14اگست 1947ء کے دن حضرتِ قائداعظمؒ کی دی ہوئی آزادی کے بعد سے ملک میں صرف دو نئے ہائی کورٹ بن پائے ہیں۔ ان میں سے پہلا ہائی کورٹ بنانے کے لیے سندھ بلوچستان مشترکہ ہائی کورٹ کو توڑا گیا جس کے نتیجے میں یکم دسمبر 1976ء کے روز بلوچستان ہائی کورٹ کوئٹہ میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے چیف جسٹس خدا بخش مری مقرر ہوئے۔ ذرا پیچھے جائیں تو 14اگست 1935ء میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں عدالتِ عالیہ بننے سے پہلے انصاف کی فراہمی کا انتظام جوڈیشل کمشنر کے ذمے تھا۔ پھر یکم جولائی 1970ء کو مغربی پاکستان کی حکومت نے یہ سسٹم ختم کر دیا اور ایک مشترکہ ہائی کورٹ سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کے نام سے قائم کی گئی۔ دو صوبوں کی یہ مشترکہ ہائی کورٹ نومبر 1976تک دونوں صوبوں میں عدالتی خدمات سرانجام دیتی رہی۔
واہگہ بارڈر کے دوسری جانب چندی گڑھ شہر میں چڑھدا پنجاب اور ہریانہ‘ دونوں ریاستوں کی مشترکہ ہائیکورٹ آج بھی جوڈیشل فنکشن ادا کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو بڑی ریاستوں کی یہ کامن ہائیکورٹ‘ جو دہلی کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہے‘ اُس کی بلڈنگ ہمارے کسی تحصیل کمپلیکس جتنی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد دوسری ہائی کورٹ سال 2010ء میں خطۂ پوٹھوہار کی مارگلہ ویلی کے دامن میں واقع وفاقی دارالحکومت میں قائم ہوئی۔ یہ اکتوبر 2010ء تھا جب میں وفاقی وزیر قانون بنا۔ تب میں نے اس ہائی کورٹ کا افتتاح کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی کہانی بڑی ہنگامہ خیز ہے کیونکہ صوبہ پنجاب کی سیاسی انتظامیہ اُس وقت کے ججز اور اسلام آباد میں برسرِاقتدار ہر رنگ کی بیوروکریسی‘ کیپٹل آف نیشن میں علیحدہ سے ایک پورا جوڈیشل سسٹم قائم کرنے کی بھرپورمخالفت کر رہی تھی۔ اس مخالفت کے پیچھے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ایک سیاسی جج کا ہاتھ تھا جو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے وکلا کو استعمال کرنے کی مہارت رکھتا تھا‘ لیکن کسی قسم کی جوڈیشل ریفارمز اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی اس کے ایجنڈے میں ہمیشہ حرفِ ممنوعہ رہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ مجریہ 2010ء کو روکنے کے لیے مذہبی سیاست کرنے والی دو سیاسی پارٹیاں اس جج کے ساتھ کھڑی ہو گئیں جبکہ (ن) لیگ بھی اینٹی پبلک جسٹس سسٹم گینگ کا اٹوٹ انگ تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ قائم ہونے سے پہلے آبپارہ سے بری امام جانے والی سڑک پر واقع ایک سرکاری کوارٹر میں اسلام آباد کی پہلی عدالت بنی۔ یہ ICT ریزیڈنٹ مجسٹریٹ کی عدالت تھی اور اس کے پہلے مجسٹریٹ پنجاب کے پڑھے لکھے وزیراعلیٰ حنیف رامے کے بھانجے تھے۔ تب تک ایگزیکٹو‘ جوڈیشری سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی۔ اسلام آباد میں کرائم کنٹرول کا سارا کام مجسٹریٹ سیکشن 30 غضنفر ضیا کے ذمے تھا۔ دوسری جانب ایک سیشن جج‘ ایک سینئر سول جج اور ایک سول جج پر مبنی عدلیہ کی مارگلہ ویلی کی مغربی سائیڈ کے گاؤں ''گِدڑ کوٹھہ‘‘ میں زیر تعمیر ایف ایٹ سیکٹر کے کمرشل مرکز کی پہلی تعمیر شدہ 10‘ 12دکانوں میں سے تین دکانوں میں عدالتیں لگتی تھیں۔ جبکہ ایک دکان میں اسلام آباد بار ایسوسی ایشن قائم ہوئی جس کے سامنے گوجر خان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے اپنی بیگم کے نام پر چند مرلے پر گارڈن بنایا۔ جہاں وکیل دھوپ سینکنے کے لیے بیٹھا کرتے۔ یہ ڈھیلا ڈھالا سیمی جوڈیشل سسٹم وفاقی دارالحکومت کے لوگوں کا سال ہا سال تک مقدر رہا۔ بعد میں ڈپوٹیشن پر پنجاب سے کچھ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد آئے اور کچھ سول جج بھی مگر اس عدلیہ کا انتظامی کنٹرول لاہور ہائی کورٹ کے پاس لاہور ہی میں تھا جبکہ شہریوں پر بیورو کریسی کا راج چلتا چلا گیا۔ ان حالات میں اسلام آباد کے لیے علیحدہ ہائی کورٹ کا قیام طاقت ور اشرافیہ اور مافیا‘ دونوں کو خطرے کا گھنٹہ گھر محسوس ہوا۔ چنانچہ لاہور ہائی کورٹ میں آئینی درخواستوں کے ذریعے مجھے مختلف جگہ پہ گھسیٹا گیا۔ ساتھ ساتھ قہر آلود اور زہر آلود سپانسرڈ میڈیا مہم شروع ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس ابتدائی مخالفت کے لیے شہرِ اقتدار کے سارے بڑے طاقتی مراکز نے اپنا حصّہ بقدرِ جُثہ ڈالا۔ جس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی مخالفت کی پہلی وجہ: بے لگام ریاستی طاقت کے بے تحاشا استعمال پر وفاقی دارالحکومت میں نہ تو کوئی واچ ڈاگ تھا‘ نہ بنیادی‘ آئینی اور انسانی حقوق نافذ کرانے کا کوئی فورم یاذریعہ۔ یہ صورتحال واضح کرنے کے لیے آپ کو پرانے بنی گالا کے دو گھروں کی واقعاتی آپ بیتی سنانا کافی رہے گی۔ ان میں سے پہلا گھر عالمی شہرت یافتہ محسنِ پاکستان سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی رہائش گاہ تھی۔ جنہوں نے سی ڈے اے کے سیکٹورل ایریا سے باہر پرائیویٹ مالکان سے زمین خریدی اور اپنی محنت کی کمائی سے گھر بنانا شروع کیا۔ اُن کی دیکھا دیکھی اسلام آباد شہر کے ایک تاجر نے بھی اسی علاقے میں گھرکی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس تاجر کا بیٹا طاہر ایوب اسلام آباد کالج فار بوائز کی سٹودنٹس یونین کے میرے دورِ صدارت میں میرے پینل سے نائب صدر منتخب ہوا تھا۔ ان دو گھروں پر مقامی ڈپٹی کمشنر نے بغیر کسی نوٹس کے انتظامیہ اور پولیس کو بھجوا کر یہ گھر گرانا شروع کر دیے۔ جس پہ بنی گالا کے اصلی نام یعنی موہڑہ نور کے رہائشیوں نے احتجاجی مزاحمت کی۔ بے جا طاقت سے مسلح انتظامیہ نے خالی ہاتھ دیہاتیوں پر بے رحمانہ فائرنگ کر کے چار مقامی شہری مار دیے۔ اس مقدمے میں مَیں ڈاکٹر عبدالقدیر کی سائیڈ سے وکیل مقرر ہوا۔ صرف اس ایک واقع سے آپ اندازہ لگائیں کے شہرِ اقتدار میں مالکانِ اقتدار کس قدر بے مہار تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بعد صرف ایک صد روپے کے خرچے سے شہریوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے‘ سرکاری ملازمین نے اپنے خلاف ہونے والی زور زبردستیوں کو چیلنج کرنے کے لیے اور خواتین کو ورک پلیس پر ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنیادی حقوق کے تحت مقدمات دائر کرکے روزانہ کی بنیاد پر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی مخالفت کی دوسری وجہ: اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتہائی قابل جج مسٹر جسٹس بابر ستار نے چند ماہ پہلے شاندانہ گلزار کے مقدمے میں ایک لینڈ مارک فیصلہ صادر کیا جس کے تحت نہ صرف اسلام آباد کی حد تک MPOکے نفاذ اور اُس کے تحت جاری ہونے والے شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو ماورائے قانون قرار دیا بلکہ تفصیلی فیصلے سے کیپٹل کو صوبائی درجہ دینے کا راستہ بھی کھل گیا۔ جس کی بنیاد اسلام آباد ہائی کورٹ بناتے وقت ICT میں شرقی اور غربی دو اضلاع قائم کرکے پہلے رکھی جا چکی ہے۔ سدا کے حاکم جو قانون‘ آئین‘ اصول‘ ضابطے اور کسی عمرانی معاہدے سے ماورا ہو کر جبروت کو آرڈر آف دی ڈے سمجھتے ہوں‘ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے قاضی کا اس قدر بہادرانہ فیصلہ گستاخی نہیں تو اور کیا لگے گا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز کو دھمکیوں‘ انتھراکس پائوڈر‘ ڈیتھ سائن کے ذریعے عدالت اور عدل چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کو چاہیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ختم کرنے کی سازش کی تہہ تک پہنچے۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے طاقت کے پجاری مسلم فرمانرواؤں کو پہلے ہی وارننگ دے رکھی ہے۔ کفر کا نظام چل سکتا ہے‘ ظلم کا نہیں۔ جب عادل خطرے میں آجائے تو اسے ظلم کی انتہا کہیے۔