پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن سب سے سنگین مسئلہ معاشی زبوں حالی اور معیشت کی دگرگوں صورتحال ہے۔ معیشت کو درپیش مسائل نہایت پیچیدہ، مستقل اور بنیادی نوعیت کے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ یہ بحران ہمہ جہتی ہے اور ایک دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ پچھلی کئی دہائیوں کی ناقص پالیسیوں، حکمرانوں کی عیاشیوں اور مراعات یافتہ طبقات کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ ہے۔ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بالخصوص پچھلی تین دہائیوں سے ملکی آمدنی میں زیادہ خرچ کرتے رہے ہیں اور اخراجات پورا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔ قرضوں کی مالیت بڑھتی رہی ہے۔ اب ہمارے مجموعی قرض کی مالیت اتنی بڑھ چکی ہے (13ٹریلین سے تجاوز کر چکی ہے) کہ ہمارے ریونیو بجٹ کا 70فیصد سے زیادہ حصہ قرضوں پر واجب الادا سود اور دیگر ادائیگیوں کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے۔ باقی ماندہ 30فیصد سے دفاعی اخراجات بھی بمشکل پورے ہوتے ہیں لہٰذا روزمرہ کے حکومتی امور نپٹانے پر اٹھنے والے اخراجات اور ترقیاتی پروگراموں کے لیے قرض پر انحصار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا کل قرض 13ٹریلین سے تجاوز کر چکا ہے جو ہماری جی ڈی پی کے 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور بیرونی قرض کی سطح نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور تقریباً 60ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں ٹیکس ریونیو مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 13 فیصد کے برابر تھا۔ اب یہ گھٹ کر 9فیصد کے قریب رہ گیا ہے جس کی وجہ سے خسارے کا بجٹ بنتا ہے۔ بجٹ کے رخنے کو پورا کرنے کے لیے حکومت بیرونی قرضوں کے علاوہ سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں سے قرض لیتی ہے جس سے ملک میں زر کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مہنگائی پیدا ہوتی ہے۔ مالیاتی خسارے کی وجہ سے روپے کی قدر گرتی ہے اس سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تمام کلیاتی معاشی مظاہر کی صورتحال دگرگوں ہے۔ مالیاتی خسارے اور انرجی کے بحران کے منفی اثرات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت نے مشکل اور غیر مقبول فیصلے لینے کے لیے درکار سیاسی عزم کے فقدان کا مظاہرہ کیا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال کا بجٹ خسارہ 1600 ارب سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ حکومت نے اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے بینکوں سے دھڑا دھڑ قرض لیا ہے جس سے پرائیویٹ سیکٹر کو قرض کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور سرمایہ کاری میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملک کی کثیر آبادی غربت اور افلاس کی زندگی بسر کررہی ہے۔ پینے کے لیے صاف پانی اور بجلی کی سہولت سے بھی وہ محروم ہے۔ صحت کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ سیلاب، قحط سالی اور بیماریاں نہ صرف ان کو بلکہ ان کے لائیو سٹاک کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ناقص غذا، ناخواندگی، بیماریاں، بلند شرح پیدائش، بے روزگاری اور پست آمدنیاں شدید معاشی بحران کی علامتیں ہیں۔ یہ سب کچھ قدرتی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ذرائع پیداوار کے ناقص اور غیر موثر استعمال، بدعنوانیوں، بری حکمرانی اور اشرافیہ کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کا فقدان ہے۔ سیاسی قیادت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور معاشی بحالی کے ایجنڈے پر اتفاق رائے ناپید ہے۔ نظام تعلیم انتہائی فرسودہ اور انحطاط پذیر ہے اور معاشرے میں تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں بے لگام اضافہ، روزمرہ کے حکومتی امور چلانے کے لیے درکار فنڈز کی کمی، لاقانونیت، دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ، ڈرون حملے، کراچی میں لسانی جھگڑے، مذہب کے نام پر بے رحمانہ خونریزی اور خودکش حملے نہ صرف سماج، سیاست اور معیشت پر بُرے اثرات مرتب کررہے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع، کاروباری ماحول اور متوقع بیرونی سرمایہ کاری کو بھی بری طرح متاثر کررہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کے بنیادی صنعتی ڈھانچے اور انفراسٹرکچر میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوسکا۔ ہم کالاباغ ڈیم کی بحث میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ضروری آبی وسائل میں اضافے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ بیمار صنعتی اداروں کی تعداد بڑھی ہے اور کئی صنعتی ادارے بند ہوچکے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کی تعداد 40 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں آنے والے سیلاب سے انفراسٹرکچر کو وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کے لیے کثیر مالی وسائل کی ضرورت ہے لیکن مالیاتی خسارے کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز میں کمی کی جارہی ہے جس کے باعث انفراسٹرکچر مزید شکست و ریخت کا شکار ہے۔ معیشت کی گنجائش کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے قرض بوجھ متواتر بڑھتا جارہا ہے اور مالیاتی خسارہ قابو سے باہر ہورہا ہے۔ طاقتور طبقے نہایت بے شرمی سے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اپنے لیے مراعات بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت ریونیو اکٹھا ہوتا ہے اسے بھی ملکی اشرافیہ فضول خرچی پر اڑا دیتی ہے۔ سویلین اور خاکی بیورو کریسی، کرپٹ اور نااہل سیاستدان،مفاد پرست فیوڈل اور حریص کاروباری افراد ملک کے 80فیصد وسائل پر قابض ہیں لیکن ٹیکس ریونیو میں ان کا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔ Absentee landlord بے شمار آمدنی اور دولت کے مالک ہیں لیکن ٹیکس ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ موجودہ استحصالی، بے ہودہ، نامعقول اور غیرمنصفانہ ٹیکس نظام غریب اور امیر کے درمیان خلیج کو وسیع کررہا ہے۔ اہل ثروت لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کیلئے درکار سیاسی عزم کا فقدان ہے اور غربا پر ہر سال بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ کُل ٹیکس ریونیو کا 62فیصد سے زیادہ بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جن کا زیادہ بوجھ غریب اور محروم طبقات کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں بالواسطہ ٹیکس میں اضافہ اور براہ راست ٹیکسوں میں کمی ہوئی ہے۔ ملک میں کرپشن کا راج ہے۔ تمام ادارے اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ سیاسی بدعنوانیوں، کرپشن، مالیاتی بے ضابطگیوں اور ٹیکس چوری نے ملک کی معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ معیشت اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں قرضوں پر انحصار کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا ٹیکس ریونیو اور دیگر مالی وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے زرعی آمدنیوں پر ٹیکس عائد کرنا اور ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہوگا۔ مراعات یافتہ طبقات سے تمام اعانتیں اور رعایتیں واپس لینا ہونگی۔ براہ راست ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی کرپشن پر قابو پانا ہوگا۔ حکومتی اخراجات میں بڑی کمی کرنا ہوگی اور بیورو کریسی کا حکم بھی کم کرنا ہوگا۔ امتیازی قواعد کے ذریعے جرنیلوں، ججوں اور سینئر بیورو کریٹ کو کروڑوں مالیت کے شہری پلاٹوں کی الاٹمنٹ بند کر دینی چاہیے۔ اسی طرح واپڈ ملازمین کو مفت بجلی سپلائی کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے انہیں بھی بجلی کی قیمت ادا کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔ایسے اقدامات پر عمل کیے بغیر معاشی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