اگست 1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو جنرل اختر عبدالرحمن شہید‘ جو اس وقت سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے‘ مشرقی پنجاب (بھارت) میں تعینات تھے۔ اس دوران وہ ہندو بنیے کی متعصبانہ ذہنیت اور مکاری کو بہت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور بنیے کی بربریت کا بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ ہندو اور مسلمان کبھی دوست نہیں ہو سکتے‘ جب بھی موقع ملے گا، یہ مسلمانوں کو نقصان ضرور پہنچائیں گے۔ اسی وجہ سے بھارت اور اس کی متعصب قیادت سے انہوں نے اپنی نفرت کو کبھی نہیں چھپایا تھا۔ دسمبر 1964ء میں اختر عبدالرحمن 24فیلڈ رجمنٹ کے سیکنڈ اِن کمانڈ ہو کر لاہور پہنچے تو اس وقت انہیں معلوم نہ تھا کہ چند مہینے بعد ستمبر 1965ء میں انہیں بھارت کے خلاف جنگ میں شرکت کا موقع ملنے والا ہے۔
پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 18برس ہو چکے تھے۔ اس عرصہ میں سیاسی بے اعتدالیوں کے باوجود، یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا۔ ظاہر ہے، بھارت کو یہ گوارہ نہیں تھا اور اس نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور اس کی ترقی کا پہیہ جام کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ مئی 1965ء میں دسویں ڈویژن کے دستے برکی کے بارڈر پر تعینات ہوئے تو جنرل اختر عبدالرحمن نے‘ جو اس وقت میجر تھے‘ بی آر بی نہر کے پار بنگالی گاؤں میں اپنا خیمہ لگا لیا۔ اگلے چار مہینے میں وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہو چکے تھے۔ 6ستمبر کو بھارت نے حملہ کیا تو اس وقت ان کی طبیعت اگرچہ کچھ ناساز تھی، لیکن جنگی تیاری ہر طرح سے مکمل تھی؛ چنانچہ حملے کی اطلاع ملتے ہی وہ ناسازیٔ طبع کو بھول کر اپنے خیمے سے نکل کر دو میل جنوب میں واقع رجمنٹل کمانڈ پوسٹ پر چلے گئے، جو وہاں امردوں کے ایک چھوٹے سے باغ میں قائم کی گئی تھی۔ میجر شفقت بلوچ نے وائرلیس پر بھارتی ٹینکوں کے حرکت میں آنے کی اطلاع دی۔ دفاعی پلان یہ تھا کہ جنگ شروع ہوتے ہی اگلے مورچوں پر تعینات توپچیوں کو بی آر بی نہر کے اِس طرف منتقل کر لیا جائے گا؛ چنانچہ جب میجر شفقت بلوچ اپنے جوانوں کو لے کر پیچھے ہٹ رہے تھے تو میجر اختر نے بھی اپنے جوانوں کو طے شدہ دفاعی منصوبے کے تحت پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔
بدقسمتی سے توپ کھینچنے والی ایک گاڑی عین وقت پر خراب ہو گئی۔ میجر اختر کو اس کی اطلاع دی گئی۔ ان کا جوابی حکم تھا کہ کچھ بھی ہو‘ مقررہ وقت کے اندر اندر توپوں کی واپسی ہوگی۔ اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا اور پل کو اڑانے کیلئے فیتے کو آگ لگائی جا چکی تھی، جب برکہ کلاں سے آخری توپ کی واپسی ہوئی اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک زبردست دھماکا ہوا اور پل کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔
7ستمبر کی صبح میجر اختر کو ہنگامی طور پر آرٹلری بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا گیا اور مطلع کیا گیا کہ ان کا بریگیڈ میجر بیمار ہو گیا ہے، لہٰذا اب انہی کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں بھی فرائض دینا ہوں گے۔ تازہ احکامات ملنے کے بعد میجر اختر آرٹلری کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئے کہ اطلاع آئی کہ بھارتی ٹینک برکہ کلاں کے قریب پہنچ چکے ہیں، یعنی وہ ہڈیارہ سیم نالہ، بی آر بی سائفن کے نیچے سے گزر کر لاہور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میجر اختر کا کوارٹر ماسٹر بھی قریبی علاقے میں تھا۔ انہوں نے وائرلیس پررابطہ کیا اور اس اطلاع کی تصدیق چاہی۔ ایک کیپٹن فوراً اپنی بے نشان جیپ پر سائفن کے نیچے سے گزر کر موقع پر پہنچا، وہاں کوئی ٹینک نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن اسلحہ سے بھری کچھ گاڑیاں ضرور موجود تھیں۔ اس نے میجر اختر کو اس بارے میں آگاہ کر دیا۔ میجر اختر خود بھی موقع پر پہنچے اور واپسی پر توپچی کو فائر کا حکم دیا۔ یوں برکی کے محاذ پر دفاع لاہور کے لئے جو پہلی گولی چلی، وہ میجر اختر کے حکم پر چلائی گئی۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے ایک بار خود بھی اپنے رفقائے کار کو بتایا کہ ''لاہور کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج پر پہلی گولی ہماری یونٹ نے چلائی تھی، اور اسی لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ ہم نے بھارتی فوج کو گردن سے دبوچ لیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے بھارتی پیش قدمی کی رفتار کو اس وقت تک روکے رکھا، جب تک کہ ہماری فوج نے اس محاذ پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم نہیں کرلیا‘‘۔ جنرل اختر عبدالرحمن کو اس پر بھی فخر تھا کہ 1965ء کی جنگ میں برکی کے محاذ پر ان کے توپچیوں نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ فی گھنٹہ 60، 65گولوں کی عام اوسط کے بجائے ان کے توپچیوں نے فی گھنٹہ 120گولے برسائے تھے اور بعض مواقع پر اتنی شدید گولہ باری کی تھی کہ توپوں کے دہانے سرخ ہو گئے تھے۔ اس سترہ روزہ جنگ کا ایک اور واقعہ بھی ان کا یاد گارتھا، جب گولوں کو محاذ تک پہنچانے کیلئے گاڑیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ 24فیلڈ رجمنٹ کا اسلحہ ڈپو ہوائی اڈے کے بالکل قریب واقع تھا، لیکن شہر سے ٹرک لے کر وہاں تک پہنچانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ اس پر ہوائی اڈے کے ساؤنڈ سسٹم سے اعلان کرایا گیا کہ محاذ جنگ پر گولے پہنچانے کیلئے گاڑیوں کی فوری ضرورت ہے۔ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ اعلان کردہ مقام پر ہر طرح کی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، جن میں بالکل نئی اور چمکدار مرسیڈیز کاریں بھی شامل تھیں۔ جنگی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ گولہ بارود اس طرح کاروں میں ڈال کر محاذ جنگ پر پہنچایا گیا ہو۔ اس وقت پوری قوم کا جوش و خروش دیدنی تھا۔
بھارت نے دوسرا حملہ واہگہ کے راستے سے کیا، لیکن یہ حملہ بھی ناکام بنا دیا گیا۔ 9ستمبر کی رات تک بھارتی حملے کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ جنگ کو 84گھنٹے گزر چکے تھے۔ دنیا کے سامنے بھارت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھل چکی تھی۔ لاہور جم خانہ میں پہنچ کر فتح کا جشن منانے کے بلند بانگ دعوے بارود کے دھویں میں تحلیل ہو چکے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ‘ جس نے لاہور پر بھارتی قبضے کی جھوٹی خبر نشر کی تھی‘ اپنی خفت چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دنیا جان چکی تھی کہ پاکستانی فوج نے اپنے سے تین گنا بڑی فوج کا حملہ پسپا کر دیا ہے اور بھارتی فوج پوری ایک کور کے ساتھ بھی بی آر بی نہر پار نہیں کر سکی۔ آرٹلری کمانڈ پوسٹ سے میجر اختر کا گھر صرف چار سو گز کے فاصلے پر تھا لیکن ان ابتدائی84گھنٹوں میں انہیں کسی چیز کا ہوش نہ تھا، صرف پاکستان ہی ان کی سوچ و فکر کا محور تھا۔ ان کے دل و دماغ پر ایک ہی عزم سوار تھا کہ بھارت کو ایک انچ بھی لاہور کے اندر نہیں آنے دینا‘ چاہے اس کی قیمت اپنی جان سے ادا کرنا پڑے۔ان لمحات میں ان کی آنکھوں کے سامنے اگست 1947ء کی ہجرت کے خون آشام مناظر ابھرتے تو وقت کی گرد میں دبے ہوئے ان کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے اور بھارت کے خلاف ان کا خون کھولنے لگتا تھا۔
برکی کے محاذ پر میجر اختر عبدالرحمن خان کی رجمنٹ نے اپنے حصے کا کردار ادا کر دیا تھا۔ بھارت کا بزدلانہ حملہ پسپا ہو چکا تھا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ''1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے والے شہیدوں اور غازیوں نے عہدِ رفتہ کے مسلمان مجاہدوں کی یاد تازہ کر دی تھی اور ان میں اختر عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے‘‘۔ 23ستمبر 1965ء کو جنگ ختم ہوئی اور اسی روز اختر عبدالرحمن کو میجر کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا، جو جنگِ ستمبر میں ان کے بھرپور کردار کا اعتراف تھا۔