میں نے گزشتہ کالموں میں نظریۂ ضرورت اور عدالتوں کے کردار کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیا تھا۔ میرے اس تجزیے کی بنیاد مولوی تمیزالدین کیس تھا جس کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے کا اگلا اہم مقدمہ ''دوسو بنام ریاست‘‘ ہے۔ اس اہم مقدمے کے حقائق یہ ہیں کہ دوسو ایک عام قبائلی آدمی تھا جس کا تعلق لورالائی بلوچستان سے تھا۔ دوسو کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے خلاف ایف سی آر 1901ء کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی۔ ایف سی آر 1901ء بنیادی طور پر انگریزوں کا بنایا ہوا قانون تھا جو انہوں نے قبائلی علاقوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ یہ قانون برطانوی ہند میں رائج باقی قوانین سے مختلف تھا۔اس قانون کا واحد مقصد پشتون بغاوتوں اور مزاحمت کی تحریکوں کو کچلنا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے بہت دیر بعد تک یہ قانون من و عن نافذ العمل رہا اور اس قانون کے تحت قبائلی علاقوں کے لوگوں کے خلاف مقدمات چلائے جاتے رہے۔ دوسوکو اس قانون کے تحت چارج کرنے کے بعد لویا جرگہ کے حوالے کیا گیا۔ سیکشن گیارہ کے تحت لویا جرگہ نے دوسو کو قتل کیس میں مجرم قرار دے دیا۔ یہ کیس دوسو بنام ریاستِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسو کے لواحقین نے لویا جرگہ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر دی۔ دوسو کے وکیل کا یہ استدلال تھا کہ دوسو پاکستانی شہری ہے‘ اس کے خلاف ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی جواز نہیں‘ اس لیے اس کے خلاف عام پاکستانی قوانین کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ نے 1956ء کے آئین کے تحت مقدمہ کی سماعت کی اور دوسو کے حق میں فیصلہ کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف سی آر آئین سے متصادم ہے اور دوسو پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے 1956ء کے آئین کی دفعہ پانچ اور سات کے تحت مساوی سلوک کا حقدار ہے۔ عدالت نے 1956ء کے آئین کے آرٹیکل پانچ اور سات کا حوالہ دیا۔ آئین کے آرٹیکل پانچ کے مطابق قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں اور آرٹیکل سات کے مطابق تمام شہریوں کو آئین کا مساوی تحفظ حاصل ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایف سی آر 1956ء کے آئین سے متصادم ہیں۔ یہ امتیازی سلوک پر مبنی ہیں جبکہ آئین تمام شہریوں کو مساوی تحفظ دیتا ہے۔ عدالت نے لویا جرگہ کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ان تمام مقدمات پر سوالیہ نشان لگا دیاجو 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ایف سی آر کے تحت چلائے گئے تھے۔ وفاقی حکومت نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے اس مقدمہ کی سماعت کے لیے 13اکتوبر 1958ء کی تاریخ مقرر کی لیکن اس تاریخ سے چھ دن پہلے صدر اسکندر مرزا نے پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا‘ وفاقی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے نیا لیگل آرڈر جاری کر دیا۔ اس نئے لیگل آرڈر کے تحت تمام پرانے قوانین کی توثیق کر دی گئی مگر 1956ء کے آئین کی توثیق نہیں کی گئی۔ اس دوران دوسو کیس اپیل کے لیے سپریم کورٹ پہنچا۔ قانونی ماہرین پُر امید تھے کہ دوسو کیس کی سماعت کے دوران مارشل لاء کی قانونی حیثیت اور 1956ء کا آئین بھی زیر بحث آئے گا۔ اگر سپریم کورٹ اس کیس کی اپیل کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دے دیتی تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا کہ 1956ء کا آئین ابھی تک نافذ العمل ہے کیونکہ ہائی کورٹ نے اس کیس کا 1956ء کے آئین کی دفعہ پانچ اور سات کے تحت فیصلہ کیا تھا‘ اور اگر 1956ء کے آئین کو ابھی تک نافذالعمل مان لیا جاتا تو مارشل لاء آرڈر 1958ء کے تحت ملکی قوانین کے حوالے سے جو آرڈر جاری کیے گئے تھے‘ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اتفاق سے اس اپیل کے دوران بھی مولوی تمیزالدین کیس کی طرح بینچ کے سربراہ جسٹس محمد منیر ہی تھے۔ جسٹس محمد منیر نے تمام توقعات اور تجزیوں کے بر عکس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے لیے کسی واضح نظیر یا قانون کی عدم موجودگی میں انہوں نے قانون دان اور مفکر ہینس کیلسن کی ''جنرل تھیوری آف لاء اینڈ سٹیٹ‘‘ پر انحصار کیا۔
کیلسن ایک آسٹرین جیورسٹ اور فلاسفر تھا‘ اس نے 1920ء میں آسٹریا کا آئین لکھا تھا جو مختلف ترامیم سے گزرنے کے بعد آج بھی نافذ ہے۔ بہر کیف جسٹس محمد منیر کے فیصلے نے 1958ء کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کو ایک پُر امن تبدیلی قرار دیا گیا جس میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ دلیل دی کے چونکہ اس پُرامن تبدیلی کی عوام نے کوئی مزاحمت یا مخالفت نہیں کی‘ اس لیے اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ عوام اس تبدیلی یا انقلاب سے مطمئن ہیں‘ اس لیے یہ مارشل لاء قانونی طور پر جائز ہے۔ عدالت نے 1958ء کے نیو لیگل آرڈر کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرانا لیگل آرڈر یعنی 1956ء کا آئین منسوخ ہو چکا ہے۔ عدالت نے مزید دلیل یہ دی کہ چونکہ آئین منسوخ ہو چکا ہے اس لیے ایف سی آر 1901ء اب بھی نافذ العمل ہے اور لویا جرگہ کے فیصلے کی 1958ء کا آرڈر توثیق کرتا ہے۔ یہ کیلسن کی تھیوری کا ایک نیا اور انوکھا استعمال تھا‘ جس کے تحت مارشل لا ء کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
دوسو کیس میں جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں قائم عدالت کے فیصلے نے پاکستان کی سیاست کو بہت گہرائی سے اور بری طرح متاثر کیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف ملک میں پہلے مارشل لاء کو درست قرار دے دیا بلکہ مستقبل کے مارشل لاؤں کے لیے بھی دروازہ کھول دیا۔ مارشل لاء کو جائز قرار دینے کے اس فیصلے نے فوری طور پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کو ایک عشرے تک حکومت کرنے کی طاقت اور اختیار دے دیا۔ ملک میں پہلے سے چیلنج شدہ نیا جمہوری نظام ختم ہو گیا۔ آئین کو مسترد کر کے آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا گیا۔ اس عمل سے آمریت پسند طالع آزماؤں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے بار بار جمہوری حکومتوں کو بر طرف کرنے‘ آئین معطل کرنے اور اقتدار پر قابض ہونے کا عمل دہرایا۔ 1956ء کے آئین کے پس منظر میں نو سال کی جدو جہد تھی۔ اس میں اس اسمبلی کی سات سالہ کاوش بھی تھی جس کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ آئین معطل کرنے سے کئی مسائل کھڑے ہو گئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاملات خراب ہو گئے۔ ابھی تازہ تازہ پاکستان میں اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا‘ اس کا بھی خاتمہ ہو گیا‘ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے برطانیہ کا تخلیق کردہ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن جیسا کالا قانون دوبارہ نافذ ہو گیا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں عدالتوں کی خود مختاری پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا۔ عدالتیں انتظامیہ کے آگے جھکنے پر مجبور ہو گئیں اور عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان علیحدگی کے تصور کو شدید نقصان پہنچا۔ اس صورتحال کا تفصیلی احوال آئندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا۔