پاکستان کے آئین میں مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کا ایک واضح خاکہ موجود ہے لیکن حال ہی میں رونما ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات نے عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان طاقت اور اختیارات کی تقسیم پر ایک بار پھر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ذی شعور شخص ریاست کے ان تینوں ستونوں کی آزادی و خود مختاری کے اصول کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اس پر اتفاقِ رائے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصور پاکستان کے آئین کا حصہ بنا اور اس اصول کے عملی اطلاق کے لیے ایک روڈ میپ دیا گیا لیکن اس اتفاقِ رائے کے باوجود اس اصول کو اس طریقے سے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا جس کا تقاضا ایک کامیاب جمہوری نظام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مشکل اور پیچیدہ وقت میں یہ سوال ایک بار پھر نئے سرے سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ریاست کے یہ ستون ایک دوسرے پر اختیارات سے تجاوز یا ایک دوسرے کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کی شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ صورت حال اتنی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے کہ اس کا حل نکالنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ بہت سارے حلقوں میں عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات کی تقسیم اور ان کی خود مختاری پر کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ موضوع نصابی کتابوں کا حصہ ہے۔
عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی جدید جمہوری نظاموں کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کا مقصد عدالتوں کی آزادی اور غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہے۔ اس تصور کے پس منظر میں صدیوں کی تاریخ ہے۔ البتہ یہ تصور مختلف ممالک میں مختلف انداز میں اپنایا گیا ہے۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا خیال قدیم مصر‘ میسو پوٹیمیا اور یونان کی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔ اس خیال کے آثار تب سے موجود ہیں جب سے ان معاشروں نے ایک منصفانہ اور غیر جانبدار عدالتی نظام کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے آئیں تو اختیارات کی علیحدگی کے جدید تصور کی جڑیں انگریزی کامن لا میں پائی جاتی ہیں۔ 17ویں اور 18ویں صدیوں میں انگریز فلسفیوں اور فقیہوں جیسے جان لاک اور مونٹیسکوئیو نے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اختیارات کو الگ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مونٹیسکوئیو نے اپنے تخلیقی کام ''قانون کی روح‘‘ میں اختیارات کی تین شاخوں یعنی مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ میں علیحدگی کی وکالت کی۔ اس موضوع پر بیرن ڈی مونٹیسکوئیو کے کام کو 1748ء میں شائع کیا گیا۔ اسے اس موضوع پر سیاسی نظریہ کی بنیادی دستاویزات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس تحریر نے حکمرانی کے بارے میں جدید نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے لکھا کہ سیاسی طاقت کو حکومت کی مختلف شاخوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ ظلم کو روکا جا سکے اور فرد کی آزادی کی حفاظت کی جا سکے۔ اس نے تین الگ الگ اختیارات تجویز کیے: قانون سازی کی طاقت‘ قوانین کو نافذ کرنے کا انتظامی اختیار اور قوانین کی تشریح کرنے کا عدالتی اختیار۔ اس اصول نے چیک اینڈ بیلنس کے تصور کی بنیاد رکھی۔ اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ کوئی ایک اتھارٹی زیادہ طاقتور نہ ہو۔ مونٹیسکوئیو نے حکومت کی مختلف شکلوں کا بھی جائزہ لیا‘ بشمول جمہوریہ‘ بادشاہت اور آمریت۔ انہوں نے ان کی طاقتوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ایسے نظامِ حکومت کی وکالت کی جو معاشرے کے مخصوص حالات اور ضروریات کے مطابق ہو۔ انہوں نے جمہوری نظامِ حکومت کی تعریف کی جس کے زیر اثر ان کے خیال میں آزادی کی بہترین حفاظت کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ نظام شہریوں کی شرکت اور اختیار کو تقویت دیتا ہے۔ مونٹیسکوئیو نے آب و ہوا‘ جغرافیہ اور قوانین کے درمیان تعلق کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ اس نے دلیل دی کہ جسمانی ماحول معاشرے کے کردار اور رسم و رواج کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے خیال میں مختلف موسموں نے مختلف مزاج اور سماجی ڈھانچے کو جنم دیا۔ مونٹیسکوئیو نے تجویز پیش کی کہ قوانین کو مقامی حالات اور ثقافتی اصولوں کے مطابق ڈھال لیا جانا چاہیے اور ایک لچک دار قانونی نظام ہونا چاہیے جو اس کے زیر انتظام لوگوں کی ضروریات اور خصوصیات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نے استبداد اور ظلم کی نوعیت کا وسیع پیمانے پر تجزیہ کیا اور اس تجزیے کی روشنی میں چند ہاتھوں میں مرتکز طاقت اور مطلق العنانیت کے خطرات کے خلاف خبردار کیا۔ اس نے لکھا کہ غاصب حکومتیں بدعنوانی اور جبر کو جنم دیتی ہیں۔ انہوں نے طاقت کے غلط استعمال کو روکنے اور شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کیلئے سیاسی اداروں اور قانونی رکاوٹوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ''قانون کی روح‘‘ نے سیاسی فکر کی ترقی پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کے خیالات نے آگے چل کر دنیا کے مختلف ممالک میں آئین بنانے والوں کو متاثر کیا‘ جنہوں نے حکومت کے ڈھانچے میں اختیارات کی علیحدگی کے تصور کو شامل کیا۔ مونٹیسکوئیو کے کام نے آئین پرستی‘ قانون کی حکمرانی اور اس خیال کو فروغ دینے میں مدد کی کہ سیاسی طاقت محدود اور جوابدہ ہونی چاہیے۔
یہ کتاب مجموعی طور پر سیاسی نظریے کی ایک جامع اور بصیرت انگیز تحقیق ہے جس میں حکومت کی نوعیت‘ طاقت کی تقسیم اور قانون کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اختیارات کی علیحدگی اور چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت کے بارے میں مونٹیسکوئیو کے خیالات جدید جمہوری نظاموں میں بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔ امریکی آئین پر اس کے اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 1788ء میں توثیق شدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین نے اختیارات کی واضح علیحدگی کے ساتھ ایک نظامِ حکومت قائم کیا۔ جیمز میڈیسن اور الیگزینڈر ہیملٹن سمیت آئین بنانے والے مونٹیسکوئیو کی تحریروں سے بہت متاثر تھے۔ امریکی آئین کا وفاقی ججوں کے لیے تاحیات تقرریوں کے ساتھ ایک آزاد عدلیہ کا قیام عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کو مستحکم کرنے کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب نے بھی طاقتوں کی علیحدگی کے تصور کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ 1789ء میں اپنائے جانے والے انسان اور شہری کے حقوق کے فرانسیسی اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا کہ عدلیہ کو قانون سازی اور انتظامی شاخوں سے الگ ہونا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ انیسویں اور بیسویں صدیوں میں‘ دنیا میں بہت سے ممالک نے تحریری آئین کو اپنایا جس میں اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو شامل کیا گیا۔ ان ممالک نے اپنے آئینوں میں عدلیہ‘ انتظامیہ اور قانون سازی کی شاخوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا خاکہ پیش کیا اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے آئین میں دفعات شامل کیں۔ آگے چل کر ہمارے عہد میں عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے اصول کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس کی تائید کی گئی۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور اس کے بعد کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے کنوینشنز اور پروٹوکولز نے قانون کی حکمرانی کے ایک بنیادی جزو کے طور پر آزاد عدلیہ کی اہمیت پر زور دیا۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے اصول کا عملی نفاذ مختلف ممالک کے قانونی نظام اور آئینی فریم ورک کی بنیاد پر مختلف ہو سکتا ہے۔ دنیا میں آج جتنے بھی کامیاب اور تہذیب یافتہ ممالک ہیں‘ ان میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات واضح طور پر تقسیم ہیں اور ان سب ملکوں میں اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