آج میں جس آدمی کے بارے میں لکھ رہا ہوں‘ اس کو آپ لکھاریوں کا باوا آدم کہہ سکتے ہیں۔ اس شخص نے ایک ایسے دور اور ماحول میں 260سے زائد کتابیں لکھی ہیں جس دور میں ایک کتاب لکھنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن یہاں ایک یا دو نہیں‘ بات ہو رہی ہے260کتب کی۔ یہ کتابیں بھی کوئی ہلکے پھلکے‘ رومانوی‘ ادبی یا جاسوسی موضوعات پر نہیں‘ بلکہ سائنس اور فلسفے کے مشکل اور پیچیدہ ترین موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے جیومیٹری پر 32کتابیں لکھیں۔ طب اور فلسفہ پر اس نے 122کتابیں لکھیں۔ اسی طرح منطق پر نو‘ فزکس پر بارہ کتابیں لکھیں۔ میں یہاں جس نابغۂ روز گار شخصیت کا ذکر کر ہا ہوں اس کا نام یعقوب ابنِ اسحاق الکندی ہے۔ اس کے چھوڑے ہوئے ورثے میں اس کی کچھ کتابوں کے علاوہ اس کے بارے میں مشہور ہونے والی کئی المناک کہانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کہانیاں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ میں مسلم دنیا اور سلطنتوں کے اندر آزادیٔ اظہار و فکر پر کس قدر پابندیاں تھیں اور نئی بات کرنے والوں اور نئی سوچ سوچنے والے کس طرح جابر‘ ظالم یا متعصب حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے سچائی کو سامنے لائے اور اس کی اپنی زندگی سمیت کیا کیا قیمت ادا کی۔ ان کہانیوں سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم دنیا میں سائنسی اور عقلی سوچ کیوں نہ پنپ سکی اور یہ راز بھی کھلتا ہے کہ آج بھی مسلم دنیا سائنس‘ فلسفہ‘ علم اور منطق سے اتنی دور کیوں ہے۔ اگرچہ ان کی زیادہ تر کتابیں صدیوں کی بے توجہی اور عقل دشمنی کی مہمات کے دوران گم ہو چکی ہیں لیکن چند ایک لاطینی ترجمے کی صورت میں زندہ بچ گئی ہیں جو کریمونا کے جیرارڈ نے کیے ہیں اور دیگر عربی نسخوں میں دوبارہ دریافت ہوئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے کھوئے ہوئے کاموں میں سے 24نسخے بیسویں صدی کے وسط میں ترکی کی ایک لائبریری سے ملے۔ الکندی کوفہ کے ایک معتبر گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ سردار اشعث بن قیس سے تعلق رکھتا تھا‘ جنہوں نے دورِ نبوت دیکھا۔ یہ خاندان ابتدائی اسلامی دور میں کوفہ کے سب سے نمایاں خاندانوں میں سے ایک تھا‘ لیکن بعد میں عبدالرحمن بن محمد بن الاشعث کی بغاوت کے نتیجے میں اس قبیلے نے اپنی زیادہ تر طاقت کھو دی تھی۔
یعقوب الکندی کے والد اسحاق‘ بصرہ کے گورنر تھے اور الکندی نے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ بعد میں وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے بغداد چلے گئے‘ جہاں انہیں عباسی خلیفہ المامون کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ الکندی کے مطالعہ کے شوق اور ان کی غیرمعمولی ذہانت و قابلیت کی وجہ سے انہیں خلیفہ کی خصوصی توجہ حاصل ہو گئی۔ آگے چل کر المامون نے انہیں بغداد میں یونانی فلسفہ اور سائنسی علوم کے ترجمے کے مرکز ''ہاؤس آف وزڈم‘‘ میں تعینات کر دیا۔ اس دانش گاہ میں الکندی نے بہت زیادہ کام کیا۔ اس نے ایک طرف یونانی فلسفے کو عربی میں متعارف کروایا اور دوسری طرف ہند کے حسابی نظام پر کام کیا۔ جب المامون کا انتقال ہوا تو اس کا بھائی معتصم خلیفہ بنا۔ معتصم کی خلافت کی وجہ سے الکندی کی پوزیشن میں مزید اضافہ ہوا۔ خلیفہ نے اسے اپنے بیٹے کا ٹیوٹر بھی مقررکر دیا۔ لیکن آنے والے وقتوں میں قدامت پرست اور مذہبی شدت پسندی کے شکار حکمرانوں کے زیر اثر الکندی کو سخت مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘ بالخصوص المتوکل کے دور میں الکندی کو سخت مخاصمت اور تعصب کا سامنا رہا۔ اس بارے میں مختلف نظریات اور روایات موجود ہیں۔ بیشتر تاریخ دان الکندی کے زوال کو ایوانِ حکمت میں علم دشمنی کے رحجانات کا تیزی سے فروغ اور ان کی مضبوطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں متوکل کے غیر روایتی مسلمانوں اور غیرمسلموں کے ساتھ اکثر متشدد رویے اور ظلم و ستم کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ متشدد رویوں کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر الکندی کو مارا پیٹا گیا اور ان کی لائبریری کو ضبط کر لیا گیا۔ ہینری کوربن‘ جن کو مسلم علوم پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ 873ء میں بغداد میں الکندی کی موت ''ایک تنہا آدمی‘‘ کے طور پر ہوئی تھی‘ جس کو حکمرانوں اور سول سوسائٹی دونوں نے دھتکار دیا اور فراموش کر دیا تھا۔ اس کی موت کے بعد الکندی کا فلسفیانہ کام تیزی سے منظرِ عام سے غائب کر دیا گیا۔ Felix Klein- Franke اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک المتوکل کے متشدد اور قدامت پرستانہ نظریات کے علاوہ کئی دوسرے عوامل تھے جنہوں نے الکندی کے کام کو شدید نقصان پہنچایا۔ منگولوں کے حملوں کے دوران اُن بے شمار لائبریریوں کو بھی تباہ کر دیا گیا تھا جن میں الکندی کا زیادہ تر کام محفوظ تھا۔ تاہم‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ الکندی کی تحریروں کو بعد میں آنے والے بااثر فلسفیوں جیسے الفارابی اور ابنِ سینا نے مسترد کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں جس روایت کو سب سے زیادہ قبول کیا گیا‘ وہ یہ ہے کہ الکندی کی فکر کے مخالفین نے ملک کی قدامت پرست اور رجعت پسند قوتوں کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کیا اور اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ اٹھتا تھا اور تماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
مورخین کی ایک بڑی تعداد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق الکندی کو اس کے حریفوں اور کئی علم و عقل دشمن قوتوں کی طرف سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ خاص طور پر خلیفہ المتوکل کے دور میں اس کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی زندگی کا یہ دور سب سے مشکل ترین دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کچھ تاریخ دان اس دور کو باقی ادوار کی نسبت بہتر قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دانشوروں اور فقہا کے بارے میں خلیفہ کا رویہ کافی نرم تھا۔ اسی دور میں امام احمد بن حنبلؒ کو رہا کیا گیا تھا مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اسی دور میں غیرمسلموں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا گیا۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ساتھ ہی روشن خیال اور سائنسی و عقلی خیالات رکھنے والے مسلم سکالرز بھی تشدد اور ناانصافی کا شکار ہوئے۔ اس دور میں ایسے افراد و گروہ بہت مضبوط اور با اثر ہو گئے تھے جن میں مذہبی رواداری نہیں تھی۔ ان کی سوچ میں شدت پسندی تھی۔ وہ غیرمسلموں کے دشمن تو تھے ہی لیکن مسلم معاشرے کے اندر بھی کسی نئی سوچ یا خیال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ خاص طور پر بنو موسیٰ برادران نے علمی و سائنسی رقابت میں اس کے خلاف کئی سازشیں کیں۔ انہوں نے الکندی کے خلاف خلیفہ المتوکل کے کان بھرے اور اس کی لائبریری کی تمام کتابوں کو ضبط کر کے بنو موسیٰ کے حوالے کر دیا۔ آگے چل کر حالات مزید خراب ہوتے گئے یہاں تک کہ 873ء میں خلیفہ المعتمد کے دور میں بغداد میں الکندی کا انتقال ہو گیا۔ الکندی کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ اس کا شکار آج بھی کئی مسلم سکالرز اور دانشور ہو رہے ہیں۔ اس طرح بیشتر مسلم ممالک میں سائنس اور عقل دشمنی کا جو ماحول نظر آتا ہے‘ وہ اسی طرح وسیع پیمانے پر پائی جانے والی شدت پسندی اور رجعت پسندی کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک کی معاشی و سماجی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہی علم و عقل دشمنی ہے جس کی سماج پر گرفت ہے۔