"SBA" (space) message & send to 7575

رِبا کیس کے 31سال

کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ جس ملک کے آئین میں لکھا ہو کہ قوانین اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے‘ وہاں پہ شرعی نوعیت کے ایک کیس نے 31سال سے زائد عدل کی راہداریوں میں گزار دیے؟
جی ہاں! ایسا شریعت پٹیشن نمبر 30L آف 1991ء اور 81 عدد دوسری آئینی پٹیشنز کے ساتھ ہوا۔ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے کچھ مقبول بندوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ کو چیلنج کیا تھا۔ یہ مقدمات ملک میں سود کے خاتمے کے حوالے سے دائر کیے گئے تھے۔ اگرچہ رِبا کیس سے مجھے شروع سے ہی دلچسپی تھی مگر قدرت نے اس کارِ ثواب میں میری شرکت کا راستہ بعد میں نکالا۔ غالباً 2007ء کے آخر یا 2008ء کے شروع میں۔
مجھے معزز فیڈرل شریعت کورٹ نے اِس مقدمے میں ''Amicus Curiae‘‘ مقرر کرنے کا حکم نامہ بھجوایا۔ میں حکم نامہ لے کرجسٹس فدا محمد خان مرحوم و مغفور کے پاس اُن کے چیمبر میں پہنچا۔ جن کی عدالت میں مَیں نے پہلے بھی کئی کیسوں میں معاونت کر رکھی تھی۔ جسٹس فدا محمد خان صاحب نے کہا: ہمیں خوشی ہوئی کہ اس انتہائی اہم معاملے میں آپ کی بھی معاونت ملے گی۔ پھر وہ مجھے چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ کے پاس لے گئے۔
میں نے رِبا کیس کے بارے میں عدالت کی منشا اور مقدمے کی سٹیج کے بارے میں چند سوال کیے اور پھر بطور عدالتی معاون اِن مقدمات میں پیش ہونا شروع کر دیا۔ عدالتی معاون یا Amicus Curiae کو مغربی دنیا میں فرینڈ آف کورٹ کہتے ہیں۔ یہ ایک نازک ذمہ داری ہوتی ہے جس میں آپ مخصوص واقعات کی روشنی میں اصولِ قانون کی تشریح کرکے عدل دوستی کا حق ادا کرتے ہیں۔ آپ مقدمے کے کسی فریق کے مؤقف کی حمایت یا مخالفت میں پیش نہیں ہوتے۔ اس لیے آپ اپنی آزادانہ رائے قائم کر کے عدالت کو پیش کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ مختلف مغربی ملکوں میں Juristکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آزاد رائے سے عدالت کو درست فیصلے تک پہنچنے کی راہ ہموار کریں۔اس عرصے میں کبھی سرکاری وکلا‘ کبھی اٹارنی جنرل آفس‘ کبھی وزارتِ خزانہ اور کبھی مختلف بینکوں کی طرف سے التوا مانگا جاتا رہا۔ جس کے نتیجے میں یہ کیس لٹکتے چلے گئے۔ ساتھ ساتھ سودی نظام اور Capitalism اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنی جڑیں مزید مضبوط کرتا چلا گیا۔
اس سے بھی بہت پہلے‘ 24جون 2002ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ شریعت کورٹ نے سود کے خلاف جو فیصلہ جاری کیا تھا اُسے ریمانڈ کرنے کی بنیاد میں نے پہلی دفعہ وفاقی شرعی عدالت کے روبرو رکھی تو میرے سمیت کمرۂ عدالت ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔ آپ اسے ریمانڈ کیس میں ''Document‘‘ کے عنوان سے پڑھ لیں۔ان مقدمات کی سب سے مؤثر سماعت 30نومبر 2020ء کے دن شروع ہوئی۔ تب وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی تھے۔ میں نے ایک غیررسمی گفتگو میں فاضل عدالت کا عندیہ حاصل کیا کہ کیا رِبا کیس میں صرف سماعتیں ہونی ہیں یا فیصلہ بھی آنا ہے۔ مجھے مضبوط اور ایمان افروز عملی رویے سے دلی خوشی ہوئی۔
