دنیا میں جو الزامات امریکہ پر بطور سپر پاور لگتے رہے ہیں‘ اب وہ چین کے خلاف عام سنائی دے رہے ہیں۔ دنیا میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ چین اپنی من پسند حکومت لانے کے لیے دوسرے ملکوں کے انتخابی عمل میں مداخلت کر رہا ہے۔ دنیا میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ دنیا میں جن ممالک پر چین کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ ہے‘ ان میں پاکستان پہلے نمبر پر آتا ہے۔ کمبوڈیا اور سنگاپور کا دوسرا اور تیسرا نمبر ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک چین پر پاکستان کے انتخابات میں کسی قسم کا الزام سامنے نہیں آیا‘ جبکہ چین اس حوالے سے دنیا بھرمیں زیرِ بحث ہے۔ حال ہی میں کینیڈا میں چین کی مداخلت کے حوالے سے ایک سروے ہوا ہے۔ اس سروے کو بلومبرگ جیسے عالمی میڈیا نیٹ ورک نے بہت نمایاں جگہ دی ہے۔ اس سروے کے مطابق‘ کینیڈا کے دو تہائی باشندوں کو شبہ ہے کہ چین نے کینیڈین انتخابات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی لبرل پارٹی کو اقتدار میں واپس لانے میں مدد دی ہے۔ یہ شبہ کرنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ مبینہ مداخلت کینیڈا کی جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے سکینڈل پر وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا رد عمل اتنا سخت نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ کینیڈا میں حالیہ دنوں میں مقامی اور عالمی میڈیا رپورٹس کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ ان رپورٹس میں خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں الزام لگایا گیا ہے کہ چین نے 2019 ء اور 2021ء کے کینیڈا میں ہونے والے انتخابات اور ووٹوں میں مداخلت کی کوشش کی تھی۔جب میڈیا نے اس معاملے کو آشکار کیا تو وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس معاملے کی عوامی انکوائری کرانے کے دباؤ کی مزاحمت کی کوشش کی۔
دوسری طرف چینی مداخلت کے الزامات کی رپورٹس پر سخت مؤقف مرکزی اپوزیشن کنزرویٹو کے حامیوں کی طرف سے آیا ہے۔ اینگس ریڈ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے اس سروے میں دائیں بازو کی اس جماعت کے حامیوں کی اکثریت نے کہا ہے کہ چین کی مداخلت کے الزامات درست ہیں اور ان کی پبلک انکوائری لازم ہے۔ انگس ریڈ کے صدر شاچی کرل نے ایک ای میل کے ذریعے کہا ہے کہ کنزرویٹو کے حامیوں کے درمیان یہ یقین عام ہے کہ چین نے انہیں 2021ء میں الیکشن جیتنے سے روکا تھا۔ پارٹی سے ہٹ کر اگر مجموعی طور پر سروے کو دیکھا جائے تو‘ 32 فیصد جواب دہند گان نے کہا کہ چین نے یقینی طور پر کینیڈا کے حالیہ انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی جبکہ 33 فیصد نے کہا کہ اس نے شاید ایسا کیا ہو۔ صرف چھ فیصد نے سوال کا قطعی نفی میں جواب دیا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری طرف حکومتی عہدیداروں کے ایک غیر جانبدار گروپ نے گزشتہ قومی انتخابات کی سالمیت پر ایک مطالعہ جاری کیا جس میں ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان انتخابات میں وزیر اعظم ٹروڈو نے تیسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی‘ لیکن پارلیمانی اکثریت سے محروم رہے‘ جس کی وجہ سے انہیں اپنی مرضی کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا اختیار مل سکتا تھا‘ لیکن اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کا سہارا لینا پڑا۔ پارٹی کے اس پینل نے کہا کہ قومی سلامتی کے اداروں نے غیر ملکی مداخلت کی کوششیں ضرور دیکھی ہیں لیکن یہ کوششیں انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی حد پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؛ تاہم انگس ریڈ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ 42 فیصد کنزرویٹو ووٹروں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ 2021 ء کا الیکشن چینی مداخلت کی وجہ سے 'چوری‘ہو گیا تھا۔ لیکن اس خیال کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں نے قبول نہیں کیا۔
