پاک چین تعلق کی ابتدا کیسے ہوئی ‘ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرے اس رشتے کی عقلی اور منطقی بنیادیں کیا ہے؟ گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ 1949ء میں امریکہ ماؤزے تنگ کی قیادت میں برپا ہونے والے چینی انقلاب کو جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ وہ اس خطرے کے مقابلے کے لیے بھارت اور پاکستان کے ساتھ اتحاد کا خواہاں تھا مگر بھارت اور امریکہ کے درمیان چینی انقلاب پر بنیادی اختلاف پایا جاتا تھا۔ یہ اختلاف دو سوالوں پر تھا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ یہ چینی انقلاب دراصل ہے کیا؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ اس انقلاب کی وجہ سے امریکی مفادات یا جنوبی ایشیا کو کیا خطرات در پیش ہو سکتے ہیں؟ امریکہ کا یہ مؤقف تھا کہ یہ انقلاب ماسکو کی ہدایات اور رہنمائی میں برپا ہوا ہے اور اس انقلاب کے ذریعے ماسکو سوشلسٹ انقلاب کو پاکستان اور بھارت تک پھیلانے کی کوشش کرے گا۔
دوسری طرف پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کی خارجہ پالیسی ایشین ازم کے ارد گرد ترتیب دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی نوآبادیاتی نظام اور غلبہ ہی دراصل ایشیا میں بے چینی کی بڑی وجہ ہے۔ چینی انقلاب کے بارے میں ان کا تجزیہ تھا کہ چینی سوشل ازم کی جڑیں دراصل ایشین نیشنل ازم میں پیوست ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے نہرو کے نزدیک یورپی نو آبادیاتی نظام ایشیائی عوام کے لیے چینی کمیونزم سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔ ان کو یقین تھا کہ چین میں جو بھی حکومت آئے گی وہ ایشیائی قوم پرستانہ رجحانات کی حامل ہو گی اور وہ ماسکو کی بالا دستی اور ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی۔ یہ نہرو کی حیرت انگیز پیش گوئی تھی جو وقت آنے پر درست ثابت ہوئی۔ انقلاب کے فوراً بعد ہی چینی کمیونسٹ پارٹی کے بعض رہنماؤں نے ماسکو کی پالیسیوں پر اعتراض شروع کر دیا جو بالآخر دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اختلاف پر منتج ہوا۔
پنڈت نہرو اپنے تجزیے کی روشنی میں چینی انقلاب کو خطرہ نہیں سمجھتے تھے اور اس انقلاب کے خوف کے زیر اثر امریکہ کے اتحادی بننے سے گریز کر رہے تھے۔ اس وقت ایشیا میں صورتحال یہ تھی کہ نہرو سمیت کئی ایشین قوم پرست ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسیوں سے نا خوش تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس خطے میں امریکی پالیسیاں یہاں کے عوام کی آزادی کی لڑائی میں عدم دلچسپی یا پھر کھلے عام یورپین نو آبادیاتی قوتوں کی حمایت پر مبنی رہی ہیں۔ دوسری طرف ایشیا اور مغرب کے تعلق کے بارے میں پاکستان کا رویہ بھارت سے بہت مختلف تھا۔ پاکستان کا قیام ہی ایشیا کے ایک علاقے یعنی ہندوستان کی تقسیم کی بنیاد پر ہوا تھا‘ اس لیے پاکستانی رہنماؤں کے ہاں سفید فام اقوام کے خلاف کسی قسم کے علاقائی اتحاد یا علاقائی یکجہتی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو مغربی غلبہ کے خلاف جو ایشیائی اتحاد قائم کرنے کے خواہشمند تھے‘ اس سے پاکستانی رہنماؤں کو کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ وہ نہرو کے خیالات اور عزائم کو مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد بنانے کے بجائے پاکستانی رہنما خود بھارت کو ہی اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔ اس لیے اس مسئلے پر پاکستانی رہنماؤں نے بار بار یہ واضح کیا کہ پاکستان نہرو کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کہ امریکہ یا یورپ ایشیا کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ اور پاکستان اس بات پر بھی یقین نہیں رکھتا کہ اسے کسی علاقائی اتحاد یا عالمی غیر جانب دار تحریک میں شامل ہو کر سرد جنگ کا حصہ بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1949ء میں کہا کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ ایک بلاک ان لوگوں کا ہے جو کمیونزم کی حمایت کر رہے ہیں‘ دوسرا بلاک ان لوگوں کا ہے جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور قاہرہ سے لے کر کراچی تک مسلم دنیا دوسرے بلاک میں فٹ ہوتی ہے۔ اس سوچ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے آگے چل کر پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے نزدیک غیر جانبداری فینس سیٹنگ کی طرح ہے‘ کسی ملک کا دو بڑی طاقتوں کے درمیان اس امید کے ساتھ غیر جانبدار رہنا کہ وقت آنے پر وہ اس کو ایک دوسرے سے بچانے کے لیے اس کی مدد کریں گی‘ ایک احمقانہ خیال ہے۔ تاریخ اس طرح کے ملکوں کے درد ناک انجام کی گواہ ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ وہ بھارت سے زیادہ طاقتور قوت کے ساتھ اتحاد قائم کرے اور اس مقصد کے لیے مغرب سے بہتر کوئی آپشن دستیاب نہیں ہے۔
پاکستانی لیڈر شپ کی سوچ بالکل واضح تھی کہ سرد جنگ میں مغرب قوتوں کا اتحادی بن کر ان کا ساتھ دیا جائے۔ دوسری طرف ماضی کے نو آبادیاتی نظام کے تلخ تجربے کی روشنی میں نہرو ہر اس چیز کے بارے میں مشکوک تھا جس کی کسی طرح بھی نو آبادیاتی نظام سے کسی قسم کی کوئی مماثلت ہو۔ اس تجربے اور حساسیت کی بنیاد پر نہرو نے مشرقی ایشیا میں امریکی مداخلت پر کھلے عام تنقید کی۔ انڈونیشیا میں ڈچ کارروائیوں پر بھارت اور امریکہ کے درمیان اس وقت سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا جب ڈچ فورسز نے اقوام متحدہ کے تحت قائم کیے گئے امن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیز فائر لائن پار کی اور انڈونیشیا کی ریپبلک آرمی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعہ کے خلاف یوں تو ایشیا کے کئی قوم پرست لیڈروں نے آواز بلند کی مگر ان میں سب سے اونچی آواز جواہر لال نہرو کی تھی۔ اس نے کہا کہ نیدرلینڈ مرتے ہوئے نو آبادیاتی نظام کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور عوام کے خلاف مسلح دستوں کو استعمال کر رہا ہے۔ میرل نے اپنی کتاب ''انڈو امریکن تعلقات‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا کہ پنڈت نہرو نے واضح طور کہا کہ ڈچ جارحیت میں امریکہ ملوث ہے اور نیدر لینڈ کی جارحیت کو امریکی آشیرباد حاصل ہے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی ایک تجزیہ کاروں نے لکھا کہ امریکہ نہرو کے سخت ردعمل پر حیران رہ گیا۔ ان کے خیال میں یہاں اقوام متحدہ امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور امریکی اس کوشش میں اس کی مدد کر رہے تھے۔ آگے چل کر نہرو نے اپنا رویہ نرم کرنے کی کوشش کی۔ جنوری 1949ء کی نیو دہلی کی کانفرنس میں نہرو نے امریکہ کی طرف دوستانہ رویہ اپنایا۔ اس کانفرنس میں انہوں نے نیدر لینڈ پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں دہرایا اور نہ ہی انہوں نے اس کانفرنس میں امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے حسب سابق ایک آزاد ایشین بلاک کے قیام کا مطالبہ اٹھایا۔ اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ ایچی سن نے مسرت کا اظہار کیا کہ کانفرنس میں مغرب دشمن بلاک کی تشکیل کی بات نہیں ہوئی اور اس نے ہیری ٹرومین انتظامیہ کی اس خواہش کو دہرایا کہ وہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔
دوسری طرف چین کے سوال پر پاکستان کی پوزیشن واضح تھی۔ پاکستان کی لیڈر شپ نظریاتی اعتبار سے انقلابِ چین اور ماؤ کے قوم پرستانہ سوشلسٹ نظریات کے سخت خلاف تھی مگر اس کا خیال تھا کہ اس اختلاف کے باوجود وہ چین کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور چین بھارت کے خلاف ان کا ایک قریبی حلیف بلکہ سٹریٹجک پارٹنر بن سکتا ہے۔
چین کو لے کر پاکستان کی یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب رہی جس کا جائزہ آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