گزشتہ کسی تحریر میں عرض کیا تھا کہ کورین جنگ‘ سویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ‘ اس کے بلند پرواز عزائم اورمشرق وسطیٰ میں اس کی پیش قدمی کی وجہ سے خطے کے بارے میں امریکی فکر مندی بڑھ گئی تھی۔ برطانیہ مشرق وسطیٰ میں پہلے کی طرح کوئی بڑا کردار ادا کرنے سے مسلسل معذرت کر رہا تھا۔ ان حالات میں امریکہ کے لیے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ مشرقِ وسطیٰ کے دفاع کے لیے اس خطے میں فوجی موجود گی ناگزیر ہے‘ لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ جوائنٹ چیف آف سٹاف نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کسی ایسے عمل کی سخت مخالفت کی تھی‘ جس کی وجہ سے امریکی فوجوں کو مشرق وسطی میں تعینات کرنا پڑے؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے کسی متبادل فوج کی تلاش لازم تھی۔ پاکستان کے مختلف رہنما مختلف اوقات میں اس مقصد کے لیے اپنی رضامندی اور تیاری کا بار ہا اظہار کر چکے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ بن چکی تھی کہ امریکہ اپنی فوجیں براہ راست مشرقِ وسطیٰ میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اور اس خطے میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں تھا جس کے پاس پاکستان کی طرح باقاعدہ تربیت یافتہ فوج موجود ہو اور وہ اس خطے میں اپنی فوجی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ یہ کام صرف پاکستان کر سکتا تھا؛ چنانچہ یہ امریکی ضرورت اور پاکستانی اہمیت تھی جو بالآخر آگے چل کر 1954ء کے پاک امریکی معاہدے کی وجہ بنی۔ امریکی حساب کتاب کے مطابق اس معاہدے سے امریکہ کو پاکستان کی شکل میں ایک مقامی فوجی شراکت دار ملتا تھا جس سے خطے میں عدم استحکام پر قابو پانے اور سوشلزم کی پیش قدمی روکنے میں مدد مل سکتی تھی۔ اس مسئلے پر امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین کے درمیان ہونے والے کئی اجلاسوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا چکا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی صورت میں پاکستان فوجی اعتبار سے ایک مفید اتحادی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے بہت پہلے فروری 1951 ء میں استنبول میں امریکی چیفس آف مشن کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کر لیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے سکیورٹی کے نظام میں پاکستان کی فوجی شمولیت ضروری ہے۔ اس طرح کی رائے کا اظہار سیلون میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک میٹنگ میں بھی کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مارچ کے وسط میں مالٹا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں امریکی اور برطانوی اہل کاروں نے زور دیا تھا کہ پاکستانی فوجوں کی موجودگی ان علاقوں میں بہت زیادہ مد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
لندن کی ایک کانفرنس میں بھی پاکستان کی فوجی اہمیت کو تسلیم کیا گیا تھا‘ جس میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ جارج میکگی نے زور دیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی کے لیے پاکستانی فوج کی موجودگی ایک فیصلہ کن عنصر ہوگا۔ میکگی نے پنٹا گون کو بتایا کہ پاکستان کو ساتھ ملا کر مشرق وسطیٰ کا دفاع کیا جا سکتا ہے‘ لیکن بغیر پاکستان کے مشرق وسطیٰ کے دفاع کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ برطانیہ نے بھی اس بات سے اتفاق کیا تھا‘ مگر ان کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان کی اس طرح کی شرکت کافی مہنگی پڑے گی‘ کیونکہ پاکستان اس کے بدلے میں مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط بھی رکھے گا جس کی وجہ سے بھارت ناراض ہو کر دولتِ مشترکہ سے نکل سکتا ہے۔ امریکہ بھی اس معاملے میں کچھ تحفظات رکھتا تھا۔ جون میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اہل کاروں کو بتایا کہ پاکستان کی کسی فوجی بندوبست میں شمولیت کے ساتھ کافی خطرات جڑے ہیں۔ اس میں ایک خطرہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے واشنگٹن اور دہلی کے درمیان دوریاں بڑھ سکتی ہیں۔ لیکن پاکستان اپنے راستے میں حائل ان مشکلات پر قابو پانے کی مسلسل تگ و دو میں تھا۔ پاکستان نے اس دوران امریکہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے دفاع میں اپنی شراکت داری کے لیے نئی جدوجہد شروع کرد ی تھی۔ لیاقت علی خان نے ڈین ایچیسن کو ایک تفصیلی خط لکھا تھا کہ پاکستان عالمی حالات کے تناظر میں اپنی تیاری کے سلسلے میں فکر مند ہے اور اسے امریکی امداد کی فوری ضرورت ہے۔
