Dwyer اور نام ''India as I Knew It‘‘۔ Michael O'Dwyer غلام ہندوستان کے NWFصوبے کا پہلا گورنر اور فرنگی غلامی کے متحدہ پنجاب کا آخری گورنر تھا۔ جلیانوالہ باغ میں مسلم 'سکھ‘ ہندو قتلِ عام کا حکم اسی نے دیا۔ گوجرانوالہ اور وزیر آباد میں بغاوت روکنے کے لیے Lieutenant Governor O'Dwyer نے جہازوں سے شیلنگ اور بمباری کروائی۔
1940ء میں آزادی کے متوالے اُدھم سنگھ نے جلیانوالہ باغ کا بدلہ لینے کے لیے لندن کی ایک تقریب کے دوران Lieutenant Governor O'Dwyer پر فائرنگ کرکے اُسے قتل کردیا (تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں ''اُدھم سنگھ اور مٹی کی محبت‘‘ وکالت نامہ 1اور 2 مورخہ 14 فروری اور 18 فروری2022ء)۔ کرسی‘ گھوڑے اور انعام کی ٹرائیکا آج بھی مغربی استعمار کی لونڈی ہے۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ۔