پھر ایک بار میں اُن کے پاس فاتحہ پڑھنے کے لیے گیا تب بھی اُنہوں نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ اللہ نے مہلت دی تو میں ان مقدمات کا فیصلہ کرکے جائوں گا۔ پھر اللہ نے ایسا ہی کیا۔ چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی صاحب کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین محمد شیخ نے پاکستان کے ان تاریخ ساز مقدمات کو فیصلہ کن موڑ تک پہنچا کر چھوڑا۔ 30نومبر 2020ء تک ان مقدمات کی 26 سماعتیں ہوئیں مگر فیصلہ صادر نہ ہو سکا۔30 نومبر 2020ء سے 12 اپریل 2022ء تک ان پٹیشنز کو 31 مرتبہ سنا گیا۔ فیصلہ کُن سماعت کے بعد فائنل آرڈر محفوظ کر لیا گیا جو 28اپریل 2022ء کے روز سنایا گیا۔ جس کی رُو سے سود کو غیر شرعی قرار دے دیا گیا اور پٹیشنز Born Fruit کے زمرے میں آگئی۔ اسلام آباد بار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سید محمد انور اس فیصلے کے Authorجج ہیں جو اس وقت فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس بھی ہیں۔
ملک میں سود کے خاتمے کے لیے اس جدوجہد میں بہت سے گُم نام ہیرو شامل ہیں۔ اس فہرست میں وہ سارے لوگ جنہوں نے یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ میں اٹھایا‘ سرِفہرست ہیں۔ میں نے بڑے تواتر سے جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں پروفیسر ابراہیم‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو پیروی کرتے دیکھا۔ میرے ایک دعاگو سعید الراعی سابق انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس بھی اسی صف میں شامل ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی مختلف رپورٹس اور مجلّوں میں بہت معیاری تحقیقاتی مٹیریل جمع کیا۔ میں نے اُس سے بھی استفادہ کیا اور اپنے دلائل کے دوران یہ مٹیریل فیڈریل شریعت کورٹ کے روبرو رکھا۔
رِبا کیس کا ایک دکھی کرنے والا پہلو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ محمد نور مسکان زئی کی سربراہی میں بینچ نے 28 اپریل 2022ء کے روز محفوظ شدہ فیصلہ جاری کیا۔ جس کے پانچ ماہ سترہ دن بعد اپنے گائوں کی مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے وہ شہید کر دیے گئے۔ مرحوم کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع خاران کے گائوں خاران سے تھا۔مجھے اس مقدمے کے دوران سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش آیا کہ ایک جانب میں فیڈرل شریعت کورٹ کا معاون اور دوسری طرف وفاقی کابینہ کا رُکن تھا۔ میں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ میں سود کے معاملے میں وہی رائے رکھتا ہوں جو سود کو چیلنج کرنے والے پٹیشنرز کی ہے۔
کچھ دن بعد وزارتِ خزانہ مختلف بینکوں اور سود پر چلنے والے اداروں اور کمپنیوں نے میرے خلاف Lobbying شروع کی۔ تب تک میں اپنے دلائل دو تین پیشیوں سے شروع کر چکا تھا۔ بیورو کریسی کا ایک بڑا اہم حصہ بھی اس مہم میں شامل ہوا۔ میرے موجودگی کے دوران ایک اجلاس میں اعتراضات پلاننگ کے ذریعے سامنے رکھے گئے۔ میںنے یہ کہہ کر قصہ مختصر کر دیا کہ میں رِبا کیس کی معاونت سے Withdrawنہیں کر سکتا‘ اگر کسی کو کچھ مسئلہ ہے تو میں عہدے سے استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ جس پر پرائم منسٹر نے اعتراض کرنے والوں کو خاموش کروا دیا۔ میں نے بحث جاری رکھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں