عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ دنیا بھر میں دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے؛ حالانکہ عالمی قوانین اور سیاست پر دسترس رکھنے والے افراد کو اس مقدمے کے نتائج کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ۔ اگرچہ فریقین کے لیے عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا لازم ہے لیکن اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو عدالت کے پاس اپنے فیصلے کے نفاذ کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ نفاذ کے لیے یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جا سکتا ہے جہاں امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتیں ویٹو کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ طاقتیں اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ تصادم میں پورے طریقے سے اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں اور اسرائیل کے حق میں بار بار ویٹو کا حق استعمال کر چکی ہیں۔ اس مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک کئی برس لگ سکتے ہیں۔ دریں اثنا کورٹ کے عارضی احکامات کو یا تو نظر انداز کر دیا جائے گا یا پھر ویٹو کے ذریعے اس کے نفاذ سے بچا جائے گا۔ یہ مایوس کن صورتحال ہے جو اس وقت عالمی قوانین اور سیاست میں بہت بڑی کمزوری اور خلا کی عکاس ہے۔
ہمارے دور میں عالمی سطح پر ملکوں اور قوموں کے باہمی انحصار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک بین الاقوامی قانون سازی اور عالمی قوانین کے نفاذ کا کوئی اجتماعی ادارہ معرضِ وجود میں نہیں آیا۔ اس وقت بین الاقوامی قانون کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن عام طور پر اس طرح کے قانون کو عالمی سطح پر لاگو کرنا ایک مسئلہ رہا ہے۔ عام طور پر عالمی قانون صرف ان ممالک پر لاگو کیا جاتا رہا ہے جنہوں نے ان قوانین پر عمل کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اسی رضا مندی کی بنیاد پر عالمی عدالتِ انصاف کا کردار سامنے آیا ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے نہ صرف تنازعات پر فیصلے کیے ہیں بلکہ اس بات پر بھی مشاورتی فیصلے کیے ہیں کہ عالمی قوانین کیا ہیں اور کیا نہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف کو ابتدائی طور پر 1922ء میں بین الاقوامی انصاف کی مستقل عدالت کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ آگے چل کر 1946ء میں یہ عدالت اقوامِ متحدہ کا ادارہ بن گئی۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس کو دوبارہ منظم کیا گیا اور اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے قیام کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا بڑا مقصد بین الاقوامی تنازعات میں فیصلہ کن ادارے کے طور پر کام کرنا ہے لیکن اس مقصد کے لیے اس عدالت کے دائرہ اختیار کی شرط ہے۔ اس کا دوسرا بڑا مقصد عالمی برادری کے لیے قانونی معاملات پر مشاورتی کردار ادا کرنا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے کیس پیش کرنے کے لیے کئی ایک شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر دو یا دو سے زیادہ ممالک کسی معاہدے کے ذریعے اس بات پراتفاق کریں کہ ان کے درمیان باہمی تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ عالمی عدالتِ انصاف کو اختیار دیتے ہیں تو وہ ممالک عدالت کے دائرہ اختیار میں آ جاتے ہیں۔ جن ممالک کو فی الحال اس عدالت میں مقدمات پیش کرنے کی اجازت ہے ان میں اقوامِ متحدہ کے 185ممبران کے ساتھ ساتھ سوئٹزر لینڈ جیسی کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے پاس اپنے فیصلوں کی عدم تعمیل کے لیے درکار نفاذی اختیارات نہیں ہیں۔ اس ادارے کے پاس کوئی پولیس فورس نہیں ہے۔ عدالت کے فیصلوں کے اثرات کو مزید محدود کرتے ہوئے آئین کا آرٹیکل 59 کہتا ہے کہ عدالت کے فیصلے کا کوئی پابند نہیں ہوتا سوائے فریقین جو رضاکارانہ طور پر اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی راہ میں دو اہم ترین رکاوٹیں یہ ہیں کہ اس کے پاس اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے جولائی 1996ء میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال یا خطرے کی قانونی حیثیت پر ایک مشاورتی رائے پیش کی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اپنی قوم کی تباہی کو روکنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار رکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور ایسا کرتے ہوئے ان کے استعمال کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ عدالت قانونی لحاظ سے بھی جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا نفاذ کر سکے۔ مثال کے طور پر اگر جاپان دوسری جنگِ عظیم میں بموں کے استعمال پر امریکہ پر مقدمہ دائر کرے تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ جاپان اس بنیاد پر مقدمہ جیت سکتا ہے کہ امریکہ نے محض اپنے تحفظ کے لیے بم نہیں گرایا تھا تو امریکہ سے معاوضہ ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے‘ لیکن اپنے ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔ یہ نفاذ کا وہی مسئلہ ہے جو مجموعی طور پر اقوامِ متحدہ کو ایک مؤثر عالمی ادارے کے طور پر کام کرنے سے روکتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ قانون کا مسئلہ بھی کافی اہم ہے۔ اکثر عدالت میں پیش کیے جانے والے مقدمات ان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے لڑے جاتے ہیں۔ چونکہ بین الاقوامی سطح پر لاگو ہونے والے قوانین کا کوئی ایک مجموعہ نہیں ہے‘ اس لیے اکثر یہ بحث ہوتی ہے کہ کون سا قانون لاگو ہونا چاہیے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال لاکر بی بومبنگ کا مشہور مقدمہ تھا۔ اس مقدمہ میں لیبیا کا یہ مؤقف تھا کہ 1971ء کے مونٹریال کنونشن کے تحت وہ لاکربی سکاٹ لینڈ کے اوپر پین ایم فلائٹ 103پر بمباری کرنے والے دو لیبیائی شہریوں کو سزا دینے کا مجاز ہے۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ دونوں کا مؤقف تھا کہ مونٹریال کنونشن اس معاملے میں لاگو نہیں ہوتا اس لیے انہیں برطانیہ کے حوالے کیا جانا چاہیے اور ان کا مقدمہ برطانیہ میں چلنا چاہیے۔ ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سب سے پہلے عالمی عدالتِ انصاف کو ایک حقیقی طاقت کے طور پر کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کو واضح طور پر مرتب اور متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا دائرہ اختیار کا از سر نو تعین بھی ضروری ہے۔ اب تک اس عدالت کا زیادہ وقت بین الاقوامی تنازعات میں دائرہ اختیار پر بحث کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نسل کشی سے متعلق ایک مشہور تاریخی مقدمہ بوسنیا ہرزیگوینا بمقابلہ یوگوسلاویہ تھا۔ لیکن نسل کشی کی کارروائیوں کے وقت بوسنیا اقوامِ متحدہ کا رکن یا نامزد دیگر ممالک میں سے ایک نہیں تھا‘ اس لیے یہ دلیل دی گئی کہ اس معاملے میں عدالت کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔
اب آتے ہیں اس اہم معاملے کی طرف جو اس وقت کچھ حلقوں میں زیر بحث ہے کہ اس مقدمہ کے لیے جنوبی افریقہ نے ہی کیوں پہل کی ہے جبکہ دنیا میں پچاس سے زائد اسلامی ملک ہیں جنہیں یہ کام کرنا چاہیے تھا۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کی اہم وجہ جنوبی افریقہ کی افریقن نیشنل کانگرس ہے۔ اس پارٹی نے نسل پرستی کے خلاف اور قومی آزادی کے لیے تاریخی جدو جہد کی ہے۔ اس پارٹی کو اپنے ورثے پر ناز ہے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران اس پارٹی کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اس دور میں نیشنل کانگرس کا پوری دنیا کی آزادی کی تحریکوں سے قریبی تعلق رہا ہے۔ پی ایل او اور یاسر عرفات کے ساتھ اس پارٹی کے بہت ہی قریبی تعلقات رہے ہیں۔ نیلسن مینڈیلا کی یاسر عرفات کے ساتھ ذاتی دوستی بھی تھی اور وہ فلسطین کی آزادی کے پُر جوش حامی تھے۔ نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ جنوبی افریقہ کی آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا۔ افریقی نیشنل کانگرس نے اپنے ماضی کے اس شاندار ورثہ کی روشنی میں یہ دلیرانہ قدم اٹھایا ہے۔