حکمران اشرافیہ ملک کی خودمختاری کے بارے میں فکر مند ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر آئی ایم ایف سے قرض لے سکتی ہے۔ یہ سوچ نیک خواہش سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخ میں آج تک کسی ملک نے آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر قرضہ نہیں لیا۔ اس کے برعکس قرض کے خواہاں ملکوں کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ قرض کی شرائط پر بات چیت ہو سکتی ہے جیسا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے ان شرائط پر بات چیت ہو رہی ہے‘ مگر ان مذاکرات کے باوجود یہ ادارہ اپنی بنیادی شرائط پر قائم ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنے والے رکن ممالک کو مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ کسی ملک کو قرض فراہم کرنے کا فیصلہ مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ ملک خواہ کوئی بھی ہو‘ آئی ایم ایف کے پاس کچھ معیار اور شرائط ہیں۔ یہ شرائط اس ادارے سے قرض لینے کے لیے پوری کرنی ضروری ہوتی ہیں۔ جس دن کوئی ملک یہ شرائط مان لیتا ہے‘ وہ اپنی معاشی و مالیاتی خود مختاری پر سمجھوتا کر لیتا ہے۔ آئی ایم ایف قرض کے خواہاں ملکوں کی خواہشات اور شرائط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط پر قرض دیتا ہے۔ اگر کسی ملک کو ان شرائط کی وجہ سے اپنی خود مختاری خطرے میں نظر آئے اور وہ شرائط ماننے سے انکار کر دے تو آئی ایم قرض دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ اپنے پروگرام میں شامل کرنے اور مالی امداد فراہم کرنے سے پہلے آئی ایم ایف اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کسی ملک کی صلاحیت کا اندازہ لگاتا ہے۔ اگر کسی ملک کے قرضوں کا بوجھ آئی ایم ایف کے حساب کتاب کے مطابق اتنا بڑھ چکا ہو کہ وہ ملک اپنے قرض قابلِ عمل طریقے سے ادا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو آئی ایم ایف اضافی قرضے فراہم نہیں کر سکتا۔
ملک کے قرضوں کے بوجھ اور ادائیگی کی صلاحیت کی تشخیص کرنے میں ملک کے قرض سے جی ڈی پی کا تناسب‘ مالیاتی پالیسیاں اور اقتصادی ترقی کے امکانات جیسے عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی صورت میں یہی عوامل زیر غور اور مکالمے کا موضوع ہیں۔ آئی ایم ایف اکثر ممالک کو قرض دینے سے پہلے کچھ اہم اور بنیادی نوعیت کی شرائط عائد کرتا ہے۔ ان کڑی شرائط کے تحت یہ ادارہ کچھ اقتصادی اور ساختی اصلاحات نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان اصلاحات میں مالیاتی استحکام کے اقدامات‘ مانیٹری پالیسی کی ایڈجسٹمنٹ‘ مارکیٹ کی لبرلائزیشن‘ سرکاری اداروں کی نجکاری‘ ٹیکس کا نظام‘ سبسڈیز کا خاتمہ‘ گورننس اور شفافیت میں بہتری شامل ہو سکتی ہیں۔ ان شرائط میں سرمایہ داری نظام اور نیو لبرل ازم کا معروف ایجنڈا نمایاں ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک اس طرح کی اصلاحات کرنے پر آمادہ نہ ہو یا ایسا کرنے سے قاصر ہو تو وہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے لیے اہل نہیں ہو سکتا۔ آئی ایم ایف قرض کی اہلیت کا فیصلہ کرتے وقت ملک کے سیاسی استحکام اور اس کی اقتصادی پالیسیوں کی ساکھ کو مدنظر رکھتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ سیاسی عدم استحکام یا پالیسی میں اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا مشکل ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف صرف ان ممالک کے ساتھ کام کرتا ہے‘ جن کے پاس ضروری اقتصادی اصلاحات کے نفاذ کے لیے مستحکم اور سازگار ماحول ہو۔ آئی ایم ایف اس بات پر بھی غور کرتا ہے کہ آیا کسی ملک کے پاس فنانسنگ کے متبادل ذرائع تک رسائی ہے۔ اگر کوئی ملک دوسرے ذرائع سے کافی فنڈز حاصل کر سکتا ہے‘ جیسا کہ دو طرفہ قرضوں یا نجی کیپٹل مارکیٹوں کے ذریعے‘ تو آئی ایم ایف ان قرضوں کی شرائط میں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ کسی ملک کو اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ان ممالک سے قرض لینے کا مشورہ دے سکتا ہے جیسا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ چین اور سعودی عرب سے قرض لے کر اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ بن کر اس ادارے سے قرض لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرض لینے والا ملک اپنی بنیادی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے تیار کردہ روڈ میپ کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اس سے ملکی خودمختاری پر سمجھوتا تو لازم ہے مگر دوسری طرف اس بات کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی کہ قرض لینے والا ملک آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط مان لینے کے باوجود اپنے معاشی بحران یا مشکلات سے نکل سکتا ہے۔
تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اس ادارے کے پروگرام میں شامل ہونے کے باوجود ملکوں کے معاشی بحران مزید گہرے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مثالیں موجود ہیں جن کا ذکر تحریر کی طوالت کا باعث بنے گا مگر یہاں ان چند ممالک کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو آئی ایم ایف کے قرضے حاصل کرنے کے باوجود مالیاتی چیلنجز کا شکار رہے ہیں۔ ان ممالک میں ارجنٹائن سرفہرست ہے۔ ارجنٹائن نے کئی دہائیوں کے دوران کئی مالیاتی بحرانوں کا سامنا کیا ہے جن میں تازہ ترین 2018ء میں پیش آیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے دیے گئے متعدد قرضوں اور امدادی پروگراموں کے باوجود ملک نے بلند افراطِ زر‘ کرنسی کی قدر میں کمی‘ مالیاتی عدم توازن اور قرضوں کے بہت بڑے بوجھ کا سامنا کیا ہے۔ ارجنٹائن کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے میں آئی ایم ایف کے قرضوں کا بڑا کردار ہے مگر ان قرضوں کی بنیاد پر عوام کو جو خواب دکھائے جاتے رہے‘ وہ کبھی پورے نہیں ہوئے۔ یونان بھی اس صورتحال کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ یونان کو 2010ء میں شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ملک نے آئی ایم ایف کے تعاون سے متعدد بیل آؤٹ پروگراموں کو اپنایا۔ انتہائی کڑی اور عوام کے مفادات سے متصادم شرائط پر قرضے لینے کے باوجود یونان نے معاشی کساد بازاری‘ بیروزگاری کی بلند شرح‘ عوامی قرضوں کی جدوجہد اور سماجی بدامنی کو برداشت کیا۔ یونانی بیل آؤٹ کو ملکی معیشت اور سماجی بہبود پر پڑنے والے گہرے اثرات کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ سے پہلے کا یوکرین بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
یوکرین کو سیاسی عدم استحکام اور تنازعات سمیت اقتصادی اور مالیاتی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ اس نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور ساختی اصلاحات نافذ کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے متعدد بار قرضے حاصل کیے۔ اس کے باوجود یو کرین کو سخت قسم کے اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا۔ ان سب مثالوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو پاکستان خود اس تجربے کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ پے در پے مالیاتی تناؤ سے گزرنے کے دوران آئی ایم ایف سے مدد حاصل کرنے کی پاکستان کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے متعدد قرضے حاصل کرنے کے باوجود‘ ملک کو مسلسل اقتصادی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ ان چیلنجوں میں مالیاتی خسارہ‘ قرضوں کا نا قابلِ برداشت بوجھ‘ افراطِ زر کا دباؤ اور معیشت میں ساختی مسائل شامل ہیں۔ پاکستان 1950ء میں ہی آئی ایم ایف کا ممبر بن گیا تھا۔ 1958ء میں حکومت نے پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست کی۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے طویل تجربے کی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے یہ اصرار کرنا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں شمولیت پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکال سکتی ہے‘ کوئی عقلی یا سائنسی سوچ نہیں ہے۔