ستمبر میں پاکستان کے وزارتِ خارجہ کے ایک وفد نے اکرام اللہ کی قیادت میں کراچی میں امریکی سفیر سے درخواست کی کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے دفاع کے لیے پاکستان سے فورا ًمذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس دوران ایوب خان پاکستان کے پہلے مقامی آرمی چیف بن چکے تھے‘ انہوں نے بطور آرمی چیف امریکی سفیر سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر فور ی اقدامات کریں۔ اکتوبر کے وسط میں اکرام اللہ نے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ سے ملاقات میں کہا کہ ان کو ہر حالت میں فوجی سازو سامان کی ضرورت ہے‘ خواہ یہ سامان تحفے کے طور پر ملے‘ بطور قرض دیا جائے یا خریدنا پڑے۔18 اکتوبر1951ء کو اس گفتگو پر میمورنڈم لکھتے ہوئے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے لکھا کہ اکرام اللہ نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ فوجی اور مالیاتی ماہرین کو لے کر اسلحہ کی خریداری کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ 18 اکتوبر کے اس طرح کے ایک اور دلچسپ میمورنڈم میں جنوبی ایشیا کے معاملات کے ڈائریکٹر ڈونلڈ کینیڈی نے لکھا کہ اکرام اللہ نے انتہائی جذباتی انداز میں مجھے بتایا کہ امریکہ کو پاکستان کے بارے میں اپنا ذہن بنانا چاہیے‘ کشمیر کا مسئلہ گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو حکومت کی کشمیر پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔ کراچی میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کے بعد سوویت یونین ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے‘ ملک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اگر امریکہ ہماری مدد نہیں کرتا تو حکومت کی پوزیشن اور زیادہ خراب ہو گی۔ پاکستان مغرب سے مایوس ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسے مطلوبہ اسلحہ اور امداد فراہم کی جائے۔
جوں جوں مشرق وسطیٰ میں حالات خراب ہوتے جا رہے تھے پاکستان امریکہ پر امداد دینے کے لیے دبا ؤ میں اضافہ کر رہا تھا‘ اس صورتحال میں امریکہ نے پاکستان کو جنوبی ایشیا سے زیادہ مشرق وسطیٰ کا حصہ سمجھ کر معاملہ کرنا شروع کر دیا جبکہ اس سے پہلے برطانیہ کے نزدیک پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ تھا اور اس کے ساتھ کسی قسم کی شراکت داری دولت مشترکہ اور بھارت کے ساتھ مل کر ہی ہو تو بہتر ہے۔ امریکہ کے نزدیک پاکستان اور بھارت کا اس طرح کی کسی مشترکہ کوشش کا حصہ بننا ممکن نہیں تھا‘ اس کے بجائے امریکہ کے لیے یہ بہتر تھا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے ایسے بلاک کی قیادت کرے جو سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا اتحادی ہو۔ امریکہ کے نزدیک جنوبی ایشیا سے زیادہ اس وقت مشرق وسطیٰ کو دفاع کی ضرورت تھی۔ کچھ امریکی ماہرین کا خیال تھا کہ ایران اور مصر میں پائی جانے والی انتہا پسندی کی نسبت پاکستان کہیں زیادہ ماڈریٹ ملک ہے اور مغرب کی طرف بہت زیادہ مائل ہے اور اس کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے 1950 ء کے پیپر میں تو یہاں تک لکھا گیا کہ پاکستان مشرقی مائنڈ سیٹ سے زیادہ مغربی مائنڈ سیٹ رکھتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ تجزیہ در اصل ایران کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا تھا جہاں قوم پرست محمد مصدق برسر اقتدار تھے‘ اور ان کو بیک وقت دائیں بازو کے بنیاد پرستوں اور بائیں بازو کی تودہ پارٹی کی شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ یہ دونوں قوتیں مغرب کی شدید مخالف تھیں۔ آگے چل کر حالات نے جو رخ اختیار کیا‘ اس کا تذکرہ آئندہ کسی تحریر میں کیا جائے گا۔