دوسری طرف کچھ عرصہ پہلے دنیا کے سامنے جسٹن ٹروڈو اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی‘ جو چین اور کینیڈا کے درمیان بگڑتے تعلقات کا شاخسانہ تھی‘لیکن اس کے باوجود چین کنزرویٹو کے مقابلے میں لبرل پارٹی کے ساتھ کاروبار اور معاملات کرنا زیادہ مناسب تصور کرتا ہے‘ چونکہ آج کل کینیڈا کے کنزرویٹو انسانی حقوق کے مسائل اور قومی سلامتی کے خدشات پر چین کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چین کا مؤقف ہے کہ وہ کینیڈا کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور کینیڈا کو بیجنگ کی حکومت کو بے بنیاد الزامات کے ساتھ بد نام کرنا بند کرنا چاہیے۔ اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ چینی انتخابات میں مبینہ مداخلت ٹروڈو کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ کرل کے مطابق یہ بتانا بہت قبل از وقت ہے کہ آیا یہ مسئلہ ٹروڈو کو دیرپا نقصان پہنچائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ابتدائی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر فی الحال کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے لیکن اس سے عوامی موڈ کا واضح اندازہ ہوتا ہے۔
سروے سے پتا چلا ہے کہ53 فیصد جواب دہندگان کے خیال میں الزامات پر ٹروڈو کا ردعمل کافی مضبوط نہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کینیڈا مزید کارروائی کرے۔ تقریباً 64 فیصد نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کینیڈا قومی سلامتی اور دفاع پر کافی توجہ نہیں دے رہا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ٹروڈو کی حکومت چین کا مقابلہ کرنے سے ڈرتی ہے‘ 69 فیصد نے کہا کہ وہ اس سے متفق ہیں۔ کینیڈا کے مقامی مین سٹریم میڈیا براڈکاسٹر ''گلوبل نیوز‘‘ اور گلوب اینڈ میل اخبار کی رپورٹنگ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ٹروڈو نے خفیہ بریفنگ حاصل کی تھی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ چین نے کچھ امیدواروں کو پارلیمنٹ کے لیے منتخب کرانے کی کوشش کی ہے اور چین نے حکومت کے لیے لبرلز کو کنزرویٹو پر ترجیح دینے کی بات کی ہے۔کینیڈین وزیر اعظم نے ان کہانیوں کو غلط قرار دیا ہے‘ لیکن انہوں نے اس بارے میں تفصیل میں جانے سے انکار کیا کہ وہ اصل میں کس چیز سے اختلاف کرتے ہیں۔ رپورٹس میں یہ دعوے شامل تھے کہ چین نے بعض امیدواروں کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلائیں اور پیسے اور رضاکاروں کو ان لوگوں کی طرف بڑھایا جن کو وہ منتخب دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کا مطالعہ کر رہی ہے جو ٹروڈو کے قومی سلامتی کے مشیر جوڈی تھامس سمیت حکومتی گواہوں سے ان کے بیانات سنے گی۔
ان حالات میں پاکستان کے حالیہ برسوں میں ہونے والے انتخابات میں چین پر کسی قسم کی مداخلت کا الزام نہ لگنا کچھ لوگوں کے لیے باعثِ حیرت ہے مگر کچھ دانشور اس پیچیدہ سوال کا یہ سادہ جواب دیتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کے نظریات اور پالیسیاں بالکل ایک ہیں۔ ان کے درمیان دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق بالکل مٹ چکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر سب کی پالیسی ایک ہے۔ کسی پارٹی نے کبھی چین مخالف سوچ نہیں اپنائی اور نہ ہی بعض عالمی حلقوں کی طرف سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر اٹھائے جانے والے سوالات پر کسی قسم کی تشویش یا تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان حالات میں چین کے لیے اب تک پاکستان کی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ کام کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا‘ اس لیے وہ انتخابی عمل میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کر تا ہے۔