The Country Without a Post Office نامی شعری مجموعے کا شمار ہمارے وقت کی اہم ترین شعری تخلیقات میں ہوتا ہے۔ یہ انگریزی زبان کے ایک اہم ترین کشمیری امریکن شاعر آغا شاہد علی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح اس میں بھی جلاوطنی‘ تڑپ اور وطن کو کھو دینے سے متعلق نظمیں ہیں۔ یہ مجموعہ مجھے ایک دعوت نامہ دیکھ کر یاد آیا جو اُس تقریب کا ہے جو آغا شاہد علی کی یاد میں اگلے ہفتے ٹورانٹو میں منعقد ہو رہی ہے جس میں ہمارے دور کے اس بڑے شاعر کے فن و شخصیت کے بارے میں گفتگو ہو گی۔ اس مشہور شعری مجموعے کی کچھ نظموں میں ڈبلیو بی ییٹس (William Butler Yeats)‘ ایملی ڈکسن اور جیرارڈ مینلی ہاپکنز جیسے انگریزی کے مقبول و مشہور شاعروں کے ایپی گراف ہیں۔ کتاب کے متعدد حصوں کا انتساب آغا شاہد علی نے اپنے دوستوں کے نام کیا ہے۔ جیسا کہ تعارف و دیباچہ ان کے بچپن کے دوست عرفان حسن کے لیے وقف ہے اور یہ پورا مجموعہ ان کی والدہ اور امریکی شاعر جیمز میرل کے لیے وقف ہے۔ تعارف میں روسی شاعر اوسیپ مینڈیلسٹم کی ایک سطر کو بطور ایپی گراف استعمال کیا گیا ہے جس میں کشمیر ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ آغا شاہد علی کے لیے گھر سے مراد بڑی حد تک ایک خیالی وطن ہے جس میں جلاوطنی کے احساسات موجود ہیں۔ اس مجموعے میں جلاوطنی‘ مابعد نو آبادیات اور ابلاغ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی نظم بھی شامل ہے جسے ڈینیل ہال نے آغا شاہد علی کی سیاسی نظموں میں سب سے زیادہ پُرجوش قرار دیا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اور نظم ''میں آدھی رات کو نئی دہلی سے کشمیر دیکھ رہا ہوں‘‘ میں آغا شاہد علی نے مقبوضہ کشمیر میں تشدد کا تصور کرنے کی کوشش کی۔ یہ نظم کہ ''میرے والد کو مت بتانا کہ میں مر گیا ہوں‘‘ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی گمشدگیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک نظم مولوی عبدالحئی کے لیے وقف ہے جن کا بیٹا رضوان 1990ء کی دہائی میں سرحد پار کر گیا تھا اور واپسی پر راستے میں مارا گیا اور بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بغیر دفن ہوئے مٹی میں شامل ہو گیا تھا۔ نظم ''اے ہسٹری آف پیسلے‘‘ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کے ساتھ شِو اور پاروتی کی کہانی کو جوڑتی ہے۔
اس مجموعے میں ایک خط بھی شامل ہے جس میں دنیا کو ایک ایسے خطے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے جہاں سے کوئی خبر نہیں ملتی اور جہاں پر تشدد اور موت عام ہے اور ہر کوئی اپنا پتہ اپنی جیب میں رکھتا ہے تاکہ کم از کم اس کی لاش گھر پہنچ جائے۔ خطوط اور ڈاکخانوں کے استعاروں کے ذریعے آغا شاہد علی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے المیے کی گواہی بھی دیتا ہے اور اسی وقت اسے دنیا کے سامنے بیان کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہاں امن قائم ہو جائے۔ مجموعے کی شاہکار نظمThe Country Without a Post Officeاصل میں پہلی بار گراہم ہاؤس ریویو میں Kashmir without a Post Officeکے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ آغا شاہد علی نے اس پر نظر ثانی کی ہے۔ یہ نظم مقبوضہ کشمیر میں بدامنی کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جو 1990ء میں عروج پر تھی۔ ریاستی مشینری نے خطے میں پوسٹل سروسز کو سات ماہ کے لیے معطل کر دیا تھا۔ بھارتی فوج نے کچھ ڈاک خانوں کو بنکروں میں تبدیل کر دیا تھا۔ مذکورہ نظم میں شاہد نے کشمیر کو برباد پتوں کی سرزمین لکھا ہے اور ان خطوط اور پیکیجز کا حوالہ دیا ہے جن کے ڈھیر ڈاک خانوں میں پڑے ہوئے تھے اور وہ کبھی ڈیلیور نہیں ہوئے۔ وہ اس دوران پیدا ہونے والے مزید پریشان کن تجربات کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔یہ نظم چار حصوں میں لکھی گئی ہے۔ پہلا حصہ مقبوضہ کشمیر واپس آنے والے راوی کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ دوسرے بند میں خطے میں تشدد کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ایسے لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو کوشش کے باوجود ایک دوسرے سے بات کرنے سے قاصر ہیں۔ پوسٹل اسٹامپ پر کسی قوم کا ذکر نہیں ہے کیونکہ یہ خطہ متنازع ہے۔ تیسرے حصے میں راوی لوگوں کو ڈاک ٹکٹ خریدنے کے لیے بلاتا ہے۔ چوتھے اور آخری حصے میں راوی ان خطوط کو پڑھتا ہے جو جمع ہو چکے ہیں۔ دھیرے دھیرے راوی پاگل پن کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا اختتام اس خیال پر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنا پسند کرے گا۔ یہ نظم آغا شاہد علی نے اپنے بچپن کے دوست عرفان حسن کی طرف سے موصول ہونے والے خط سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ خط میں سری نگر کے جواہر نگر میں پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا گیا جہاں عرفان حسن نے ایک پوسٹ آفس میں خطوط کا ڈھیر دیکھا۔ ان میں سے بہت سے خط اُس کے اور آغا شاہد علی کے والد کے نام لکھے ہوئے تھے‘ جو آغا شاہد علی نے بھیجے تھے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عرفان حسن نے اپنے خاندان کے ایک فرد کے ذریعے آغا شاہد علی کو ایک خط بھیجا جس میں انہیں اس بارے میں بتایا گیا۔
اس نظم نے آغا شاہد علی کو گوگن ہائیم فیلوشپ اور ہمارے وقت کے انگریزی کے ایک اہم ترین شاعر کے طور پر شناخت دی۔ امریکی مصنف ہیڈن کیروتھ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ''علی مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک بڑی‘ فیاض‘ ہمدرد‘ طاقتور اور فوری آواز میں بولتے ہیں۔ اس ملک میں بہت کم شاعروں کے پاس ایسی آواز یا اس طرح کا موضوع ہے‘‘۔ ایڈورڈ سعید نے لکھا کہ ''یہ وہ شاعری ہے جس کی اپیل آفاقی ہے‘‘۔ جان ایشبیری نے شاہد کو امریکہ کے بہترین نوجوان شاعروں میں سے ایک کہا۔ امریکی مصنف جوزف ڈوناہو نے لکھا کہ شاعر اپنے وطن کی تباہی کا تصور کرتا ہے‘ ذات کے دائرے سے ایک وسیع شاعری کی طرف بڑھتا ہے جو سیاسی تشدد اور المیے کے درمیان احساس کی سالمیت کو برقرار رکھتا ہے۔ The Country Without a Post Office نامی نظم کا کئی ثقافتی اور سیاسی شخصیات نے حوالہ دیا ہے۔ اس نظم کو عالمی سطح پر سراہے جانے سے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں لکھی جانے والی سب سے مشہور نظموں میں سے ایک بننے تک‘ یہ ایک ایسی نظم تھی جو زمین اور خطے کے لوگوں سے جڑی ہوئی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر کے درد کو بیان کیا گیا تھا۔ آغا شاہد علی کی اس نظم نے کشمیری ادیبوں اور مصنفین کو متاثر کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے ناول نگار مرزا وحید نے لکھا کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے اس وحشت کے درمیان یہ شاہد ہی تھا جس نے اندھیرے پر روشنی ڈالی۔ 2016ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک ثقافتی شام کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی وجہ سے کنہیا کمار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس تقریب کے لیے کیمپس میں اس نظم کے نام کے پوسٹر چسپاں کیے گئے تھے۔ اگست 2019ء کے واقعے پر بوسٹن ریویو نے لکھا تھا: کشمیر ایک بار پھر بغیر پوسٹ آفس کے ملک میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس طرح اس نظم نے مشہور انگریزی شاعروں اور ادیبوں سے لے کر مقبوضہ کشمیر کے عام آدمی تک یکساں رسائی حاصل کی اور ان کے دلوں کو چھوا۔ اس شعری مجموعے کے علاوہ فیض احمد فیض کی شاعری کا انگریزی ترجمہ بھی آغا شاہد علی کا عظیم کارنامہ ہے جو ان کو اس دور کی اہم ادبی شخصیات کی صف میں شامل کرتا ہے۔